ابدیت سفرکو ہے، مسافر کو نہیں۔ اکثر لوگ مگر اپنی ذات میں جیتے ہیں۔ کتاب اس لیے یہ کہتی ہے کہ درجات علم کے ساتھ ہیں۔ قبولیت اور قوت نہیں، حتیٰ کہ زہد کے ساتھ بھی نہیں۔
عمران خان کہتے ہیں کہ این اے 264 اور این اے 19 کی انتخابی مہم میں ریحام خان اپنی مرضی سے شریک نہ تھیں۔ پھر افواہوں کے طوفان میں کہ ریحام سیاست میں سرگرم کردار ادا کرنے کی آرزومند ہیں، کپتان نے اعلان کیا کہ پارٹی تقریبات میں وہ نہیں جایا کریں گی۔ جماعت کا کوئی عہدہ بھی نہیں ملے گا۔
این اے 19 میں ان کی شرکت کے فوراً بعد بیشتر لوگ ان کی طرف دیکھنے لگے۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ تحریکِ انصاف کی دوسری اہم لیڈر بن گئیں۔ وہ لیڈر کی اہلیہ ہیں‘ مگر ان کا اپنا بھی ہنر ہے۔ سلیقہ مندی کے ساتھ انہوں نے بات کی۔ دوسرے لیڈروں کی طرح محض لیڈر کی تحسین اور نعرہ فروشی نہیں بلکہ ایسے نکات جو دلوں اور دماغوں پر اثر انداز ہو سکیں۔ بجا طور پر یہ کہا گیا کہ ان کی شخصیت میں کشش اور اعتماد کارفرما ہے۔
اسی دوران ان کے خیالات پر ناچیز نے تنقید بھی کی۔ اوّل یہ کہ اپنی پختون شناخت پر اس درجہ انہیں اصرار نہ ہونا چاہیے۔ ثانیاً مفکر اور فلسفی بننے کی کوشش نہ کریں۔ لیڈر معاشرے کی تقسیم اور تعصبات سے بالا ہوتا ہے۔ پشتون، پنجابی، سندھی، بلوچ اور مہاجر ہونا فضیلت ہے اور نہ کمتری۔ قبائل اور علاقوں کے رجحانات اور مزاج ہوتے ہیں مگر کردار نہیں۔ کردار ایک شخصی چیز ہے۔ کتاب میں لکھا ہے: ہم نے تمہیں قبائل اور گروہوں میں بانٹ دیا کہ پہچانے جائو۔ ثانیاً بنیادی اصول ہم کتاب، سیرت اور تاریخ سے اخذ کرتے ہیں۔ اہلِ علم کی رہنمائی سے۔ یہ سیاست دانوں کا وظیفہ نہیں کہ وہ معاشروں کی فکری رہنمائی کریں۔ قائد اعظم نے کہا تھا: میں تمہارا سیاسی ترجمان ہوں۔ میں تمہارا وکیل ہوں۔ میں تمہارے ایما پر شطرنج کھیلتا ہوں۔ یعنی تدبیر میری ذمہ داری ہے۔ فرمایا: میں روحانی پیشوا ہرگز نہیں۔
دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک انا کی پرورش کرنے والے۔ دوسرے ذات کے خوگر۔ یہ اپنی خامیوں کو سمجھنے اور ان کی اصلاح کا عمل ہے، پاکیزہ ترین عمل۔ مولانا ابوالکلام آزاد ان نمایاں لوگوں میں سے ایک تھے، جنہوں نے خود ستائی کو ایک مہم بنا دیا؛ حتیٰ کہ انا کی تعریف ہی بدلنے کی کوشش کی اور صداقتِ مطلق سے اس کا رشتہ جوڑا۔ اپنی اور اپنے آبائواجداد کی مدح میں لکھا۔ ملوکیت کے مارے معاشرے میں شخصیت پرستی یوں بھی بہت ہوتی ہے۔ ابوالکلام کے ہم عصروں میں ''شیخ العرب و العجم‘‘ قسم کے کئی لوگ تھے۔ اپنے آپ پہ نازاں، خود کو نمونہء عمل کہنے والے؛ اگرچہ سب ناکام۔ سید عطاء اللہ شاہ بخاری سادہ مزاج اور نیک طینت تھے۔ خطیب اور زبان دان بہت بڑے‘ مگر تاریخ نہ دینیات کے عالم۔ خوش الحان قاری اور استعمار کے باغی مگر زمانے کے تیور نہ سمجھ سکے۔
ان ہزاروں میں سے ایک، جو دیوبند کے آستانے پر ڈھے پڑے۔ تحریکِ آزادی میں ان کا کردار مولانا حسین احمد مدنی سے کہیں زیادہ تھا‘ مگر انہیں پیشوا تسلیم کرتے۔ لاہور کے ایک جلسہء عام میں ہجوم نے مولانا مدنی کو سننے سے انکار کر دیا، ''بخاری، بخاری‘‘ کی صدائیں بلند ہوئیں تو مولانا کے سامنے وہ ہاتھ باندھ کر کھڑے ہو گئے۔ یعنی یہ کہ انہیں معاف کر دیجیے۔ ابوالکلام نے ایک بار انہیں ڈانٹ بھی دیا تھا، جب لاہور کے ایک تاجر کی سفارش کے لیے وہ ان کے پاس دہلی گئے۔ عبوری حکومت میں مولانا وفاقی وزیر تھے۔ عوامی جذبات اور مفاد کا خیال رکھتے۔ خود پہ مگر ناز بھی بہت تھا۔ نہ صرف اس جواز پر شاہ جی کی سفارش ٹھکرائی کہ پہلے ہی وہ انکار کر چکے‘ بلکہ برہم ہوئے۔ ادّعا ان میں بہت تھا، یعنی یہ کہ ان کا قول ہی قولِ فیصل ہے۔ اسی موضوع پر ایک عدالت میں خطاب بھی کیا۔ تحریری خطبہ جو بعدازاں شائع کیا گیا۔
انہی ابوالکلام کے ایما پر شاہ جی کو ''امیرِ شریعت‘‘ کا لقب دیا گیا۔ سینکڑوں علما نے ان کی بیعت کی۔ کس چیز کے لیے؟ روحانی تربیت یا سیاسی جدوجہد کے لیے۔ شاہ جی خطیب تھے اور جدوجہد آزادی کے سپاہی مگر علما کے استاد؟ دینی تعلیم آخری مرحلے میں ادھوری چھوڑ دی تھی۔ رہی سیاسی جدوجہد تو علما کا کردار یقینا تھا مگر غالب کردار نہیں۔ کارِ سیاست اصل میں سیاستدانوں کا کام ہے۔ یہ بجائے خود ایک آرٹ ہے۔ عوامی بہبود کے اس فن کی دنیا میں، گزشتہ تین صدیوں میں قائداعظم محمد علی جناح ایسا نادرِ روزگار آدمی نہ دیکھا گیا۔ نظم و ضبط کی پابندی کا سختی سے مطالبہ کرنے کے باوجود، خود پسندی سے وہ کوسوں دور تھے۔ اس عہد کے اکثر علما جس میں مبتلا ہوئے اور ہندوئوں کے مہاتما کرم چند موہن داس گاندھی بھی۔
اپنے عہد کے عظیم ترین فلسفی اور تاریخ ساز شاعر اقبالؔ نفی ذات کی اہمیت سے آشنا تھے۔ قائدِ اعظم ہی نہیں، خواجہ مہر علی شاہ سے ان کی محدود سی مراسلت میں بھی خاکساری نمایاں ہے۔ خواجہؒ کے نام ایک خط میں لکھا: ''ہندوستان میں آپ کے سوا کوئی دوسرا شخص مجھے نظر نہیں آتا، جو میری رہنمائی کر سکے‘‘۔ اقبال ؔ گنتی کے ان چند لوگوں میں سے ایک تھے، جو خواجہؒ کے مقام و مرتبے کو سمجھ سکے۔ جب مسلم برّصغیر مہدیانِ عصر کے غلغلے سے گونج رہا تھا‘ تعلّی شاعروں کا شعار تھا مگر اقبالؔ نے اپنے بارے میں یہ کہا ''گفتار کا یہ غا زی تو بنا، کردار کا غازی بن نہ سکا‘‘ عاجزی ان کی روزمرہ حیات کا کبھی نہ الگ ہونے والا حصہ تھی۔
میاں محمد نواز شریف یا کوئی دوسرا سیاسی لیڈر جب یہ کہتا ہے کہ وہ پاکستان کی تقدیر بدل ڈالے گا‘ تو گھن آتی ہے۔ بیچارے مجبور ہیں۔ طالبِ علم ہی نہیں، سیکھیں گے کیا۔ عمران خان کا حال بھی یہی ہے۔ وہ سنتا ضرور ہے مگر اس گمان کے ساتھ جیتا ہے کہ وہ ایک برگزیدہ آدمی ہے۔ خوبیوں کے ساتھ ساتھ ریحام خان کے اظہار خیا ل میں خامیاں ضرور تھیں۔ اس لیے مگر وہ سیاست سے الگ نہ کی گئیں بلکہ اس لیے کہ کپتان پر حرف آیا۔ یہ کہا گیا کہ موروثی سیاست کا مخالف ہونے کے باوجود اپنی اہلیہ کو انہوں نے جانشین بنا دیا۔ مخالفین نے ان کے لیے ''عروسی سیاست‘‘ کی ترکیب استعمال کی۔ عمران خان کہہ سکتے تھے کہ پارٹی میں ان کا کوئی عہدہ نہ ہو گا۔ شعبہء خواتین کی سربراہ تک نہیں مگر اپنا کردار وہ ادا کرتی رہیں گی۔ سیاست سے بارہ پتھر باہر کر دینے کا مطلب کیا؟ خود عمران خان بھی شوکت خانم ہسپتال چلا رہے ہیں۔ نمل یونیورسٹی اور عمران خان فائونڈیشن بھی۔ غریب بچوں کے لیے ریحام خان کی کاوش خوب مگر فلم سے ردّعمل کے سوا کچھ حاصل نہ ہو گا۔ پچھتانا پڑے گا۔ معاشرے کی ساخت (Chemistry) سے وہ واقف نہیں۔ طالبِ علمانہ طرزِ عمل اگر اختیار کریں تو بہت کچھ سیکھ لیں گی۔ پارٹی میں ایک مثبت کردار ادا کرنے کی وہ اہل ہیں۔ عمران خان کو انہیں اپنی انا پہ قربان نہ کرنا چاہیے۔
ابدیت سفر کو ہے، مسافر کو نہیں۔ اکثر لوگ مگر اپنی ذات میں جیتے ہیں۔ کتاب اس لیے یہ کہتی ہے کہ درجات علم کے ساتھ ہیں۔ قبولیت اور قوت نہیں، حتیٰ کہ زہد کے ساتھ بھی نہیں۔