عزت اور ذلت اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔ فیصلے وہ صادر کرتاہے۔ ایک پتہ بھی اذنِ الٰہی کے بغیر حرکت نہیں کرسکتا۔ فرمایا: اگر میں نہ چاہوں تو تم چاہ بھی نہیں سکتے ۔ و الی اللہ ترجع الامور۔
ایک بات اقبالؔ نے کہی تھی : یہ غازی ، یہ تیرے پر اسرار بندے ۔ جنہیں تو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی۔ ایک اس عجیب شاعر یاس یگانہؔ چنگیزی نے :
خودی کا نشہ چڑھا‘ آپ میں رہا نہ گیا
خدا بنے تھے یگانہؔ ‘مگربنا نہ گیا
عمر بھر وہ اسد اللہ خاں غالبؔ کو منہدم کرنے کی کوشش میں کیوں جتے رہے ؟فراقؔ گورکھ پوری کو بھی یہ مرض لاحق تھا ۔ ان کے ایک رفیق نے ، برسوں جسے ان سے واسطہ رہا، فراقؔ کے آخری برسوں کی روداد لکھی ہے اور یہ عبرت انگیز ہے ۔ دیوانہ سے ہو گئے تھے ۔فقط ایک قمیض پہنے، بادہ نوشی کرتے اور اقبالؔ کو گالیاں دیا کرتے ۔ غالبؔ او راقبالؔ مٹی اوڑھ کر سوتے تھے اورعظمت ان پر ٹوٹ کر برستی رہی ۔ غالبؔ کے بارے میں یہ کہا گیا : ہندوستان کی دو الہامی کتابیں ہیں ، گیتا اور دیوانِ غالبؔ ۔ اقبالؔ کی وفات پر سید سلیمان ندوی نے لکھا '' فلسفے اب اس سے نکالے جائیں گے ، رہنمائی اب اس سے طلب کی جائے گی‘‘ پاکستان تو ہے ہی ان کی فکر کا فیض۔ انڈونیشیا کی تحریکِ آزادی کے ہنگام ان کی نظموں کے مقامی زبان میں تراجم ہوئے کہ الائو سلگ اٹھے۔
ایرانی انقلاب سے قبل حافظ ؔ و سعدیؔ کی سرزمین میں برسات کے بادلوں کی طرح اقبال نے فروغ پایا۔ گلبدین
حکمت یار نے بیان کیا کہ ظاہر شاہ اور دائود کی جیلوں کے ا سیر ایک دوسرے کو شاعرِ مشرق کے اشعار تحفتاً بھجوایا کرتے ۔ کاغذ بہم نہ ہوتا تو سگریٹ کے خالی پیکٹوں پر۔ دوشنبہ کا تاریخ ساز دن و ہ تھا، جب پارلیمان کے سامنے دس لاکھ آدمی سحر سے شام تک اقبالؔ کا ایک مصرعہ گاتے رہے ع
از خوابِ گراں ،خوابِ گراں ، خواب ِ گراں خیز
زورِ بیان سے ، تعصب سے نفرت سے پہاڑ ایسی سچائیاں ٹل نہیں سکتیں ۔ دا د کا تمنائی ایک شاعر اپنی ذات کو بھلا دینے والے اقبالؔ کا کیا بگاڑ سکتا ۔ انسانی کاوشوں کی ایک حد ہے ۔ حدیثِ قدسی کا مفہوم یہ ہے : اے ابنِ آدم ،چالاکی کی راہ میں ، میں تجھے تھکا دوں گا ۔ آخر کو ہوگا وہی ، جو میں چاہتا ہوں ۔ قوانینِ فطرت کالا متناہی ، الوہی اور ابدی خروش ''جا ء الحق و ذھق الباطل ان الباطل کان ذھوقا۔‘‘ حق آگیا اور باطل چلا گیا۔ بے شک باطل تو ہے ہی مٹنے والا۔
یکم اگست کو امریکہ میں مقیم، اپنے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے الطاف حسین نے جو کچھ ارشاد کیا ، پاکستانی تاریخ کے اوراق میں وہ محفوظ رہے گا ۔ ایم کیو ایم کے لیے یہ فیصلہ کن ثابت ہوا۔ مہاجر باقی رہیں گے ، کسی نہ کسی شکل میں‘ ایم کیو ایم بھی مگر الطاف حسین کا عہد تمام ہوا۔ ان کی تقاریر کا کوئی سرپیر نہیں ۔ خود کو وہ تباہ کرچکے ۔ ہر بار کوئی مضحکہ خیز دعویٰ کرتے اور ان کے شرمسار حامی تعبیر کیا کرتے ۔ نوبت یہاں
تک پہنچی کہ چند مجبور لوگوں کے سوا ہر لیڈر اور ہر دانشور اب ان سے گریزاں ہے ۔پنجاب میں کئی اخبار نویس ان کے قائل تھے ۔ ایک ایک کرکے سبھی نے ر اہِ فرار اختیار کی ۔ دہلی کے ایک سیمینار میں عالی جناب نے ارشاد کیاتھا: پاکستان کا قیام انسانی تاریخ کی سب سے بڑی حماقت تھی ۔ ان کے خطاب کی سی ڈی عمران خان نے ایک چینل کے حوالے کر دی تھی ۔ وہ ایک بار سے زیادہ نشر نہ کر سکا ۔ پورے کا پورا پاکستانی میڈیا خوف سے کانپتا تھا۔ ریاستی قوت کے بل پر ابھرنے والے سفاک تو بہت تھے ۔ تیمو ر، چنگیز خان اور ہلاکو مگر غیر ریاستی جبرکی جیسی مثالیں پاکستان میں دیکھی گئیں ،تاریخ میں کم ہوں گی ۔ پاکستانی طالبان اور ایم کیو ایم۔ فہیم کمانڈو ، اجمل پہاڑی اور صولت مرزا نے نو سو برس پہلے کے شیخ الجبال کی یاد تازہ کر دی، جس کے خنجر سے کوئی محفوظ نہ رہا تھا۔
خود فریبی ، قدرتِ کاملہ جس شخص یا گروہ کو تباہ کرنے کا فیصلہ کر لے ، اسے خود فریبی میں مبتلا کر دیتی ہے ۔ عہدِ نبوی ؐ کے منافقین کا ذکر قرآنِ کریم اس طرح کرتا ہے : وما یخدعون الا انفسھم۔ اللہ کے رسولؐ اور اہلِ ایمان کو نہیں ، وہ صرف اپنے آپ کو دھوکہ دیتے ہیں ۔ اسلام کے جلیل القدر صوفیا میں سے ایک کہا کرتے تھے :یارب ، مجھے کوئی بھی عذاب دینا مگرحجاب کا عذاب نہیں ۔حقائق کو میری نگاہ سے اوجھل نہ کر دینا۔ رسولِ اکرم ؐ کی دعائوںمیں سے ایک یہ ہے ''اے اللہ مجھے اشیا کی حقیقت سے آشنا کر‘‘ اسلام کی علمی روایت میں جیسی اہمیت سیدنا علی بن عثمان ہجویریؒ کی کتاب کشف المحجوب کی ہے، کسی او رکتاب کی نہیں۔ خواجہ معین الدین چشتیؒ نے کہاتھا : اگر کسی کو مرشد میسر نہ ہو تو یہ کتاب اس کی رہنما ہے ۔ شاعری نہیں ، فرطِ عقیدت میں پیش کیا جانے والا خراجِ تحسین نہیں‘ ہر عہد میں وہ لوگ اٹھے ہیں ، جنہوں نے اس کتاب سے فیض پا کر اپنے زمانے کی رہنمائی کی۔
چار برس ہوتے ہیں ، جنرل اشفاق پرویز کیانی نے سوا ت کے صد رمقام میں دہشت گردی پر سیمینار سے فرصت پائی تو سینیٹر مشاہد حسین اور اس ناچیز کو یاد کیا۔ دو جنرلوں کی موجودگی میں مشاہدصاحب سے انہوں نے کہا : پروفیسر احمد رفیق اختر کے پاس جائیے ۔ کسی بھی شخص او رکسی بھی موضوع پر ان کا تجزیہ کم از کم 98فیصد درست ہوتاہے۔ کبھی میں تفصیل عرض کروں گاکہ ہلیری کلنٹن، ہالبروک، مائیکل ملن اور پیٹریاس سے نمٹنے میں درویش نے کس طرح سپہ سالار کی مدد کی ۔ دعا بھی مگر کوئی تعویز نہیں ، کوئی کالا جادو نہیں بلکہ استعماری گھمنڈ کے مارے امریکی لیڈروں کی نفسیات ، ہر ایک کے رجحانات اور طرزِ فکر پر گفتگو۔ ایساتجزیہ کہ دیوار کے اس پار دکھائی دینے لگے۔ یہ 2000ء کا ذکر ہے ، ایک امریکی سفارت کار پانچ گھنٹے تک ان کی خد مت میں حاضر رہا۔ اس دعوے کے ساتھ وہ آیا تھا کہ تصوف کا شناور ہے ۔ اڑھائی گھنٹے میں ہمت ٹوٹ گئی ۔ کہا: ایسی انگریزی میں نے کہیں نہیں سنی۔ پھر کہا: میں سر تسلیمِ خم کرتا ہوں... "I Surrender" سوال کیا کہ الگور اور بش میں سے کون جیتے گا ؟ جواب ملا: میں نہیں جانتا ۔ پھر کہا: اگر بش جیت گئے ۔ فرمایا: دنیا میں خوں ریزی ہوگی۔
راہِ طلب میں جو صداقت شعار ہوتے ہیں ، حجاب ان کے لیے اٹھا دیے جاتے ہیں ۔ا رشاد یہ ہے : مومن اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔ ایک آدھ نہیں ، سینکڑوں واقعات کا میں گواہ ہو ں ۔ ساری دنیاایک بات کہتی رہی اور وہ دوسری ۔ ان کا قول صادق ہوا۔ دہشت گردی سے پاکستان لرزتا تھا، جب بھی ان سے سوال کیا، ارشاد ہوا :کوئی دن کی بات ہے ، پاکستان ادبار سے نجات پا لے گا۔ اس سے بھی زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ کبھی جتلایا نہیں ، کبھی یاد نہ کرایاکہ فلاں پیش گوئی میں نے کی تھی ۔ آدمی ہیں ، فرشتہ نہیں ، عمران خان کے با ب میں مجھ ناچیز کی معروضات قبول کر لیں ۔ صدمہ پہنچا تو فقط یہ کہا : ہم اللہ سے ہار گئے اور اللہ سے ہارنے میں کیا گلہ؟ کپتان بھی آخر کو بدقسمت ثابت ہو ا کہ رہنما سے بھاگا او ر چھچھوروں کے ہجوم میں ہے ۔
عزت اور ذلت اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔ فیصلے وہ صادر کرتاہے۔ ایک پتہ بھی اذنِ الٰہی کے بغیر حرکت نہیں کرسکتا۔ فرمایا: اگر میں نہ چاہوں تو تم چاہ بھی نہیں سکتے۔ و الی اللہ ترجع الامور۔