نصف صدی ہوتی ہے، حفیظ جالندھری نے ایسا ہی کوئی منظر دیکھا تھا۔ کراچی اور بلوچستان میں دہشت گرد پامال، جرائم پیشہ پامال، پنجاب میں قومی خزانہ لٹانے والے خراب۔
بڑھتے بڑھتے حد سے اپنی بڑھ چلا دستِ ہوس
گھٹتے گھٹتے ایک دن دستِ دعا رہ جائے گا
زرداری، ان کا خاندان اور چیلے چانٹے ان دنوں ایک ایک فقیر کا دروازہ کھٹکھٹا رہے ہیں۔ کوئی کھلتا ہے، کوئی نہیں کھلتا۔
براہمداغ تھک گیا۔ سبّی، نصیر آباد اور جعفر آباد کے نہری پانی سے آبپاش اضلاع میں اس کے کارندے بھتہ وصول کیا کرتے، 14 سو روپے ایکڑ ماہانہ۔ جو نہ دیتے، ان کے کھیتوں کھلیانوں میں وہ بارودی سرنگیں بو دیتے۔ فرنٹیئر کور نے تیس چالیس بھتہ خوروں کا صفایا کر دیا۔ کروڑوں کی آمدن جاتی رہی۔ اب ''را‘‘ پر انحصار ہے۔ بنیا نتائج مانگتا ہے اور وہ امیدوں کے برعکس ہیں۔ بگٹیوں کی زمینوں پر، انگریزی عہد میں، حروں پر یلغار کے ہنگام جو استعمار نے عطا کی تھیں، جب انہوں نے کرائے کا لشکر بنایا، کاشتکاری کرّوفر سے جاری رہی۔ اب وہاں بھی قافیہ تنگ ہے۔ غدّاری کا صلہ کم اور نقصان زیادہ ہوا تو گھر یاد آیا۔ دہشت گردی ختم کرنے میں، عمران فاروق قتل کیس میں برطانیہ کو پاکستان کا تعاون درکار ہے۔ جنرل راحیل شریف نے ڈیوڈ کیمرون سے احتجاج کیا تو براہمداغ بگٹی اور ہربیار مری کو پچکار کر ایک کونے میں بٹھا دیا گیا ہے۔ کتنے ہی بے گناہ ان کے کارندے شہید کر چکے تھے۔ اب جو اعلان آنجناب نے کیا ہے، وہ کسی فرمائش کے بغیر ہے۔ ڈاکٹر عبدالمالک نے فوراً ہی اس کا خیر مقدم کیا۔ عسکری قیادت کا کہنا ہے کہ فی الحال جائزہ لیا جائے گا۔ ابھی کچھ کہا نہیں جا سکتا۔
بڑی خبر یہ ہے کہ خان آف قلّات کی آمد طے پا چکی۔ قرینہ زیرِ غور ہے۔ اکبر بگٹی کے قتل سے اٹھنے والے ہنگامے میں بھارت اور بعض دوسری عالمی طاقتوں نے علیحدگی کا خواب دکھایا تھا۔ ادھر ایم آئی سکس کے پاس گوادر سے کراچی تک کی پٹی کو الگ کرنے کا ایک منصوبہ ہے۔ اس ادارے پر یہودی رسوخ کافی ہے۔ اس کے کارندے لندن کے پاکستانی سفارت خانے میں نقب لگانے کے مرتکب بھی ہوئے۔ سکینڈے نیویا سے اسرائیل نواز سرمایہ داروں کا روپیہ ہماری این جی اوز کو پہنچتا ہے۔ اسی لیے بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالی پر وہ زیادہ فکرمند ہوتی ہیں۔ ملک کی سیاست اور ذرائع ابلاغ میں علیحدگی پسندوں کے لیے امکانات بڑھانے کی کوشش کرتی ہیں۔ انسانی حقوق والے ساحلی بلوچستان میں زیادہ سرگرم ہیں۔ آخر کس لیے؟
بلوچستان کی علیحدگی کا خواب سرے سے احمقانہ ہے۔ اوّل تو بلوچوں کی عظیم اکثریت محبت وطن ہے۔ صرف شورش پسند بلوچ سرداروں کی کچھ رعایا ان کے کام آتی ہے۔ ہتھیار ڈالنے والے ممتاز کمانڈر قلّاتی خان نے اخبار نویسوں کو بتایا: ہمیں پہاڑوں میں مورچہ زن کیے رکھا اور خود عیش کی زندگیاں جیتے رہے۔ ان کے بیٹے کو دوسرے چھاپہ مار گروپ نے اغوا کر لیا تھا۔ وہ ایسے ہی ناتراشیدہ ہیں... وحشی! لیڈروں کو بھارت سے جو کچھ ملتا ہے، خود ڈکار جاتے ہیں۔ ان کے ''حریت پسند‘‘ چھاپہ مار بھوکے مرتے ہیں۔ بلوچوں کی قابلِ ذکر تعداد کراچی، سندھ کے دوسرے شہروں، مشرقِ وسطیٰ اور ایران میں رزقِ حلال کماتی ہے۔ صوبے کی آدھی آبادی پشتون ہے اور ظاہر ہے کہ شورش سے لاتعلق۔ بھارت کی کوشش یہ ہے کہ فساد کی آگ بہرحال سلگتی رہے۔ باغیوں کے علاوہ فرقہ پرستوں اور طالبان کی بھی وہ مدد کرتا ہے۔
انسانی حقوق والے لیڈر اور لیڈرانیاں بھارت بہت جاتی ہیں۔ ان میں سے بعض وہیں خریداری کرتے اور علاج کراتے ہیں۔ ان کا مستقل مشغلہ عسکری قیادت اور آئی ایس آئی کی مذمت ہے۔ ان میں سے بعض وزیرِ اعظم نواز شریف کو وفاداری کا یقین دلاتے ہیں۔ یہ لوگ نام نہاد آزاد اخبار نویسوں سے رہ و رسم رکھتے ہیں، اصلاً جو مفادات کے بندے ہیں۔ داد کے طلب گار، زر کے بھوکے۔ کچھ وفاقی وزرا ترقی پسندی کے نام پر ان کے مددگار ہیں۔ نواز شریف کے دائیں بازو کے کچھ وفادار اس پر آزردہ رہتے ہیں، گدا کا اختیار کیا؟
زمین غدّاروں پر تنگ ہوتی جائے گی۔ ڈاکٹر امجد ثاقب کی اخوت، جماعتِ اسلامی کی الخدمت اور دوسری رفاہی تنظیموں کو مفلوک الحال بلوچوں کی تعلیم و تربیت اور روزگار کے لیے منصوبہ بندی کرنی چاہیے، جس کا کوئی تعلق سیاست سے ہرگز نہ ہو۔ ڈاکٹر امجد معجزہ کر سکتے ہیں۔ اللہ نے انہیں دانش بخشی ہے، دردِ دل بھی۔
کراچی بدل گیا۔ زرداری صاحب کی طرح ڈاکٹر عاصم کو بھی اپنی ذہانت پر ناز بہت تھا۔ اب تک جو کچھ سامنے آیا، وہ برفیلے سمندروں کے آئس برگ کا ایک کونہ ہے۔ زرداری حکومت کے آخری ایام میں اسلام آباد سے وہ چالیس ارب روپے لوٹ لے گئے۔ انہی کے بارے میں شہباز شریف ''علی بابا چالیس چور‘‘ کی پھبتی کسا کرتے۔ بازاروں میں گھسیٹنے کا اعلان فرمایا کرتے۔ حکومت قائم ہونے کے بعد ان سے برملا معافی مانگی اور جرائم کی پردہ پوشی کا وعدہ۔ زرداری صاحب اس اثنا میں میاں صاحب کو جنرلوں سے نمٹنے کے مفید مشورے دیتے رہے؛ حتیٰ کہ حادثات ہوئے اور ہوش غالب آیا۔ زرداری ایم کیو ایم کی رفاقت بھی اسی لیے برقرار رکھنے کے آرزومند تھے مگر الطاف حسین وحشت کی نذر ہوئے۔ وہ سمجھ نہ سکے کہ ہر طاقت کی حدود ہوتی ہیں ؎
اس گلستاں میں نہیں حد سے گزرنا اچھا
ناز بھی کر تو با اندازۂ رعنائی کر
عسکری قیادت نے سول اداروں کو پیغام دیا ہے کہ مجرموں سے صرفِ نظر ہرگز نہ کریں۔ اس پیغام کا دائرہ وسیع ہے۔ مستقبل کی سیاست پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ الطاف حسین اور زرداری صاحب اپنا شعار ترک کرنے پر چونکہ آمادہ نہیں، فوری نتیجہ اس کا یہ ہے کہ سیاسی گرفت ان کی کمزور ہونے لگی ہے۔ اگر زرداری کا سب سے قریبی رفیق بے نوا مجرم کی طرح پکڑا جائے تو سندھ حکومت کی حیثیت کیا رہی؟ خورشید شاہ وزارتِ عظمیٰ کا خواب دیکھتے ہیں، باتیں بچوں کی سی کرتے ہیں۔ سیاست کی بنیاد جرم پر نہیں رکھی جا سکتی۔ ڈاکٹر عاصم بھی اگر معصوم ہیں تو خطاکار کون ہے؟ فوج کو ذمہ دار ٹھہرانے کی بجائے اپنے گریبان میں جھانکیے۔ ابھی تو انور مجید اور اس کے فرزندوں کی باری آئے گی۔ ابھی تو کتنے ہی افسر اور لیڈر پکڑے جائیں گے۔ اغوا برائے تاوان کے جتھے بنانے، ایران سے پٹرول سمگل کرنے، بھارتیوں کو شناختی کارڈ جاری کرنے والے وعدہ معاف گواہوں کی فہرست طویل ہے۔ ملک کی سیاست اپنے باطن میں بدل چکی اور ظاہر میں بدلنے والی ہے ع
محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا جائے گی
جرم اور سیاست، کاروبار اور اقتدار کو الگ کرنا ہو گا۔ عدالتی فیصلوں سے خستہ و خوار نون لیگ نے واقعی ضمنی الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پنجاب کے ترقیاتی منصوبے بلدیاتی الیکشن کے نقطۂ نظر سے مرتب تھے۔ اب لودھراں اور لاہور میں تین حلقوں کے لیے۔ محکمہ منصوبہ بندی و ترقیات (پی این ڈی) کو کل ہی حکم ملا ہے۔
1970ء میں لاہوریوں نے قیمے والے نان میاں محمد شریف مرحوم کے بھیجے ہوئے کھائے تھے، ووٹ ذوالفقار علی بھٹو کو دیے تھے۔ وہ بھارت کے مقابل کھڑے تھے۔ تب وہ افتادگانِ خاک کے ترجمان سمجھے گئے۔ اب عمران خان کا نعرہ یہی ہونا چاہیے۔ ''کھائو پیو سب کا، ووٹ اپنی مرضی کا‘‘۔ سرکاری وسائل نون لیگ کے پاس بہت ہیں اور سیاسی تجربہ بھی۔ کارکن کپتان کے پاس ہیں۔ اگر وہ ان کو رزم آرا کر سکے۔
نصف صدی ہوتی ہے، حفیظ جالندھری نے ایسا ہی کوئی منظر دیکھا تھا۔ کراچی اور بلوچستان میں دہشت گرد پامال، جرائم پیشہ پامال، پنجاب میں قومی خزانہ لٹانے والے خراب ؎
بڑھتے بڑھتے حد سے اپنی بڑھ چلا دستِ ہوس
گھٹتے گھٹتے ایک دن دستِ دعا رہ جائے گا