"HRC" (space) message & send to 7575

دیر ہے‘ اندھیر نہیں

ابھی آغاز ہے۔ پیچ و خم میں‘ لاشوں کے انبار پڑے ہیں‘ مگر چراغ بھی روشن ہیں۔ یہ داستان لیکن انجام کو پہنچے گی۔ خدا کے ہاں دیر ہے‘ اندھیر نہیں۔
الجھا ہوا ذہن ادراک نہیں کرتا۔ محبت اور نفرت تجزیہ کرنے نہیں دیتی‘ لالچ اور خوف بھی۔ سیاق و سباق میں ٹھنڈے دل سے غور و فکر ہی نہ کیا تو رائے کیسی؟ کم ہی لوگ صاحب الرّائے ہوا کرتے ہیں اور اس سے بھی کم صائب الرّائے۔
حیرت ہوئی کہ وہ ہنس رہا ہے۔ خودترسی اچھی نہیں مگر اپنے زخم آلود وطن پر قہقہے؟ دعویٰ کیا کہ سب کچھ اس نے پہلے ہی بتا دیا تھا۔ کہا: بات بس اتنی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے ایک فیصلہ کر لیا۔ آپ وزیراعلیٰ رہے‘ بے شمار دولت آپ نے کمائی۔ لندن اور واشنگٹن میں جائیداد خریدی‘ جس پر عائد ٹیکس ادا نہیں کیا کہ وزیراعظم آپ کے سرپرست ہیں۔ وہی کیا‘ آج ہر بارسوخ‘ تماشائی کی طرح بات کرتا ہے۔ اس سرزمین کا کھاتے‘ اس کا پہنتے بلکہ اس کو لوٹتے ہیں مگر اس سے کوئی جذباتی تعلق نہیں۔
بات فقط اتنی سی نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نے ایم کیو ایم کی گوشمالی کا ارادہ کر لیا۔ فیصلہ اور ہے۔ اسٹیبلشمنٹ ہی نہیں‘ وفاقی حکومت بھی اس میں شامل و شریک ہے بلکہ پوری کی پوری قوم۔ رینجرز کی مدد سے کراچی میں غنڈہ گردی کا خاتمہ۔ اوّلین ہدف فرقہ پرست اور طالبان تھے‘ لیاری کی مافیاز اور حال ہی میں صوبے کی حکمران جماعت کے کرتا دھرتا اور سرکاری افسر۔
جی ہاں‘ ماضی میں متحدہ کو استعمال کیا جاتا رہا۔ جون 1995ء سے جنوری 1996ء تک جاری رہنے والے آپریشن میں ڈیڑھ سو دہشت گرد مارے گئے اور پانچ سو گرفتار۔ نوازشریف اقتدار میں آئے تو مرنے والوں کے ورثا کو 70 کروڑ روپے معاوضہ دیا۔ گرفتار قاتل رہا کر دیئے۔ مشرف نے ڈٹ کر ان کی سرپرستی کی۔ پھر 2007ء میں نوازشریف نے تمام سیاسی پارٹیوں سے وعدہ لیا کہ ایم کیو ایم سے ہرگز اتحاد نہ کیا جائے گا۔ پیپلز پارٹی مُکر گئی۔ اسے وہ مفاہمت کا نام دیتے ہیں۔ احسان جتلاتے ہیں کہ انتقام سے وہ گریزاں ہوئے۔ ان کے بقول عظیم الشان قربانیوں کے باوجود‘ شہادتوں کے باوجود۔ کون سی قربانیاں اور کون سی شہادتیں؟ قربانی وہ ہے جو ملک کے لیے دی جائے۔ شہید وہ ہوتا ہے‘ جو اللہ کی راہ میں مارا جائے۔ بالادستی کے حصول اور اقتدار کی جنگ میں نہیں۔ قرآن کریم کہتا ہے ''ومن یقتل فی سبیل اللہ...‘‘
محمد علی جناحؒ کے بعد کسی نے ملک سے وفا نہ کی۔ اقتدار کے کھلاڑیوں سے تو شکایت ہی کیا کہ طاقت کے بھکاری ذہنی مریض ہوتے ہیں۔ مانگنے والا گدا ہے‘ صدقہ مانگے یا خراج۔ عسکری قیادت نے بھی خال خال اور میڈیا نے بھی شاذ شاذ۔ ہم سب قصوروار ہیں۔ اخبار نویسوں میں ایسے ہیں‘ جنہوں نے قاتلوں کے قصیدے لکھے۔ کچھ خوف کا شکار تھے‘ کچھ مفادات اور تعصب کے اسیر۔ یہ صرف ایک گروہ کے پجاریوں کا ذکر نہیں۔
ہم میں سے ہر شخص کو اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے۔ بحران بڑا ہے۔ ایک کے بعد طوفان کی دوسری موج اٹھتی ہے۔ اسی میں مگر عظیم الشان مواقع پوشیدہ ہیں۔ جرأت مندی‘ حبّ وطن اور حکمت سے کام لیا جائے تو یہی موج کشتی کو ساحل پر لے جائے گی۔ احتساب اگر واقعی ہو سکا تو سلطانیِ جمہور ہی نہیں بلکہ آخرکار سلطانیِ عدل کا پرچم لہرائے گا۔
کیسا عجیب دعویٰ ہے کہ مجرموں کے خلاف کوئی ثبوت نہیں۔ ثبوت بہت ہیں‘ پیش کرنے والا کوئی نہیں۔ عدالت کوئی نہیں۔ 1995ء کے آپریشن میں شریک دو سو پولیس افسر قتل کر دیئے گئے اور کسی نے پوچھا تک نہیں۔ کبھی یہ تماشا کسی اور ملک میں بھی ہوا ہوگا؟ میاں محمد نوازشریف اور ان سے زیادہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں یہ لوگ قتل ہوئے۔ شاید کچھ پیپلز پارٹی کے عہد میں بھی۔ سب کے سب ذمہ دار ہیں۔ میاں صاحب‘ جنرل صاحب اور ایشیا کے نیلسن منڈیلا۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ایم کیو ایم کی قیادت نے انہیں قتل کرایا۔ صرف یہ عرض کر رہا ہوں کہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے والے گاجر مولی کی طرح کاٹ ڈالے گئے اور قوم چپ چاپ سوئی پڑی رہی۔ ان کا خون کس کے سر ہے؟ کب سے ان بیوہ عورتوں اور یتیم بچوں کی فریاد بے ثمر ہے۔ یہ اسی خوفناک بے حسی کا پھل تھا کہ گزشتہ پانچ سال کے دوران صرف کراچی شہر میں سات ہزار بے گناہ شہری گولیوں سے اڑا دیئے گئے۔ اس قوم پر خدا کیوں رحم کرے‘ جو قتلِ عام پر خاموش رہتی ہے۔
ملک کا مذاق اڑایا جاتا رہا۔ دلّی کی اس تقریر کے بارے میں کیا عرض کیا جائے؟ "The creation of Pakistan was greatest blunder in human history" (پاکستان کا قیام انسانی تاریخ کی سب سے بڑی غلطی تھی۔) اس ارشاد کے بارے میں فرمان کیا ہے کہ ''میں ان تاجروں کے نام معلوم کرنے کی کوشش کر رہا ہوں‘ جنہوں نے وزیراعظم سے شکایت کی‘‘۔ اس حکم کا مفہوم کیا ہے کہ ''کارکن ہر روز کلفٹن میں ایک گھنٹہ فائرنگ کی مشق کیا کریں؟‘‘... ''مقابلہ ہوگا تو پتہ چلے گا کہ مظلوم کا خون بہتا ہے یا ظالم کا؟‘‘
اُسی وقت ناچیز نے کہا تھا کہ بظاہر یہ بغاوت کا اعلان ہے۔ بظاہر یہ غداری کا ارتکاب ہے۔ ایک عام آدمی کا فہم یہ کہتا ہے کہ غداری کا اگر واقعی ارتکاب ہو تو اس کی سزا موت ہوا کرتی ہے؟ فیصلہ اگرچہ عدالت ہی کر سکتی ہے۔
غداری کا مقدمہ چلانے کے لیے شواہد کافی ہیں۔ ایک ایسی عدالت میں‘ جس پر ناانصافی کا الزام عاید نہ کیا جا سکے۔ جو لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ایسا ممکن نہیں‘ معاف کیجیے‘ صریحاً وہ غلط بیانی کے مرتکب ہیں۔ موزوں عدالت بنی تو عمران خان نے کیا اعلان نہ کیا کہ الیکشن میں دھاندلی سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کو وہ تسلیم کریں گے۔ غداری اور بغاوت کے الزامات کا فیصلہ بھی اسی طرح کی عدالت میں ہوگا۔ کھلے عام مقدمہ چلے۔ دنیا بھر سے قانونی ماہرین اور عدالتی مبصرین کو موقع مہیا کیا جائے کہ وہ کارروائی کا جائزہ لیتے رہیں۔ اب اس کے متحمل بہرحال اب ہم نہیں کہ صرفِ نظر کرتے رہیں۔ گندگی قالین کے نیچے دھکیلتے رہیں۔ سارا گھر سڑانڈ سے بھر گیا ہے۔ اغماض کا اب سوال ہی نہیں۔
ایک مضحکہ خیز ''دلیل‘‘ یہ ہے کہ مختلف گروہوں پر مدتوں سے غداری کے الزامات عائد ہوتے رہے۔ جی نہیں‘ وہ الزامات سیاسی آویزش میں لگے۔ یہ بے گناہوں کا قتل عام ہے۔ جی نہیں‘ فیلڈ مارشل ایوب خان نے مادرملت کو بھارتی ایجنٹ ہرگز نہ کہا تھا بلکہ ان کے بعض ساتھیوں کو۔ اگرچہ یہ بھی لغو حرکت تھی۔ محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت کرنے والے ان سیاسی عناصر کے بارے میں تحریک پاکستان کی مخالفت کے جو مرتکب تھے۔ تحریک پاکستان سے اختلاف ایک اور چیز ہے‘ غداری الگ۔ غداری کا الزام ذوالفقار علی بھٹو نے اے این پی پر لگایا تھا۔ رہی جناح پور کی بات تو کون کہتا ہے کہ یہ الزام غلط تھا۔ ابھی دو ہفتے میں ڈاکٹر شعیب سڈل کے لیے دو سال کی وہ مدت پوری ہونے والی ہے‘ جس کے بعد اظہارِ خیال کے لیے وہ آزاد ہوں گے۔ کوئی جائے اور جا کر ان سے پوچھ لے۔ تنہا بریگیڈئر امتیاز کی شہادت قولِ فیصل کیسے ہو گئی؟
کتنے ہی اور پہلو ہیں اور ان سب پر تفصیل سے بحث کی ضرورت ہے‘ کون سے عوامل تھے‘ جو ایم کیو ایم کی تخلیق اور پذیرائی کا باعث بنے۔ کراچی شہر اور اس کے مکینوں سے تعصب کا رویہ۔ ان کی توہین اور پھر قومی زبان کو محدود کرنے کی کوشش۔ بعض سندھی جاگیرداروں کا سفاکانہ رویہ‘ کوٹہ سسٹم۔ نعمت اللہ خاں اور مصطفی کمال کے مختصر ادوار کے سوا‘ ترقیاتی رقوم سے اکثر محرومی۔ تحریک پاکستان میں نمایاں ترین کردار ادا کرنے اور اولین دور میں ملک سنبھالنے والوں کے ساتھ حقارت آمیز برتائو۔
ابھی آغاز ہے۔ پیچ و خم میں‘ لاشوں کے انبار پڑے ہیں‘ مگر چراغ بھی روشن ہیں۔ یہ داستان لیکن انجام کو پہنچے گی۔ خدا کے ہاں دیر ہے‘ اندھیر نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں