لیڈر کا احترام بجا مگر اس سے مرعوب ہونے کا مطلب کیا؟ اس سے اختلاف کیوں نہ کیا جائے؟ اس سے خوف زدہ کیوں ہوا جائے؟ اسے ہم برباد کرتے ہیں اور خود کو بھی!
اخلاقی اور علمی تربیت کے بغیر ایک قوم کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا۔ یہ وہ نکتہ ہے اکثر جونظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ آخر کیوں؟ کیا یہ خوئے غلامی ہے؟ کیا اس قدر ہیجان ہم پر طاری ہے کہ سوچنے کی فرصت ہی نہیں۔ کاروبارِ حکومت کو حکمرانوں پر اور کارِ سیاست کو لیڈروں پر چھوڑا گیا تو خیال و گمان کے جنگلوں ہی میں ہم بھٹکتے رہیں گے۔ قوم صرف گھروں میں نہیں بلکہ سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پروان چڑھتی ہے، قانون کی بالاتری میں‘ اسے نافذ کرنے کے ذمہ داروں کی نگرانی میں۔ آئین اور قانون کی تقدیس کا تصور راسخ کئے بغیر منظم، شائستہ اور فروغ پذیر معاشرے کا خواب محض خواب رہے گا۔
نصف صدی ہوتی ہے، لاہور سے لندن میں اپنے انگریز دوست کو کسی نے لکھا I have grown a Jungle in my mind, I dare not to enter it. اپنے ذہن میں خیالات کا ایک جنگل میں نے اگا لیا ہے۔ اب اس میں داخل ہونے سے میں ڈرتا ہوں۔ پڑھے لکھے باشعور لوگ جب تک سیاست میں نہ اتریں گے، جب تک قومی اداروں پر سائنسی انداز میں سوچ بچار نہ کریں گے، فکری ارتقا اور نہ عملی، قوم کے مستقبل کا، جس پر انحصار ہے۔ مغرب میں ٹریفک کی خلاف ورزی پر حکمران دھر لئے جاتے ہیں۔ پاکستان میں اربوں روپے کی کرپشن اور منی لانڈرنگ بھی گوارا کی جاتی ہے ؎
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
لگ بھگ ایک صدی ہوتی ہے، جب اقبالؔ نے کہا تھا۔ حیرت نہیں کہ آج بھی ہماری تقدیر چند ہاتھوں میں ہے۔ ہماری باگ عسکری قیادت‘ افسر شاہی اور کاروباری جاگیرداروں کی گرفت میں ہے۔ پاکستان وجود میں نہ آ سکتا‘ اگر چٹاکانگ سے چترال تک پیہم سفر کرنے والے محمد علی جناح اور ان کے ساتھیوں نے قوم کو بیدار نہ کیا ہوتا۔ اگر احساسِ کمتری‘ مرعوبیت اور کم ہمتی کے مارے مسلم معاشرے کو اقبالؔ نے تعلیم نہ دی ہوتی۔ اگر اس سے پہلے سرسید احمد خان نے جدید تعلیم کی اہمیت کا ادراک نہ کر لیا ہوتا۔
ایک فوجی افسر کسی سول سرونٹ اور پولیس افسر سے اس قدر مختلف کیوں ہوتا ہے؟ اس کی تربیت کی جاتی ہے۔ وہ جواب دہ ہوتا ہے۔ کڑی نگرانی کے عمل سے گزرتا ہے اور ترقی نہیں پا سکتا‘ اگر لاپروا واقع ہوا ہو۔ ہماری پولیس‘ ایف بی آر‘ ریلوے‘ پی آئی اے اور سٹیل مل کے افسر اسی معیار کے اور اسی انداز فکر کے حامل کیوں نہیں ہو سکتے؟ دنیا کے دوسرے ممالک میں اگر یہ ممکن ہے تو ہمارے ہاں کیوں نہیں؟
14 اگست 1947ء سے چند ماہ قبل امرتسر میں ایک جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے‘ اپنے عہد کے سب سے بڑے خطیب عطاء اللہ شاہ بخاری نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان وجود میں نہیں آ سکتا۔ اس دعوے کے ساتھ جو پیشکش انہوں نے کی تھی‘ اسے نقل کرنے میں تامل ہے۔ شاہ جی ایک سادہ اطوار اور نیک طینت آدمی تھے۔ اپنے اساتذہ کے اسیر۔ ملی غیرت اور استعمار کے خلاف نفرت سے بھرے ہوئے۔ ان اساتذہ نے
قائداعظم کو مسترد کر دیا تھا۔ اپنی بالادستی پر وہ مصر تھے۔ وہی کیا اقبال کے پسندیدہ شارحین میں سے ایک سید ابوالاعلیٰ مودودی نے بھی؛ اگرچہ بنیادی طور پر وہ قیام پاکستان کے مخالف نہ تھے۔ دیوبند سے تعلق کے باوجود‘ اپنی راہ انہوں نے الگ تراشی تھی۔ خاکسار تحریک کے بانی علامہ عنایت اللہ خان مشرقی بھی قائداعظم کے قائل نہ تھے۔ دیوتا دکھائی دیتے، ابوالکلام 1947ء میں کانگریس کے صدر تھے۔ بعدازاں Midnight freedom کے عنوان سے کتاب انہوں نے لکھی تو اصرار کیا کہ گاندھی جی اور کانگریس کے دوسرے قائدین کو پاکستان کا مطالبہ تسلیم نہ کرنا چاہئے تھا۔ خیر، یہ الگ موضوع ہے کہ ایک قوم کے اتفاق رائے کو مسترد کیسے کیا جا سکتا ہے۔ اگر ایسا کیا جاتا تو کیا برصغیر ایک نہ ختم ہونے والی خانہ جنگی میں مبتلا نہ ہو جاتا؟ معلوم حقیقت یہ ہے کہ ممتاز اور مسلمہ مسلم رہنماؤں کی اکثریت پاکستان کے خلاف تھی۔ وہ قید و بند سے گزرے تھے، دین کا علم اٹھائے وہ مفکر، نثر نگار اور خطیب تھے۔ پاکستان کا قیام اس لئے نہ روکا جا سکا کہ سرسید سے بہادر یارجنگ تک‘ نصف صدی قوم کی تربیت ہوتی رہی۔
1946ء کے انتخابات میں 75.6 فیصد ووٹروں نے الگ وطن کی حمایت کی۔ 99 فیصد مسلم نشستیں مسلم لیگ نے جیت لیں۔ قومی اتحاد کا شاندار مظاہرہ اس کے بعد صرف 1965ء میں نظر آیا۔
1971ء میں ایسا نہ ہو سکا‘ اس لئے کہ 1970ء میں ابھرنے والی اکثریتی عوامی لیگ کو اقتدار دینے سے انکار کر دیا گیا۔ جنرل آغا محمد یحییٰ خان ذمہ دار تھے۔ کور کمانڈروں نے ان سے اختلاف کی جسارت نہ کی۔ ذوالفقار علی بھٹو ذمہ دار تھے، جنہیں سندھ اور پنجاب میں صوبائی حکومتیں تشکیل دے کر مرکز میں اپوزیشن لیڈر کا کردار ادا کرنا چاہئے تھا۔ وہ مرکز میں حصہ طلب کرتے رہے۔ احمد رضا قصوری کے سوا پارٹی کا کوئی لیڈر ٹوکنے کی جرأت نہ کر سکا۔ بعدازاں بھی نہیں، جب ایف ایس ایف کے نام سے انہوں نے ذاتی فوج بنائی، پریس کو پابہ زنجیر رکھا اور اپنے ساتھیوں کو دلائی کیمپ میں قید کیا۔ ہم ایک شخصیت پرست قوم ہیں۔ بھٹو کے بعد بیگم بھٹو‘ پھر ان کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو‘ پھر شوہر نامدار آصف علی زرداری اور اب ان کے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری۔ کہیں خلا سے نمودار ہونے والی وصیت کے سہارے ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی‘ خاندانی جائیداد کی طرح منتقل ہو گئی۔ پختونخوا میں باچا خان کے بعد ان کے فرزند عبدالولی خان پھر بیگم نسیم ولی خان اور بعدازاں اسفند یار ولی خان‘ جو ایک سیاسی لیڈر ہرگز نہیں۔ بیچ میں اجمل خٹک آئے مگر کسی نجی ادارے کے ملازم کی طرح ہٹا دیئے گئے۔ بلوچستان میں عبدالصمد اچکزئی کے بعد محمود اچکزئی‘ زندگی میں پہلی بار اقتدار حاصل ہونے پر جنہوں نے اپنے بھائی کو گورنر بنوایا اور ہر اس رشتہ دار کو کوئی منصب بخشا‘ جسے بخشا جا سکتا۔ مفتی محمود مرحوم کے بعد مولانا فضل الرحمن محترم و مکرم‘ سندھ میں جی ایم سید کے صاحبزادے۔
شریف خاندان سے پہلے مسلم لیگ کو یہ بیماری لاحق نہ تھی مگر اب محترمہ مریم نواز ہیں‘ جناب حمزہ شہباز ہیں‘ حسین نواز ہیں اور سلمان شہباز۔ بلوچستان میں سرداری اولاد کو منتقل ہوتی ہے‘ باقی صوبوں میں باپ کے بعد بیٹا یا بھائی سیاسی وراثت بھی سنبھالتا ہے۔ عمران خان نئے پاکستان کے علمبردار ہیں مگر سب جانتے ہیں کہ پرویز خٹک نے اپنے رشتہ داروں کے باب میں کس قدر فیاضی کا مظاہرہ کیا۔ عمر فاروق اعظمؓ کو گمان تھا کہ دو اصحاب رسولﷺ اپنے قبائل کے باب میں قدرے نرم مزاج ہیں؛ چنانچہ حسن ظن کے باوجود‘ نامزدگی کا بار اٹھانے سے آپ نے انکار کردیا۔ اس کے باوجود کہ بے پناہ روحانی‘ علمی اور اخلاقی عظمتوں کے وہ امین تھے۔ تاریخ نے ایسے لوگ پہلے دیکھے نہ بعد میں۔ ان کے سرخیل جن کے بارے میں قرآن کریم میں ارشاد ہوا ''اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی‘‘۔
مسلم برصغیر کا مرض اگر عدم تحفظ ہے‘ اگر احساسِ کمتری ہے جو انحصار پہ آمادہ کرتا ہے‘ تو اس کا حل یہی ہے کہ نچلی سطح تک منظم جمہوری سیاسی پارٹیاں تشکیل دی جائیں۔ پارلیمان تک بنیادی سیاسی مباحث سے محروم رہتی ہے۔ چہ جائیکہ وہ ہر سیاسی کارکن کی سطح تک پہنچیں۔ تحریک انصاف اگر آج بحران سے دوچار ہے تو اس کی بڑی وجہ شخصیت پرستی بھی ہے۔ لیڈر کا احترام بجا مگر اس سے مرعوب ہونے کا مطلب کیا؟ اس سے اختلاف کیوں نہ کیا جائے؟ اس سے خوف زدہ کیوں ہوا جائے؟ اسے ہم برباد کرتے ہیں‘ خود کو بھی!