"HRC" (space) message & send to 7575

الطاف حسین پیچھے رہ گئے

کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ لیڈر پیچھے رہ جاتا ہے اور زمانہ آگے بڑھ جاتا ہے۔ الطاف حسین پیچھے رہ گئے، فالتو اور غیر متعلق۔ ساری سیاسی قوتیں مل کر بھی کچھ زیادہ مہلت انہیں دے نہیں سکتیں۔ 
کیا حکمران نون لیگ اور پارلیمان میں موجود دوسری سیاسی پارٹیوں نے الطاف حسین کی طاقت کا غلط اندازہ نہیں لگایا؟ کراچی کے عسکری اور غیر عسکری ذرائع کو یقین ہے کہ شہر پر جلاوطن لیڈر کا کنٹرول ختم ہو چکا۔ جن مسلّح افراد کے ذریعے وہ کراچی اور اپنی جماعت پر قابو پائے رکھتے تھے، ان میں سے کچھ پکڑے اور مارے جا چکے، کچھ خوفزدہ اور روپوش ہیں اور بہت تھوڑے بروئے کار۔ خوفزدہ کرنے والے جب خود خوف کا شکار ہوتے ہیں تو ان میں جانوروں کی سی بھگدڑ مچا کرتی ہے۔ الطاف حسین خود کہہ چکے کہ پارٹی لیڈر ان سے بے وفائی کے مرتکب ہیں۔ انہیں چھوڑ کر وہ بھاگ رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں، جو انہیں دیوتا کا درجہ دیتے اور ان کے حکم سے سرتابی کی مجال نہ رکھتے تھے۔ دوسروں کی طرح لیکن اب وہ جانتے ہیں کہ ایم کیو ایم اپنی موجودہ شکل میں برقرار نہیں رہ سکتی۔
جیسا کہ ایک سے زیادہ بار عرض کیا، اس پارٹی میں تین سطحیں پائی جاتی ہیں۔ سیکٹر انچارج، جو حکم کے غلام ہیں اور محدود دائرے میں طاقت استعمال کرنے کے خوگر۔ ثانیاً وہ تعلیم یافتہ سیاسی لیڈر، ایم این اے اور ایم پی اے، جن میں سے بہت سے جرم سے علاقہ نہیں رکھتے۔ ثالثاً‘ اوپری سطح کے چند افراد پہ مشتمل قیادت، جس نے خود الطاف حسین کے بقول کروڑوں اور اربوں کمائے۔ اوپر کی دونوں سطحوں پر اب خلفشار ہے اور وہ عافیت کے متمنّی ہیں۔ کم از کم تین لیڈروں کے بارے میں، میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ انہوں نے عسکری قیادت سے رابطہ کیا اور حفاظت کی درخواست کی۔ ان میں سے اکثر الطاف حسین سے نجات چاہتے ہیں۔ ان کے چاروں طرف گھپ اندھیرا ہے اور وہ نہیں جانتے کہ نجات کی سحر کس طرح طلوع ہو گی۔
الطاف حسین بائی پولر (ڈیپریشن) کے مریض ہیں اور انہیں خود پر قابو نہیں۔ بیمار ہیں اور بیمار بھی ایسے کہ زہریلی ادویات (Steroids) استعمال کرنے پہ مجبور۔ منی لانڈرنگ اور عمران فاروق قتل کا سامنا ہے۔ ایم آئی سکس اور ''را‘‘ ان کی مدد کرنا بھی چاہیں تو ایک حد سے زیادہ نہیں کر سکتے۔ ذہنی طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ اس قدر کہ سالِ گزشتہ نفسیاتی علاج کراتے رہے۔ منصوبہ بندی کی غیر معمولی صلاحیت، کمال کی یادداشت اور بے پناہ عزم کے باوجود معاملات اب ان کے ہاتھ سے نکل چکے۔ یہ 1971ء ہے اور نہ کراچی بھارت کے بیچوں بیچ رکھا ہوا مشرقی پاکستان۔ وہ شیخ مجیب الرحمن ہیں اور نہ اسلام آباد میں کوئی یحییٰ خان اور ذوالفقار علی بھٹو۔ سیاست میں سب سے زیادہ اہمیت اس چیز کی ہوتی ہے کہ بدلتا ہوا زمانہ آپ کے حق میں ہے یا خلاف۔ وقت کا دھارا الطاف حسین کے خلاف بہہ رہا ہے۔ کراچی ہی نہیں، پورا ملک عسکری قیادت کی پشت پر کھڑا ہے، جو بلوچستان، قبائلی پٹی اور کراچی میں تیزی سے اپنا ہدف حاصل کر رہی ہے۔ چار ہفتے قبل کے آخری سروے کے مطابق 62 فیصد عوام آپریشن کے پُرجوش حامی ہیں، مخالف صرف 20 فیصد۔
جنرل راحیل شریف ملکی تاریخ کے مقبول ترین سپہ سالار ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ سول ادارے پیہم زوال کا شکار ہیں۔ قصور کا سانحہ رونما ہوا۔ پولیس، عدالت یا شہباز شریف کی بجائے مظلوم اور مجروح لوگوں نے عسکری قیادت کی طرف دیکھا۔ انہوں نے فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا۔ جمعے کی صبح میں نے پولیس لائن کوئٹہ میں چار سو دہشت گردوں کو ہتھیار ڈالتے دیکھا۔ وہ خجل اور پریشان تھے۔ ایک بلوچ سردار نے بھنّا کر کہا ''ناراض بلوچ، ناراض بلوچ کی کیا تکرار ہے۔ یہ قاتل اور تخریب کار ہیں۔ معاف تو انہیں کیا جا سکتا ہے مگر لجاجت کی کیا ضرورت۔ وہ بھاگ رہے ہیں، پسپا ہیں‘‘۔ وزیرِ داخلہ سرفراز بگٹی مائیک پر آئے اور یہ کہا: میرے لیے یہ زندگی کی مشکل ترین تقریر ہے۔ میں کسی کا دل توڑنا نہیں چاہتا‘ مگر ہم نے شہیدوں کے جنازے اٹھائے۔ اس وطن کے سپوت قومی پرچم میں لپیٹ کر دفن کیے گئے۔ ہم آپ کو معاف کرتے ہیں لیکن ہمارے دل خون ہیں۔ جنوبی کمان کے سربراہ جنرل ناصر جنجوعہ کا لہجہ ان سے زیادہ سخت تھا۔ ہتھیار ڈالنے والوں سے انہوں نے کہا: پہاڑ والوں سے ہم خوفزدہ نہیں۔ وہ کسی مقصد کے لیے برسرِ جنگ نہیں۔ جہاد اپنے وطن کے لیے ہوتا ہے یا اللہ کے لیے۔ سرداروں کے حکم پر قتل و غارت کرنے والے سوجھ بوجھ سے محروم ہیں۔ مہلت سے فائدہ اٹھا کر وہ لوٹ آئیں، وگرنہ ہم انہیں جا لیں گے۔
دوپہر ایک سے ساڑھے چار بجے تک زیارت ریزیڈنسی کے لیے ہم سفر میں تھے، جہاں قائدِ اعظم نے آخری ایام گزار ے تھے۔ اس وقت شام کے پانچ بجے ہیں۔ سائے میں بیٹھا، میں یہ عبارت لکھ رہا ہوں۔ دو سال پہلے اس عمارت کو دہشت گردوں نے تباہ کر دیا تھا‘ لیکن تعمیرِ نو اس طرح ہوئی کہ تخریب کا نشان تک نہیں۔ وہی صدیوں پرانے درخت سر اٹھائے کھڑے ہیں۔ وہی سبز رنگ کا منفرد جلیل ماتھا۔ وہی کالے اور بھورے پتھروں کی پُرشکوہ عمارت اور عقب میں پھیلا ساڑھے تین ہزار سال پرانا صنوبر کا جنگل۔ ہوا میں خنکی ہے۔ صحن میں سینکڑوں منتخب شہریوں سے ڈاکٹر عبدالمالک مخاطب ہیں۔ سالِ گزشتہ کے مقابلے میں ان کے لہجے میں کہیں زیادہ قرار اور ٹھہرائو ہے۔ سرگوشی میں کسی نے کہا تھا کہ سفر میں خطرہ درپیش ہو گا۔ خطرہ تو کیا جگہ جگہ ہم نے ضیافت کے دسترخوان دیکھے، جا بجا پاکستانی پرچم لہراتے پائے۔ کہیں کہیں پختون خوا ملّی عوامی پارٹی کے جھنڈے تھے اور اس سے زیادہ وہ موٹر سائیکل سوار جو بیک وقت تحریکِ انصاف اور پاکستان کے عَلَم لہرا رہے تھے۔ 
وزیرستان میں شہریوں کی واپسی شروع ہو چکی۔ ایک نیا بلوچستان جنم لے رہا ہے۔ کراچی آزادی کا جشن منا رہا ہے۔ سارے ملک کی طرح ایک والہانہ پن اور سرشاری کے ساتھ۔ ابھی ابھی زیارت میں براہوی، بلوچی، پشتو اور اردو میں ترانے گائے گئے۔ زیارت آنے والوں کا ہجوم اس قدر تھا کہ شہر کے باہر پون گھنٹہ انتظار کرنا پڑا۔ اس کے باوجود ایف سی کے ایک اعلیٰ افسر کی عنایت ہی سے بلندی پر بنے بازار تک پہنچ سکے‘ جس کے حاشیے پر بابائے قوم کا آخری مسکن ہے۔ یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ الطاف حسین ایسے میں من مانی کا خواب کیسے دیکھ سکتے ہیں؟ انہیں یہ اجازت کیسے دی جا سکتی ہے کہ جس وقت وہ چاہیں، درجن بھر ٹی وی چینلوں پر ملک، قوم اور اس کے مستقبل کا مذاق اڑائیں۔ بار بار وعدہ کرنے اور بار بار مکرنے والے پر اعتبار کیسے کیا جا سکتا ہے۔ رہا آپریشن تو اس کے بند ہونے کا سوال ہی نہیں۔ عسکری قیادت اس کا اشارہ بھی دے تو کراچی کے شہریوں اور خود فوج میں بے چینی پھیل جائے گی۔ تاجر یہ بات گوارا کریں گے اور نہ صنعت کار۔ 
جہاں تک ایم کیو ایم کے گرفتار شدگان کا تعلق ہے، تفتیش کے بعد ان میں سے کوئی بے گناہ پایا جائے تو نہ صرف اسے رہا کرنا چاہیے بلکہ معصومیت کا پروانہ بھی اسے عطاکرنا چاہیے۔ نواز شریف چاہتے ہیں کہ نظام چلتا رہے۔ ملک گیر سروے ہو تو شہریوں کی اکثریت بھی یہی چاہے گی اور فعال طبقات کی عظیم تعداد‘ مگر دہشت گردوں کو رہائی کیسے دی جا سکتی ہے؟ قاتل اور مقتول، ظالم اور مظلوم ایک برابر کیسے ہو سکتے ہیں؟ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ لیڈر پیچھے رہ جاتا ہے اور زمانہ آگے بڑھ جاتا ہے۔ الطاف حسین پیچھے رہ گئے، فالتو اور غیر متعلق۔ ساری سیاسی قوتیں مل کر بھی کچھ زیادہ مہلت انہیں دے نہیں سکتیں۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں