جو کچھ بویا ہو ، وہی کاٹنا ہوتاہے ۔ دوسروں کی غلطیوں پر نہیں ، زندگی اپنی دانش او رریاضت پربسر کی جاتی ہے ۔ فرمایا: آدمی کے لیے وہی کچھ ہے ، جس کی اس نے کوشش کی۔
ہنگاموں پہ ہنگامے ہیں اور حادثات پہ حادثات۔ جناب الطاف حسین نے ایک نیا طوفان اٹھانے کی کوشش کی ہے ؛اگرچہ اٹھے گا نہیں ۔ ملّا عمر کا انتقال ہو جانے کے بعد مذاکرات خطرے میں ہیں ؛تاہم پھونک پھونک کر قدم اٹھایا جائے تو کشتی ساحل تک پہنچ سکتی ہے ۔ بھار ت نے مذاکرا ت کا جال اب بااندازِ دگر بُنا ہے ۔ تحریکِ انصاف بحران سے دوچار ہے اوریہ بحران پورے ملک کو متاثر کر سکتا ہے ۔ بلوچستان میں پیش رفت ہے او رایم آئی سکس نے، جس کے ایما پر ہربیار مری اور براہمداغ بگٹی لندن پہنچے تھے ، ہاتھ کھڑے کر دیے ہیں ، کم از کم وقتی طور پر ۔ ان سے کہہ دیاگیا ہے کہ وہ خاموش رہیں او رایسی سرگرمیوں میں ملوث نہ ہوں ، جو برطانیہ عظمیٰ کوپاکستان کے سامنے شرمسار کریں ۔ دہشت گردی زوال پذیر ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی آشکار ہے کہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے پر تلا ہو ادشمن ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھ رہے گا ۔ انفرا سٹرکچر کی تعمیر کا چینی منصوبہ جسے گوارا نہیں ۔مضمرات اور نتائج سے بے خبر سیاسی پارٹیاں جنگ آزما ہیں ۔ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد ملک کو قرار عطا ہونا چاہیے تھا۔ لیڈرانِ کرام 2018ء کے الیکشن کی تیاری کرتے ۔ نواز شریف حکومت کیسی ہی ہو مگر اب اسے کام کرنا چاہیے ۔ خرابیوں کی نشان دہی جاری رہے اور قومی ایجنڈہ تشکیل دیا جاسکے ۔
کراچی کے باب میں خلط مبحث سے نکلنا چاہیے ۔ الطاف حسین کی بے سروپا تقاریر او رموقف ایک مسئلہ ہے ۔ مہاجر آبادی
اور ان کے شہر کو درپیش مسائل دوسرا۔ ان کی نمائندگی ، ان کے مطالبات اور ان کی جائز امنگیں ۔ الطاف حسین کا طرزِ عمل مسترد کیا جا چکا اور اس کی پذیرائی کا اب کوئی سوال نہیں ۔جہاں تک کراچی ، حیدر آباد کی محرومیوں کا تعلق ہے تو وہ نظر انداز نہیں کی جا سکتیں ۔ سیاسی محاذ آرائی اپنی جگہ مگر منی پاکستان کے جیتے جاگتے مسائل کو حل کرنا ہوگا۔ جنگوں اور شورش میں بھی آدم کی اولاد کو رزق او راحساسِ تحفظ کی ضرورت ہوتی ہے ۔ کچھ لوگ ایک جذباتی لیڈر کے ناروا اندازِ فکر کی تائید بھی کریں تو ان کے حقوق معطل نہیں ہو جاتے ۔
الطاف حسین ذہنی صحت سے محروم ہو چکے ۔ قتل اور منی لانڈرنگ کیس کا دبائو تو تھا ہی ، بی بی سی کی طرف سے ''را‘‘ کے ساتھ مراسم آشکار ہو جانے کے بعد اعصاب اب ٹوٹ چکے ہیں ۔ جو تدابیر وہ کرتے ہیں ، وہ اس میں کچھ اور اضافہ کر دیتی ہیں ۔
جو آگ لگائی تھی تم نے اس کوتو بجھایا اشکوں نے
جو اشکوں نے بھڑکائی ہے اس آگ کو ٹھنڈا کون کرے
آدمی جب انتقام اور ردّعمل کی راہ پر چل نکلتا ہے تو مستقل طور پر برہمی کا شکار ہو جاتاہے ۔ منتقم مزاج آدمی دوسروں کو تباہ کرنے پر قادر ہو یا نہ ہو ، خود اپنے آپ کو برباد ضرور کرتاہے ۔ الطاف حسین کا مسئلہ صرف مقدمات نہیں ، ان کی اپنی پارٹی میں شکست و ریخت ہے ۔ ایک برس ہوتاہے ، سندھ کی صوبائی حکومت میں شریک ایک وزیر لپک کر ایک روحانی شخصیت کے پاس پہنچے اور بے تابانہ سوال کیا۔ کیا ہم سب لوگوں کی رہائی ممکن ہے ۔ موصوف کی صحت جواب دے چکی ۔ وہ ایک نفسیاتی کلینک میں زیرِ علاج رہے ۔ ایک وقت ایسا بھی تھاکہ اسلام آباد سے آئی ایس آئی کا سربراہ کراچی پہنچا۔ موصوف کی جان اگرخطرے میں ہو تو، حادثے کے بعد پید اہونے والی کشمکش میں کراچی اور حیدر آباد کا امن بچایا جا سکے۔ آرزو یہی ہے کہ اللہ انہیں جیتا رکھے۔ جو کچھ برپا ہونا ہے ، ان کی زندگی میں برپا ہو ۔ اگر وہ سچے او رکھرے ہیں تو خراجِ تحسین پائیں ۔ اگر نہیں تو اپنے اللہ سے پہلے مخلوق کے سامنے اپنے اعمال کی جوابدہی کریں ۔ اللہ کے آخری رسولؐ کا فرمان یہ ہے : دنیا سے کوئی اٹھے گا نہیں ،جب تک اس کا باطن آشکار نہ ہو جائے ۔ صلّو علیہ و آلہ۔
سندھ کو بائی پولر کے دو مریضوں کا سامنا ہے ۔ جناب زرداری اور جناب الطاف حسین ۔ کسی اچھے معالج سے پوچھیے تو وہ بتاتا ہے کہ کیفیت بدلے تو مریض آپے سے باہر ہو جاتاہے ۔ اسی حال میں زرداری صاحب نے اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی دی تھی ۔ اسی حال میں جناب الطاف حسین نے نیٹو سے اپیل کی ہے ۔ لیڈر کے ذہن کی طنابیں ٹوٹ گئی ہیں اور اب اپنے آپ پر اسے اختیار نہیں ۔ قرآنِ کریم میں لکھا ہے : زمین پر کوئی ذی روح ایسا نہیں ، جسے ہم نے اس کے ماتھے سے تھام نہ رکھا ہو۔ Fore Brainسے ،فیصلہ کرنے والے دماغ سے ۔ صوفیا جب لا حول ولا قوۃ کا ورد کرتے ہیں تو اس تمنا کے ساتھ کہ شخصیت او رتمنا میں آہنگ برقرار رہے ۔ وہ ربِ ذوالجلال کی رحمت کے سائے میں ، اثبات کے ساتھ بروئے کا رآئے۔ ایک صحابیؓ کو آنجنابؐ نے اس آیت کے ذکر میں مشغول پایاتو ارشاد کیا ''پڑھو کہ یہ دنیا او رآخرت کی 99مصیبتوں کا علاج ہے اور سب سے چھوٹی مصیبت غم ہے‘‘۔ لا حول ولا قوۃ کا مفہوم یہ ہے: اے میرے پروردگار میری کوئی قوت ہے اور نہ ارادہ ۔ اہلِ علم یہ کہتے ہیں کہ زندگی میں اضطراب اتنا ہی ہوتاہے ، جتنا کہ آدمی فطرت کے تقاضوں سے دور ہو ۔ اس کے قوانین سے ، جو ہر زندگی ، ہر معاشرے او رتاریخ کے ہر دور میں بلا استثنیٰ کارفرما رہتے ہیں ۔
دہشت گردی کے عالمی محاذ پر اب پاکستان کے کردار کی توثیق او رتحسین ہے ۔ بھارت بڑا ملک اور بڑی مارکیٹ ہے مگر اس خطۂ ارض کے علاوہ ، جس میں افغانستان ، ایران ، بھارت اور پاکستان ہیں ، مشرقِ وسطیٰ میں بھی عسکریت سے نمٹنے کے لیے راولپنڈی کا تعاون درکار ہے ۔ بھارت کیسی بھی چال چلے ، وہ بہت بڑی غلطیاں کر چکا ۔ ایم کیو ایم سے ''را‘‘ کے روابط ، بنگلہ دیش اور چین میںنریندر مودی کی پاکستان مخالف تقاریر ، بلوچستان اور پاکستان کی قبائلی پٹی اور افغانستان میں اس کی مداخلت ۔ ملا عمر کے بعد افغانستان میں نئی صف بندی لازم ہے لیکن مذاکرات سبھی کی ضرورر ت ہیں ۔ فقط صدر اشرف غنی اور پاکستان ہی نہیں، امریکہ‘ چین اور خود طالبان کی بھی جونو گیارہ کی نسبت آج کافی کمزور ہیں ۔ بات چیت سے وہ باقی رہ سکتے ہیں وگرنہ خالصتان تحریک کی طرح سوکھتے چلے جائیں گے ۔
تحریکِ انصاف کے ہنگامہ خیز مردانِ کار ۔ ایک آدھ محاذ ان کے لیے کافی نہیں ۔ حکومت سے برسرِ جنگ تو وہ ہمیشہ رہتے ہیں مگر باہم بھی ۔ اصول یہ ہے کہ کسی جماعت میں شکایا ت کا جب تک ازالہ نہ ہو تو شکایت اٹھتی ہے ، پھر وہ غیبت اور تصادم میں ڈھلتی ہے اور آخر کار بغض وعناد کی شکل اختیار کر لیتی ہے ۔ تحریکِ انصاف کے اندر احتساب کا کوئی نظام نہیں ؛چنانچہ مستقل محاذ آرائی ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ تنظیم سازی کے امکانات کم سے کم ہوتے جا رہے ہیں ۔ حامد خان کمزور سہی مگر ان کے اٹھائے ہوئے نکات اہم ہیں ۔ بیشتر تو بالکل جائز او ر درست ۔ خان صاحب کا وزن سیف اللہ نیازیوں ، جہانگیر ترینوں او رعلیم خانوں کے پلڑے میں ہو گا مگر بے چینی کم نہ ہوگی ۔ بغاوت کوئی اور محاذ ڈھونڈے گی ۔پھر اس باضمیر جج ، وجیہہ الدین کا وہ کیا کریں گے ،جو چٹان کی طرح اپنے موقف پر قائم ہے ۔ ان کے لیے بہترین یہی تھا اور یہی ہے کہ خارجی محاذ بند کر کے پارٹی میں آہنگ پید اکریں ۔ فسادیوں کو سزا دیں ۔ تنظیم کو موثر بنائیں اور جواب دہی کا مستقل نظام قائم کریں... دور دور تک اس کا امکان نظر نہیں آتا؛ چنانچہ تمام تر مقبولیت کے باوجود آئندہ بلدیاتی انتخابات ، آزاد کشمیر کا الیکشن اور 2018ء کے عام انتخابات میں بھی پارٹی اسی انجام سے دو چار دکھائی دیتی ہے ، جس کا مئی 2013ء میں سامنا تھا۔
جو کچھ بویا ہو ، وہی کاٹنا ہوتاہے ۔ دوسروں کی غلطیوں پر نہیں ، زندگی اپنی دانائی اور ریاض پربسر کی جاتی ہے ۔ فرمایا: آدمی کے لیے وہی کچھ ہے ، جس کی اس نے کوشش کی۔