یہ خوں آشام سلسلہ اب قابلِ برداشت نہیں۔ سلطانیٔ جمہور کے نام پر یہ شعبدہ بازی، یہ کاروبارِ زرگری اب گوارا نہیں۔
افسوس کہ ہم عبرت نہیں پکڑتے۔ اسی آصف علی زرداری کی دانائی کے چرچے چاروں طرف تھے۔ اپنی پارٹی انہوں نے برباد کر ڈالی۔ دنیا بھر کی بدنامی سمیٹی اور اب گھٹنوں کے بل گرے فوج کی منت سماجت کر رہے ہیں۔ ان کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی دی تھی۔ اب اپنا آخری کارڈ برت رہے ہیں، بیٹے بلاول بھٹو کو۔ عسکری قیادت کو اب یقین دلا رہے ہیں کہ لوٹ مار ختم کرنے میں ان کی مدد کریں گے۔ سرکارؐ کا ارشاد یہ ہے: احد پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل سکتا ہے مگر عادت نہیں بدلتی۔
لاہور کے ایک ممتاز اخبار نویس کراچی پہنچے تو ڈیفنس کے خیابانِ راحت میں مقیم اپنی بہن کو عجیب حال میں پایا۔ پانی کے ایک ٹینکر کے لیے منت سماجت کرتے۔ مبلغ چھ ہزار روپے ماہوار۔ لاہور میں نل کے پانی پر پانچ چھ سو روپے ماہوار ادائیگی۔ یہی فرق ہے پنجاب اور کراچی میں۔ پنجاب میں کرپشن ہے، ڈٹ کر ہے، پارسائی کے دعووں کے ساتھ، پورے عزم کے ساتھ ہے۔ سندھ میں لوٹ مار ہے۔ حمزہ شہباز سکول کے بچوں کو بتاتے ہیں: بچو کرپشن ہوا ہی کرتی ہے، مارشل لا نہیں لگانا چاہیے‘ احتساب کا حق عوام کو دینا چاہیے۔ سندھ میں زمینوں پر قبضے ہیں، منشیات اور اسلحہ سمگلنگ کے دھندے ہیں۔ بھتہ خوری ہے اور یہ کارِ خیر خود سیاسی جماعتیں انجام دیتی ہیں۔ انتہا یہ ہے کہ بعض دینی مدارس بھی اب اس مبارک کام میں شامل و شریک ہیں۔ قانون کی تقدیس کا تصور بھاپ بن کر اڑ چکا۔ اب نفسانفسی ہے، مصلحت ہے، موقع پرستی ہے۔ طوائف الملوکی اسی کو کہتے ہیں۔ حکومت کے سوا ہر ایک کا ڈر۔
آخر کو زندگی قرار پکڑتی ہے آدم کی اولاد استحکام پہ اصرار کرتی ہے۔ آخرکار امن ہی کی آرزو ہوتی ہے۔ بستیوں کو سکون اور آہنگ درکار ہوتا ہے۔ مالک نے گروہِ قریش سے یہ نہ کہا کہ کتنے ہی قبیلوں اور نسلوں پر تمہیں فضیلت بخشی، تمام سرزمینوں پر حجاز کو افضل کیا بلکہ یہ فرمایا: قریش مانوس ہوئے۔ جاڑے اور گرما کے سفر سے مانوس؛ لہٰذا ان کو چاہیے کہ اِس گھر کے رب کی عبادت کریں، جس نے انہیں بھوک میں کھانا اور خوف سے امن بخشا۔
کراچی کو امن درکار ہے۔ دیہی سندھ، بلوچستان اور پورے پاکستان کو۔ لوٹ مار میں یہ ممکن نہیں۔ بھتہ خوری اور لوٹ مار زیادہ تر سیاستدان کرتے ہیں۔ طنبورے چیختے ہیں: صرف سیاستدانوں پر ہی تنقید کیوں؟ جنرل بھی قصوروار ہیں اور اطلاعات ہیں کہ ایک آدھ نہیں، نو عدد سبکدوش جنرلوں کی فائلیں سپہ سالار راحیل شریف کی میز پر پڑی ہیں۔ سول افسر بھی ہیں مگر سب سے زیادہ سیاست کار۔ کراچی میں بھتہ خوری اور اس کے لیے قتل و غارت کون کرتا ہے؟ سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے کہ ایم کیو ایم، پیپلز پارٹی، اے این پی اور سنی تحریک۔ اداروں کے ذریعے مجرموں پر ہاتھ ڈالنا قومی و صوبائی حکومتوں یعنی سیاستدانوں ہی کی ذمہ داری ہے مگر وہ خاموش رہتی ہیں۔ طالبان، سمگلروں اور مذہبی فرقہ پرستوں کو سازگار فضا میسر آئی ہے۔ پاکستان کے دشمن ممالک کو بھی۔ را، موساد، ایم آئی سکس اور سی آئی اے کو۔
اب ایک سادہ سا سوال ہے۔ 1996ء کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کو 23 نشستوں تک محدود کر دینے کے باوجود، دو تہائی اکثریت کے باوجود‘ میاں محمد نواز شریف کو کیا پڑی تھی کہ پانچ سو دہشت گردوں کو رہا کرتے؟ مرنے والے 150 ایسے ہی جرائم پیشہ افراد کے ورثا کو قومی خزانے سے 70 کروڑ روپے تاوان ادا کرتے؟ ہم اسی بزدلی کا بویا ہوا کاٹ رہے ہیں، 1996ء کے بعد میاں صاحب، جنرل پرویز مشرف اور آصف علی زرداری جس کے مرتکب ہوئے۔ افواجِ پاکستان کو غور کرنا چاہیے کہ اس کی صفوں میں یحییٰ خان اور پرویز مشرف کس طرح پیدا ہوتے اور پلتے ہیں؟ چھانٹ کیوںنہیں دیے جاتے؟... اور یہ بھی نہیں تو سب سے بڑے منصب تک کیسے جا پہنچتے ہیں؟ پھر سب سے بڑے ادارے کو ملک کی بربادی کے لیے استعمال کیسے کر گزرتے ہیں؟ افواج کا اجتماعی ضمیر اور اجتماعی دانش اس مرض کا تدارک کیوں نہیں کر سکتی؟
شواہد یہ ہیں کہ زمیں میر و سلطان سے بیزار ہونے والی ہے۔ پرانی سیاست گری خوار ہونے والی ہے لیکن ابھی وہ برقرار ہے۔ ابھی گھن کی طرح در و دیوار کو وہ کھائے جاتی ہے۔ ابھی منصوبے یہ ہیں کہ میاں محمد نواز شریف اور شہباز شریف کے بعد حمزہ شہباز اور سلمان شہباز اقتدا ر میں آئیں۔ ادھر بلدیاتی الیکشن کے لیے کمر کستی ریحام خان بھی یہی خواب دیکھ رہی ہیں۔
زرداری خاندان کو قریب سے جاننے والے یہ کہتے ہیں: ان کی منّت سماجت کی گئی ورنہ بلاول اس کھیل سے بیزار ہیں۔ بختاور بھی۔ صرف ایک آصفہ ہیں، سیاست سے جنہیں دلچسپی ہے۔ بلاول اور بختاور پاکستان میں قیام کے آرزومند ہی نہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اور زرداری صاحب کے ادوار میں اس قدر دولت اس خانوادے نے جمع کر لی ہے کہ مالی طور پر کسی بھی سرزمین میں وہ آسودہ رہ سکتے ہیں۔ یہی حال شریف اور چوہدری خاندان کا ہے۔ چوہدری پسپا ہو گئے۔ تیزی سے زرداری کنبہ سمٹ رہا ہے۔ شریفوں کا خیال البتہ یہ ہے کہ آنے والے سب زمانوں میں کوس لمن الملک وہ بجاتے رہیں گے۔ مغلوں کی یاد تازہ کر دیں گے۔ آنے والی ہماری سب نسلیں ان کی اطاعت کر یں گی۔
ریحام خان کے لیے زیبا یہ تھا کہ اپنی غیرمعمولی توانائی سے وہ عمران خان فائونڈیشن یا نمل یونیورسٹی کو سیراب کرتیں۔ اوّل اوّل ہی یہ بات گوش گزار کر دی تھی۔ آتش دان کے سامنے کرسیاں بچھا کر شادی کی کہانی جب عمران نے سنائی تھی۔ بعد میں بھی عرض کیا: خان! اس سے کہو، فلم مت بنائے۔ محترمہ سے بھی یہی گزارش کی۔ سیاست کا شوق اب اس کے سر میں سودا ہو گیا ہے۔ جی نہیں، اس کا نتیجہ اچھا نہیں ہو گا۔ آرزو ہی ہے، فقط انداز یومِ سبت کا۔
پرویز رشید، ایاز صادق اور وغیرہ وغیرہ اس لیے نیب پر چڑھ دوڑے کہ اس نے سپریم کورٹ کے حکم کی اطاعت کی؟ عدالتِ عظمیٰ پر کیوں یلغار نہیں کرتے، جیسی کہ گذشتہ دور میں کی تھی؟ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بغاوت کا علم کیوں بلند نہیں کرتے، احتساب کے لیے سازگار ماحول جو پیدا کر رہی ہے۔ ارادہ تو شریف خاندان کا یہی تھا کہ فوج کو بھی پامال کر دیں۔ ایک میڈیا گروپ نے عسکری قیادت کی کردار کشی کا عزم کیا تو ان کی مدد کو پہنچے۔ پرویز رشید ہی نہیں، وزیرِ اعظم بھی، آزاد کشمیر کی انتخابی مہم میں انہوں نے ارشاد کیا تھا: بھارتیوں نے اتنے مظالم اہلِ کشمیر پر نہیں توڑے، جتنے کہ پاکستانی فوج نے۔ ایک ہی اوّلین جھڑپ میں وہ گر پڑے اور ایسے گرے کہ اٹھنے کا اب ارادہ اور آرزو ہی نہیں۔ فقط اس ملک کے شہریوں کو رعایا بنانے کا۔
جی نہیں، یہ نظام نہیں چلے گا۔ روحِ عصر نظامِ عدل کے لیے چیخ رہی ہے، آمادۂ بغاوت ہے۔ لازم ہے کہ کرپشن کے خلاف موزوں نظامِ عدل کی تشکیل کے لیے، لوٹ مار ختم کرنے کے لیے ایک قومی تحریک برپا ہو۔ ایک غیر سیاسی قومی تحریک۔ اگر یہ نہیں تو کچھ بھی ہو رہے گا۔ جس طرح ملک کی اقتصادی شہ رگ کو ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ اسی طرح قومی خزانہ شریف خاندان کے حوالے نہیں کیا جا سکتا۔ موجودہ پارلیمانی نظام تباہ کن ہے۔ بہترین پولیس، اچھی عدالتوں اور مضبوط سول اداروں کے ساتھ ملک کو صدارتی نظام درکار ہے اور چھوٹے صوبے۔ جمہوریت مگر شفاف جمہوریت۔ یہ خوں آشام سلسلہ اب قابلِ برداشت نہیں۔ سلطانیٔ جمہور کے نام پر یہ شعبدہ بازی، یہ کاروبارِ زرگری اب نہیں چلے گا۔