تاریخ کا سبق یہ ہے کہ ملکوں کی حفاظت افواج اور حکومتیں نہیں، خود اقوام کیا کرتی ہیں... زندہ اقوام!
آخر کار ایرانیوں نے سپر ڈال دی۔ آخر کار یہی ہونا تھا۔ قرآنِ کریم یہ کہتا ہے کہ زمانے کی رو بہت طاقتور ہوتی ہے۔ اس کے مقابل آدمی کھڑا نہیں رہ سکتا۔ صرف وہ لوگ، جو ایمان، صبر اور سچائی سے کام لیں۔ ایمان اللہ پر ہوتا ہے اور اس کے تقاضے ہیں۔ صبر فقط تحمل نہیں بلکہ قرآنی لغت کے مطابق حکمت کا نام ہے ۔ اللہ پر ایمان لانے کے بعد زندگی کا سب سے بڑا وظیفہ شاید یہ ہے کہ آدمی اپنے نفس کے ہر فریب کو پہچانتا اور اُس سے لڑتا رہے۔ یہ تزکیۂ نفس، اخلاقی اور علمی بالیدگی کا عمل ہے۔
ہر قوم اور ہر معاشرے کا ایک مزاج ہوتا ہے‘ صدیوں میں جو تشکیل پاتا اور آسانی سے بدلتا نہیں۔ ایرانیوں کا مسئلہ یہ ہے کہ عظمتِ رفتہ کے خواب نے انہیں خود ترسی میں مبتلا کر رکھا ہے۔ جب عرب ان پر غالب آئے تھے۔
بعثتِ رسولِ اکرمؐ سے چند عشرے قبل ایرانی شہنشاہ نے، جسے کسریٰ کہا جاتا، ایک عالمگیر جشن کا اہتمام کیا۔ عرب زبان، ثقافت اور تاریخ پر سب سے جامع کتاب ''بلوغ الارب‘‘ کے مطابق عربوں کے ایک گروہ کو بھی اس میں شریک کیا گیا، جو اتفاق سے دارالحکومت نہاوند میں موجود تھا۔ بادشاہ نے ان پر طعنہ زنی کی: اہلِ روم مکان اچھے بناتے ہیں، ہند والے تلواریں، چینی ریشم بُنتے ہیں‘ تم ایک عجیب قوم ہو، ہر ہنر سے محروم۔ عرب تاجروں نے آدابِ شاہی کو ملحوظ رکھتے ہوئے مختصر سا جواب دینے کے بعد یہ کہا: بادشاہ انصاف کی بات یہ ہے کہ دوسروں کی طرح ہماری قوم کا بھی ایک نمائندہ وفد طلب کیا جائے، جو آپ کے سوالوں کا جواب دے۔ چنے ہوئے سات خطیب آئے۔ حیرت زدہ کر دینے والے ان کے فصیح و بلیغ خطبات تاریخ کا حصہ ہیں۔ ان میں سے کوئی ایک منٹ سے زیادہ کا نہیں۔ ''بادشاہ! حسنِ ظن ایک بھنور ہے اور بدگمانی بجائے خود ایک تحفظ‘‘۔ ''بادشاہ! ہمارے نیزے لمبے اور عمریں چھوٹی ہوتی ہیں‘‘۔ عربوں نے اپنی وفا شعاری، سخاوت، وعدے کی پابندی، بہادری اور فصاحت پر ناز کیا۔ یہ سوال مگر اپنی جگہ قائم رہا کہ اگر وہ ان محاسن کے امین ہیں تو باقاعدہ ایک قوم میں کیوں نہ ڈھل سکے۔ حکومت کیوں تشکیل نہ دے سکے۔ کوئی ایک بھی بڑا ہنر کیوں نہ سیکھ سکے؟ تجارت، موسموں اور دو بڑی حکومتوں کے رحم و کرم پر کیوں ہیں؟
بہت دن نہ گزرے تھے کہ یہی عرب طوفان بن کر اٹھے اور مشرق و مغرب کی بیشتر سرزمینوں پر غالب آ گئے۔ یورپ میں سپین تک۔ اس لیے کہ اب فقط شاعری اور خطبات کی نہیں، وہ ایمان کی دولت رکھتے تھے۔ اب وہ صاحبانِ علم و عدل تھے، مظلوموں کے نگہبان، صداقت شعار، تعصبات سے پاک، ایک شاندار حکومتی نظام کے خالق، جو ہر مفلس کا مددگار تھا۔ ہر بھوکے کا خدمت گزار اور ہر ستائے ہوئے کا سائبان۔ چاروں طرف اسلام پھیلتا چلا گیا۔ عربوں کا نہیں، وہ بنی نوع انسان کا دین تھا۔ جہاں کہیں عرب افواج نہ پہنچ سکیں، وہاں ان کے تاجر گئے۔ مثلاً عالمِ اسلام کی سب سے بڑی قوم انڈونیشیا۔ وہاں ایک بھی سپاہی کبھی نہ اترا مگر ہندو مت کے بڑھتے ہوئے دائرے کو انہوں نے سمیٹ دیا۔ مصر اور سپین کو بھی لشکروں نے فتح نہ کیا تھا بلکہ ان کے بلند اخلاق اور کردار نے۔ جناب عمرو بن العاص کی قیادت میں
صرف چار ہزار کی سپاہ مصر بھیجی گئی اور کئی عشرے بعد سپین میں اس سے بھی کم۔ طارق بن زیاد کا لشکر، جس نے کشتیاں جلا دی تھیں... اور یہ کہا تھا: ہر ملک ملکِ ما ست کہ ملکِ خدائے ماست۔ ہر ملک میرا ہے کہ میرے اللہ کا ہے۔
یہ غازی، یہ تیرے پراسرار بندے
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی
جب تک وہ صاحبانِ ایمان و علم رہے، بندگانِ خدا کے خیر خواہ، حسنِ اخلا ق میں دوسروں سے بہتر، ان کا علَم لہراتا رہا۔ عرب گئے تو ان کی جگہ ترکوں نے لے لی۔ سلیمان ذی شان کی افواج آسٹریا اور ہنگری میں اس طرح داخل ہو جاتیں، جیسے پانی نشیب میں اترتا ہے۔ اخلاق سے تہی ہوئے تو تاتاری ان پہ چڑھ دوڑے۔ سارے عالم کو انہوں نے خون سے بھر دیا۔ ایرانی قوم کا لاشعور مگر زخم آلود رہا۔ ان کے شاعر فردوسی نے، مشہد کے جوار میں جس کا مجسمہ آسمان سے باتیں کرتا ہے، آسمان پر آوازہ کسا: تفو بر تو اے چرخِ گرداں تفو: تو نے سوسمار کھانے والوں کو ہم پر غالب کر دیا۔ ایرانی ملّا بھی اپنے اس قوم پرست شاعر پہ فخر کرتے ہیں۔ غیر ملکی مہمانوں کو وہ اس کے مقبرے پر لے جاتے اور اس کے حیرت انگیز شعری کارنامے بیان کرتے ہیں۔ باپ بیٹے، رستم و سہراب کا قصہ۔ اسی طرح کچھ اور طرح کی داستانیں وارث شاہ اور میاں محمد بخش نے بیان کی ہیں۔ ویسی ہی دلآویزی کے ساتھ مگر وہ ایرانی تھا اور ایران اپنے ہر قابلِ ذکر فرزند کو یاد رکھتا ہے۔ عہدِ رفتہ کی یاد کو اس نے سینے سے چمٹا رکھا ہے، جب وہ ایک عالمی طاقت تھے۔ عربوں کے ہاتھ سے لگنے والا زخم کبھی مندمل نہ ہو سکا۔ یہ ان کی تاریخ کا سب سے بڑا سچ ہے۔ عربوں نے دارالحکومت بغداد منتقل کر دیا تھا اور دو سو سال بھی نہیں گزرے تھے کہ عجم کی مظلومیت خفیہ تحریک میں ڈھلنے لگی۔ عربوں میں سے بعض یقینا متعصب تھے۔ اہلِ عجم کو جو حقیر گردانتے۔ بہت بعد میں امنڈنے والی فرقہ واریت کی رو اس کے سوا تھی، بتدریج جس پر ملّا کا غلبہ ہوتا گیا۔ امّت کے مرکزی دھارے سے وہ انہیں دور لے جاتا گیا؛ اگرچہ اس میں وہ تنہا قصوروار نہ تھا۔ دوسری طرف کا ملّا بھی اتنا ہی متعصب اور سخت گیر تھا۔ بعض اوقات اس سے بھی زیادہ جیسے کہ افغانستان کے طالبان، جیسے کہ مسلم برصغیر کے مخالف مذہبی فرقہ پرست۔
ایرانیوں کے اندازِ فکر پہ بہرحال خود ترسی کا غلبہ ہے۔ صدام حسین کی پشت پناہی کرنے والے عربوں کے تعصب نے جسے مہمیز کیا۔ ناچیز بہت پہلے اس رائے کو پہنچ چکا تھا کہ آخر کار ایرانی امریکہ سے سمجھوتہ کر لیں گے۔ عراق اور افغانستان میں وہ ایک دوسرے کے مددگار رہے۔ بغداد میں آج تہران کی ہم نفس حکومت قائم ہے۔ ایرانی ملّا خواہ اس کا اعلان نہ کریں مگر افغانستان میں وہ ایک اعتبار سے امریکہ کے حلیف ہیں اور پاکستان کے مخالف۔ افغانوں کو وہ ادنیٰ سمجھتے ہیں مگر فارسی بولنے والوں کی مدد بھی کرتے ہیں۔ خانہ جنگی کی بدقسمتی میں حلیف حاصل کرنے کی تمنا ایسی شدید ہوتی ہے کہ خوف زدہ فریق شیطان کا دامن بھی تھام لیا کرتے ہیں۔
سرتاج عزیز کی خوش فہمی کو کیا کہیے کہ ایٹمی تنازعہ سلجھنے کے بعد پاکستان اور عربوں کے ساتھ ایرانیوں کے مراسم بہتر ہوں گے۔ پاکستان خواہ ایران کے باب میں کتنی ہی احتیاط کرے ، جس طرح کے یمن کے قضیے میں کی، ہم سے وہ کچھ زیادہ شاد نہیں ہو سکتے۔ عدل ہی نہیں بلکہ کشادہ ظرفی سے کام لینا چاہیے کہ اقوام کے مراسم اسی طرح سلجھ سکتے ہیں‘ مگر زیادہ توقعات وابستہ کرنا خطرناک ہو گا۔ آخر کار شدید مایوسی کا باعث۔ کم از کم اس وقت تک جب تک بے تکے خواب دیکھنے والا گروہ ایران کا اصل حاکم ہے۔ یاد رہے کہ ایرانی پریس میں پاکستان کے حق میں کبھی ایک سطر بھی نہیں چھپتی۔
سکڑ اور سمٹ جانے کے باوجود مشرقِ وسطیٰ میں ایرانی ایک عظیم کردار کے آرزومند ہیں۔ وہی عظمتِ رفتہ کا خواب۔ عراق، یمن اور افغانستان ہی نہیں، شام، لبنان اور بحرین تک ان کے منصوبے دراز ہیں۔ اسرائیل کے مقابلے کا وہ دعویٰ لے کر اٹھے تھے مگر کوئی دن جاتا ہے کہ اس عزم سے وہ دستبردار ہوں گے۔ امریکی دوستی اسی سمت میں انہیں لے جائے گی۔ افراد کی طرح اقوام بھی اپنی اولین ترجیح کی قیدی ہوا کرتی ہیں۔ ایرانیوں کی اولین ترجیح کیا ہے؟
زمانہ بدلتا ہے تو اس کے تقاضے بھی۔ پاکستانی قوم کو غور کرنا چاہیے کہ اب اس کی راہِ عمل کیا ہونی چاہیے۔ سرکار کو نہیں، سیاسی جماعتوں اور دانشوروں کو بھی۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ ملکوں کی حفاظت افواج اور حکومتیں نہیں، خود اقوام کیا کرتی ہیں... زندہ اقوام!