بہت پابندی آدمی کو جانور بنا دیتی ہے لیکن بہت آزادی بھی۔ زندگی توازن‘ترتیب‘ نظم اور قانون میں ہے۔ اقبالؔ نے کہا تھا: آزادیٔ افکار ہے ابلیس کی ایجاد... اور یہ کہا تھا ؎
صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے، پابہ گِل بھی ہے
انہی پابندیوں میں حاصل آزادی کو تو کر لے
غیر ممالک سے امداد پانے والی‘ این جی اوز کے بارے میں خبریں مختلف ہیں اور مبہم بھی۔ ایک اطلاع یہ ہے کہ رجسٹریشن کا ایک نیا نظام وضع کر لیا گیا ہے۔ ایک قانون کی تشکیل‘ منظوری کے لیے جس کی سمری وزیراعظم کو بھیج دی گئی ہے۔ دوسری خبر کے مطابق بعض تنظیموں کو غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث پایا گیا۔ چودھری نثار علی خان ان وزرا میں سے ایک ہیں جو نگاہِ تیز رکھتے ہیں اور فہم بھی۔ ضرورت مگر یہ ہے کہ معاملے کو الم نشرح کیا جائے۔ کسی بھی اقدام سے قبل ایک کھلی بحث ہو۔ خرابی اس لیے زیادہ ہے کہ سوئے ہوئے اس معاشرے کی حکومت سوئی رہتی ہے۔ ہڑبڑا کر جاگتی ہے تو کارروائی میں شفافیت سے گاہے گریز کرتی ہے کہ گزرے کل کی کوتاہیوں کے طفیل خود اسی پہ حرف نہ آئے۔
ہمارے قومی جسد میں این جی اوز نے زہر گھولا ہے۔ اس لیے نہیں کہ وہ یا ان کے پشت پناہ طاقتور ہیں بلکہ اس لیے کہ ہم کبھی چوکنا ہوتے ہیں اور کبھی نہیں۔ جدید عہد کے تقاضوں کی حکومت کو پروا ہے‘ سیاسی جماعتوں اور نہ اس نام نہاد سول سوسائٹی کو‘ جس کا روپ الگ ہے‘ بہروپ الگ۔ جب کوئی پوچھنے والا نہ ہو تو خرابی پھیلتی ہے۔ گھر کے دروازے کھلے رہیں تو یہ چوروں کو ترغیب دینے کے مترادف ہے۔ کراچی میں ہزاروں لوگ اور درجنوں تنظیمیں اگر دہشت گردی میں ملوث ہیں تو بنیادی وجہ یہ ہے کہ بھارت کی پشت پناہی سے بروئے کار آنے والی اوّلین جماعت کو روکا نہ گیا۔
لطیفہ یہ ہے کہ اخبار نویسوں نے این جی اوز بنا لی ہیں۔ وہ ٹاک شوز میں شریک ہوتے ہیں‘ اخبارات کے لیے کالم لکھتے اور کتابیں رقم فرماتے ہیں۔ انہی میں سے ایک نے کہا: مودی جانے اور کشمیری جانیں۔ انہی میں سے ایک نے وزیراعظم نوازشریف کو جارج سورس سے ملاقات پر آمادہ کیا۔ وہ آدمی‘ جو مسلم ممالک کو غیر مستحکم کرنے پر تلا رہتا ہے۔ ایک عشرہ قبل مشرقِ بعید میں ہولناک بحران پیدا ہوا تو مہاتیر محمد نے اسی کو ذمہ د ار ٹھہرایا تھا۔ لاہور میں کئی دانشور ہیں‘ جو شبینہ محفلیں منعقد کرتے ہیں۔ ایسے بہت لوگ ہوتے ہیں جو اخلاقی اور سماجی فرائض سے راہ فرار ڈھونڈا کرتے ہیں۔ انہیں میں سے ایک کچّے پکّے کالم نگاروں کو سمجھانے میں لگا رہتا ہے کہ خیرہ کن تنوع اور ترتیب کی یہ جلیل کائنات محض اتفاق سے وجود میں آ گئی ہے۔ خالق کا کوئی وجود نہیں۔ ایسے لوگوں کو نظرانداز کرنا ہی اچھا ہوتا ہے لیکن اگر ان کی پشت پر غیرملکی سرمایہ اور غیر ملکی ایجنڈا کارفرما ہو؟ اپنے فصیح اور ذہین لوگوں کو حالات اور اغیار کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا کہاں کی دانائی ہے؟ ایک ایسے معاشرے میں جہاں بغاوت کے جذبات آسانی سے جنم لیتے ہیں کہ رہنما کرپٹ ہیں اور انصاف مشکل۔ ریاست کو اس قدر طاقتور نہ ہونا چاہیے کہ انفرادی آزادیوں کا‘ فکرونظر کے تنوع کا گلا گھونٹ دے۔ زندگی حریّت میں نمو پاتی ہے۔ ریاست اس قدر کمزور اور کاہل بھی نہ ہونی چاہیے کہ جواب دہی کا احساس ہی باقی نہ ر ہے۔ حیات کا حسن
توازن میں ہوتا ہے۔ خوف ایک ہتھیار ہے‘ جو سلیقہ مندی کے ساتھ استعمال کرنا چاہیے‘ اعلیٰ مقاصد کے لیے۔ ریاست کا دفاع ان میں سے ایک ہے۔ وطن کے نام پر جنون کو فروغ نہ دینا چاہیے مگر ایسے احمقوں کی حوصلہ افزائی بھی نہ ہونی چاہیے‘ جن میں سے ایک نے کہا تھا ''ہمارے باپ نے ہمیں سکھایا کہ ملک کوئی چیز نہیں‘ اصل چیز سچائی ہے‘‘۔ سچائی‘ یعنی اس آدمی کا نقطۂ نظر‘ جس کا علم محدود اور مقاصد معمولی ہیں۔
بنگلہ دیش‘ دانشوروں میں ایوارڈ بانٹتا رہا۔ پاکستانی اخبار نویس اور نریندر مودی کو ایک ہی ایوارڈ ملا۔ این جی اوز سمیت کسی بھی گروہ کو کھلی چھٹی دینے کا مطلب یہ ہے کہ ملک میں استحکام نہ آنے پائے۔ استحکام جو تحفظ اور اقتصادی و علمی نمو کی بنیاد بنتا ہے۔ ایک جما جڑا معاشرہ ہی اس تحّرک کو جنم دیتا ہے‘ جس کے پیچھے شعور اور سمت کا ادراک کارفرما ہو۔ اگر یہ بات درست ہے کہ آئی اے رحمن اور عاصمہ جہانگیر کے ہیومن رائٹس کمیشن کے تمام تر اخراجات غیر ملکی امداد سے پورے کیے جاتے ہیں تو سوال یہ ہے کہ کیا مدد فراہم کرنے والے مدرٹریسا جیسے بے غرض لوگ ہیں؟
ہر سال ایک سو ارب روپے سے زیادہ تر این جی اوز پہ صرف ہوتے ہیں۔ مقامی ادارے کمپنیز ایکٹ اور سوسائٹیز ایکٹ کے تحت رجسٹر ہوتے ہیں۔ غیر ملکی این جی اوز کو صرف اجازت لینا ہوتی ہے۔ سب کی سب این جی اوز بری نہیں اور نہ ان سے وابستہ لوگ جرائم پیشہ ہیں‘ مگر ان کی نگرانی تو ہو۔ مثال کے طور ہیومن رائٹس کمیشن ایسے گروہ پابند کیے جائیں کہ اپنے عطیات کا ایک تہائی وہ اندرون ملک سے جمع کریں۔ جس ملک کے لوگ اوسطاً دوگنا خیرات کرتے ہیں‘ اس کے دانشور دنیا بھر میں کشکول اٹھائے کیوں گھومتے پھرتے ہیں۔ پھر عاصمہ جہانگیر اور آئی اے رحمن کے بارے میں شکوک وشبہات کیوں پیدا نہ ہوں‘ جبکہ وہ قومی امنگوں اور دفاعی تقاضوں سے متصادم نظر آتے ہیں۔ کیا عاصمہ کو محض اس لیے معاف کردیا جائے کہ وہ وکیلوں کی لیڈر ہے؟ اصول یہ ہے کہ قانون ترجیحاً طاقتوروں پہ نافذ ہونا چاہیے۔
ایسے ادارے بھی ہیں‘ جن کی بعض سرگرمیاں مستحسن یا کم از کم گوارا ہیں لیکن کچھ دوسری قابلِ اعتراض۔ ایک طرف وہ گھریلو خواتین کو ہنر سکھاتی ہیں تو دوسری طرف ایٹمی پروگرام یا پاکستانی فوج کے خلاف واویلا کرتی ہیں۔ Save the children والے بچوں کو پولیو کے ٹیکے لگایا کرتے ہیں لیکن وہی جاسوسی کے لیے استعمال ہوئے۔ بعض لوگ ہیومن رائٹس کمیشن کے بارے میں شکوک و شبہات رکھتے ہیں۔ ممکن ہے محض بدگمانی ہو۔ مگر دیکھنا چاہیے کہ بلوچستان کی ساحلی پٹی پر ان کے دفاتر کیوں قائم ہیں؟ وہاں ان کے لوگ کیوں گھومتے پھرتے ہیں۔ این جی اوز کو ملنے والے سرمایے ہی کی نگرانی ضروری نہیں بلکہ ان کے ایجنڈے اور پروگرام کی بھی۔ پہلے سے ان کے منصوبوں اور سرگرمیوں کی اطلاع ہونی چاہیے۔ کوئی مہم اگر وہ شروع کرنا چاہیں تو پہلے سے بتائیں کہ کب اور کیوں؟ اخبار نویسوں اور وکلا کی تنظیموں پر جو لوگ مسلط ہیں‘ کیا وہ ہمارے اجتماعی ضمیر اور اجتماعی امنگوں کی نمائندگی کرتے ہیں؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ہرگز نہیں۔ ان کے پاس مگر سرمایہ ہے اور وہ معاشرے پر گرفت قائم کرنے کے آرزو مند ہیں۔ وہی غلبے کی انسانی جبلت‘ جس میں گردوپیش سے نفرت کا جذبہ شامل ہے۔ انہی میں سے ایک خاتون نے ایک انگریز جج سے کہا تھا ''ہمارا ایجنڈا یہ ہے کہ مذہب کو ملک سے نکال دیا جائے‘‘ اس میں تعجب کیا۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ غلامی کے مارے غیر فعال معاشروں میں ایسے لوگ گاہے مؤثر ہو جایا کرتے ہیں۔ پانچ برس میں امریکیوں نے سات ارب ڈالر امداد مہیا کی۔ زیادہ تر این جی اوز کو۔ آخر کیوں؟
افتادگان خاک کی خدمت کے لیے بروئے کار آنے والوں پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔ ان میں ایثار کیش اور دردمند بھی ہوتے ہیں۔ انہی تنظیموں کو مگر دشمن بھی برت سکتا ہے۔ دشمن سے کیا شکایت‘ کشکول برداروں پہ کیا غصہ۔ حماقت کا ارتکاب خود ریاست نے کیا ہے کہ کھلی چھوٹ دے دی۔ اجتماعی حیات کے بنیادی اصولوں میں سے ایک یہ ہے کہ احتساب کا خوف باقی رہے۔
بہت پابندی آدمی کو جانور بنا دیتی ہے لیکن بہت آزادی بھی۔ زندگی توازن‘ ترتیب‘ نظم اور قانون میں ہے۔ اقبالؔ نے کہا تھا: آزادیٔ افکار ہے ابلیس کی ایجاد... اور یہ کہا تھا ؎
صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے، پابہ گِل بھی ہے
انہی پابندیوں میں حاصل آزادی کو تو کر لے