گاہے اس شام کی یاد اب بھی آتی ہے ۔گاہے اب بھی چراغ جلتے ہیں ۔ گاہے امید جاگ اٹھتی ہے ۔ کیا عجب ہے کہ وہ غفور الرحیم کشتی پار لگادے ۔ ہاں کیو ںنہیں ۔ سب سے بڑا بادشاہ فقیروں پہ کیوں کرم نہ فرمائے گا؟
مدینہ منورہ سے میدانِ بدر کا قصد تھا۔ریگ زار تھا، بستیوں کے کھنڈر تھے ۔ تکان تھی اور دھوپ میں جلتی ، جیسے کبھی نہ ختم ہونے والی تارکول کی طویل شاہراہ ۔ پھر ایک نخلستان نمودار ہو ااور اس کے حاشیے پر ایک آبشار۔ یہ صحرا ہے ، جہاں بوگن ویلیا کے فراواں سرخ پھولوں او رآبِ رواں کا نظارہ مسحور کر دیتاہے ، مبہوت اور ششدر!
اس خاک داں میں اگر پھول نہ ہوتے ، بچّے ، بادل ، چاند اور ستارے اگر نہ ہوتے ۔ سبزہ زار اور پرندے ؟ حیرت سے میں اس آبشا رکو دیکھتا رہا ، جو ٹیوب ویل کی نال سے پھوٹتی اور حیران کرتی تھی ۔
حیرتِ گل سے آبِ جو ٹھٹکا
بہے بہتیرا، پر بہا بھی جائے
اس ویرانے کو یہ جمال کیونکر عطا ہوا؟ پھر سر اٹھا کر بلندی پر بنی مسجد کو دیکھا۔ مساجد اور مقابر ، محلّات اور قلعے برصغیر میں تیموری ترکوں نے بھی تعمیر کیے ۔ ایسے کہ تا ابد ان کی داستان رہے گی ۔ عثمانی ترکوں کی مگر بات ہی دوسری ہے ۔ استنبول کی نیلی مسجد نہیں دیکھی مگر شہرِ لاہور میں اس کی ہو بہو نقل ، جو ترک کاریگروں ہی کی مرہونِ منت ہے ۔ رنگوں کا ایسا امتزاج او رڈیزائن میں ایسی ندرت ۔ اللہ کے آخری رسولؐ نے ارشاد کیا تھا : دمشق میں یہودیوں کے ساتھ آخری معرکہ برپا کرنے کے لیے ترک اتریں گے اور ہند کے مسلمان ۔ تب ایک بھی ترک مسلمان نہ تھا ، سرزمینِ ہند میں مسلمان کوئی نہ تھا ۔ حیرت ہے کہ حدیث کا لوگ انکار کرتے ہیں ۔ جہل او رضد کو انکار میں کیا تامّل ۔
کچھ دیر میدانِ بدر کے کنارے ہم کھڑے رہے ۔ لاکھوں برس کی دھوپ میں جلے آتش فشانی پتھر اور کنکریوں سے بھری ریت۔ چار دیواری ہے اور ایک بڑا سا بورڈ۔ ''شرک‘‘ سے باز رہنے کا مشورہ ۔ شرک تو یقینا سب سے بڑی لعنت ہے ۔ عربوں نے مگر محبت کو بھی شرک بنا دیا۔ مرقدِ مبارک کی جالیوں کو چھونے کے لیے مسلمان کا دل تڑپ اٹھتا ہے مگر وہ سنگین پہرے دار ۔ یہاں کوئی محافظ نہ تھا مگر آلِ سعود کی دہشت نگراں تھی ۔
وہ کون سی جگہ ہوگی ؟ میں نے سوچا ، جہاں ابو جہل اور اس کے مقتول ساتھیوں پر کھڑے ہو کر سرکارؐ نے کہا تھا : کیا اللہ نے اپنے وعدے پورے نہ کر دیے ؟عمر ابنِ خطاب ؓ نے پوچھا : یارسول اللہ ؐ مردے بھی کہیں سنتے ہیں ؟ فرمایا: تم سے زیادہ مگر جواب نہیں دے سکتے ۔
ان پتھر دل حکمرانوں سے تو مردے اچھے ۔ جواب تو کیا دیں گے ، سنتے ہی نہیں ۔ بہرے ، گونگے اور اندھے ۔
دو برس ہجرت کو بیت گئے تھے ۔ وہ صرف 313بے سرو ساماں اہلِ ایمان... مگر وہ کیسے تھے ؟ جب تک گردشِ لیل و نہار قائم ہے ، ان کی مدح کی جائے گی ۔ ان سے محبت کی جاتی رہے گی ۔
قریشِ مکّہ بے نام ونشان ہوئے ۔ دلیل باقی رہتی ، جھوٹ مر جاتاہے ۔ حکمت کو حیات ہے ، ہٹ دھرمی کو موت۔ یہ زمین اور آسمان ، یہ پہاڑ او ردریا کس نے پیدا کیے ہیں ؟ ابو جہل کی ذُرّیت اب بھی باقی ہے ؛اگرچہ اس کا نام نہیں لیتی ۔ تاویل ان کی وہی ہے ۔ مرنے کے بعد ہم کیسے جی اٹھیں گے ؟ قرآنِ کریم کہتاہے : جس طرح پہلی بار تم پیدا کیے گئے ۔تمہیں پیدا کرنا مشکل ہے یا بے ستون آسمانوں کو ۔ انفس و آفاق میں ، ہرے بھرے جنگلوں او رجھاگ اڑا تے پانیوں میں، آفتاب کے طلوع و غروب میں پروردگار کی نشانیاں ہیں ۔ پھولوں کے اس گچھے میں ، جو ابھی کچھ دیرمیں کہر سے ابھرے گا۔ گلاب کی پتیوں میں ۔ کلامِ نرم و نازک ہی نہیں ، مردِ ناداں پر دلیل بھی بے اثر رہتی ہے ۔ بیسویں صدی کا سب سے ممتاز فلسفی برٹرینڈرسل تب وہ کتاب لکھ چکاتھا Why I am not a Christian، جب اس سے پوچھا گیا : Have you read Quran?۔ اس کا جواب یہ تھا: Why should I? All Gospel truth is alike۔ میں کیوں پڑھوں ؟ ساری مذہبی سچائی ایک سی ہوتی ہے ۔ وہ جانتا تھا کہ بائبل مسخ کر دی گئی اور قرآنِ کریم کا متن مستند ہے ، پھر یہ جواب فلسفی نے کیوں دیا؟ کذب خود فریبی میں جیتاہے ۔
اس قافلے کو یاد کیا جیسا بنی آدم نے کبھی نہ دیکھا تھا او رکبھی نہ دیکھے گا۔ مالک نے جس کے بارے میں یہ کہا : رضی اللہ عنہم و رضوا عنہ۔ اللہ ان سے راضی او روہ اللہ سے... او راہلِ بدر ممتاز ترین لوگوں میں بھی سب سے ممتاز تھے۔ طالبِ علم کو ایک سوال نے مدّتوں پریشان رکھا : سچی دانش کیونکر پیدا ہوتی ہے ۔ اس سوال کا جواب ایک روایت میں ملا۔ انشراحِ صدر جب کسی طرح نہ ہو تو امیر المومنین عمر ابنِ خطابؓ اہلِ بدر کو مدعو کیا کرتے ۔ دانائوں کا ایسا گروہ تاریخ نے کبھی نہیں دیکھا۔ جس طرح کہ آسمان نے سرکارؐ ایسا کوئی دوسرا نہ پایا۔ سالک نے کہا تھا: دو چیزیں آدمی کبھی نہ جان سکے گا۔ اوّل یہ کہ نفس کے فریب کتنے ہیں او رثانیاً یہ کہ مصطفیؐ کے مقامات اور فضائل کس قدر۔ صوفیا کا قرینہ یہ ہے کہ سرکارؐ کی سیرت میں جی لگا تے ہیں ۔ علماء کا طریق یہ ہے کہ واقعات سب کے سب ازبر کر لیتے ہیں ۔
قلندر جز دو حرفِ لا الٰہ کچھ بھی نہیں رکھتا
فقیہہِ شہر قاروں ہے لغت ہائے حجازی کا
دعا پڑھی ، درود پڑھا مگر دل کی وہی ویرانی ۔ بے حضوری اور خود اپنے آپ سے بیزاری ۔ خودکو کھینچ کر بلندی پر بنی مسجد تک لے گئے ۔ پہلی نظر پڑتے ہی دل میں چراغ سے جل اٹھے ۔ جی نہیں عمارت نہیں ، اس کی تختی ۔مسجد اب بنی ہے ؛اگرچہ گمان ہے کہ اسی وضع پر وسیع تر لیکن تختی ؟ حسنِ کتابت کا خیرہ کن شاہکار۔
پھر ایک حلیم اورسفید ریش عرب نمودار ہوا۔ عطر ایسی کوئی چیز اس کے ہاتھ میں تھی ۔ دو تین شیشیاں منوّر نے خرید لیں ۔ اس کے معصوم چہرے پر بچوں کی سی مسرّت جاگی اور تب اس نے وہ بات کہی کہ رگوں میں خون کی گردش تیز ہوئی ۔ بولا: عبادت گاہ ٹھیک اس جگہ پر ہے ، جنگِ بدر کے روز جہاں عالی مرتبتؐ کا خیمہ نصب تھا۔ جہاں ا س شب طویل سجدے میں آپؐ نے کہاتھا : پادشاہا! کائنات کی کل متاع یہی ہے ۔ تیرے یہ بندے مٹ گئے تو تیرا دین بھی مٹ جائے گا۔وہ نادرِ روزگار لوگ! سب دوسرے عربوں کی طرح کھانے پینے ، سب دوسرے عربوں کی طرح رہنے سہنے والے ، سب عام عربوں کا لباس پہننے والے ۔ نمایاں ہونے کے لیے جن میں سے کسی نے کوئی جبّہ پہنا اور نہ دستار؛حالاں کہ وہ دنیا بھر کے حاکم ہو گئے تھے ۔ شاعر نے کہا تھا۔
ادب گاہیست زیرِ آسماں از عرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید جنیدؒ و بایزیدؒ ایں جا
جنید ؒ اور با یزید ؒ ایسے بھی یہاں سانس روک لیتے ہیں ۔ سر جھکائے مودبانہ آگے بڑھتے رہے ۔بوڑھے عرب نے یہ کہا : ٹھیک یہ جگہ ہے ، جہاں آپ کا خیمہ تھا۔ دل نے کہا :یہ ادب کا مقام ہے ۔ آگے مت بڑھنا۔ کسی قدر فاصلے پر، سفر کی نماز پڑھی ۔ اپنے بخت پر ناز بھی بہت کیا اور اپنے آپ سے شرم بھی بے حساب آئی ۔
تو غنی از ہر دو عالم من فقیر
روزِ محشر عذر ہائے من پذیر
گر حسابم را تو بینی ناگزیر
از نگاہِ مصطفیؐ پنہاں بگیر
سارے عالم سے تو بے نیاز او رمیں فقیر۔ روزِ محشر میرے گناہ معاف کر دینا۔ حساب اگر لازم ہی ٹھہرے اے مالک ، تو مصطفیؐ کے سامنے ہر گز نہ لینا۔ سرکارؐ کے سامنے کیوں نہیں ؟ میں نے سوچا : ایک انہی سے تو ہر خطاکار کو شفاعت کی امید ہے ۔ ہاں کچھ مولویوں کو نہیں ہے ، وہ جانیں ،ان کا بے حساب علم اور ان کا رب ۔
گاہے اس شام کی یاد اب بھی آتی ہے ۔گاہے اب بھی چراغ جلتے ہیں ۔ گاہے امید جاگ اٹھتی ہے ۔ کیا عجب ہے کہ وہ غفور الرحیم کشتی پار لگادے ۔ ہاں کیو ںنہیں ۔ سب سے بڑا بادشاہ فقیروں پہ کیوں کرم نہ فرمائے گا؟