فرمایا: ''کثرت کی خواہش نے تمہیں ہلاک کر ڈالا‘ حتیٰ کہ تم نے قبریں جا دیکھیں‘‘
کثرت کی آرزو رہائی نہیں دیتی۔ تمام عمر، تمام قوت اپنے اندر ہی تمام ہوتی رہتی ہے۔ کائنات دکھائی دیتی ہے‘ فطرت‘ نہ اس کے ابدی قوانین‘ جن سے آہنگ پیدا کیے بغیر قرار مل نہیں سکتا۔
وزیرِ اعظم کے دورۂ باغ پر میڈیا نے سیاق و سباق نظر انداز کر دیا۔ بھارتی جارحیت پر جواب دینے نہیں، وہ انتخابی مہم کے لیے تشریف لے گئے۔ آٹھ ماہ بعد الیکشن برپا ہوں گے۔ نون لیگ اور پیپلز پارٹی سرگرم ہیں، چھوٹی جماعتیں بھی۔ بس ایک تحریکِ انصاف ہے، جو لمبی تان کر سو رہی ہے۔ گلگت بلتستان کی طرح آخری دنوں میں ہڑبڑا کر وہ جاگے گی۔ وہ عمران خان ہے، احتجاج کے سوا کسی چیز میں اس کا دل نہیں لگتا۔ وہ پی ٹی آئی ہے، حکمت و تدبیر سے حکیم نے اسے پرہیز بتایا ہے۔ شور و غوغا ہے، جنون ہے، ترانے ہیں، جلسے اور جلوس ہیں، گیت ہیں، دھمکیاں اور چیلنج ہیں۔ بس وہی ایک کام نہیں، جس کی ضرورت ہے۔ تنظیم سازی اور بروقت موزوں امیدوار کا انتخاب۔ دھرنا ہے اور سیاپا ہے ؎
ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق
نوحۂ غم ہی سہی، نغمۂ شادی نہ سہی
وزیرِ اعظم نے مشتاق منہاس کا نام لیا۔ سراہا اور کہا کہ ان کے کہنے پر منصوبوں کا اعلان کرتا ہوں۔ چوہدری عبدالمجید کا حوالہ دیا کہ جب بلائیں گے، چلا آئوں گا۔ نہ لیا تو نون لیگ کی آزاد کشمیر شاخ کا نام نہ لیا۔ فاروق حیدر کا نام نہ لیا؛ حالانکہ نیک نام ہیں۔ کشمیر میں پارٹی کا سب سے بڑا اثاثہ ہیں۔ جتنے دن وزیرِ اعظم رہے، ٹھاٹ سے رہے۔ نوجوانوں میں مقبول ہیں۔ نواز شریف کا وہی شاہانہ مزاج۔ خود کو فِیل سمجھتے ہیں۔ ہاتھی کے پائوں میں سب کا پائوں۔
کئی برس ہوتے ہیں۔ یٰسین ملک کی خوش دامن، محترمہ مشال یٰسین کی والدہ محترمہ بے باک اور دھڑلے دار، ریحانہ حسین ملک میاں صاحب کے گھر گئیں۔ سواگت کیا۔ اہلیہ محترمہ اور صاحبزادی کے ساتھ کھانے کی میز پر تشریف فرما ہوئے۔ پھر یہ کہا: ''میں کشمیر کی تاریخ کا سب سے بہادر لیڈر ہوں‘‘۔ جواب ملا: میاں صاحب آپ کو یہ بات نہ کہنی چاہیے تھی۔ کہانی یہیں ختم ہو گئی۔ کہنے کو ریحانہ ملک یہ بھی کہہ ڈالتیں کہ میاں صاحب، آپ تو جدّہ چلے گئے تھے۔
کیسے کیسے جی دار فرزند کشمیر نے جنے ہیں۔ خود یٰسین ملک، سردار سکندر حیات کے والد فتح محمد کریلوی، راجہ فاروق حیدر کے والد راجہ حیدر خان، غازی ملّت سردار محمد ابراہیم خان، رئیس الاحرار چوہدری غلام عباس۔ قائدِ اعظم نے یاد کیا تو کہا: پہلے سے بتایا جائے، گورنر جنرل ہائوس کے دروازے پر خیر مقدم کروں گا۔ چوہدری صاحب دس منٹ پہلے ہی سیکرٹری کے کمرے میں جا بیٹھے۔ وہ سٹپٹایا اور بات بتائی۔ پھر سے باہر گئے۔ قائدِ اعظم دفتر سے نکلے اور استقبال کیا۔ پاکستان افلاس کی دلدل میں تھا، ایک روپیہ آج کے ایک ہزار کے برابر۔ ایک لاکھ روپے ماہانہ وظیفہ ان کا مقرر کیا۔ یہ روپیہ مہاجرین، دوسرے حاجت مندوں پہ صرف ہوتا۔ خود کوہ مری میں لکڑی کے چھوٹے سے کمرے میں پڑے رہتے۔ سیاستدان برصغیر نے بہت پیدا کیے مگر فقیر وہی تھے یا حسرت موہانی۔ ان کی امانت و دیانت کی قسم کھائی جا سکتی، حب الوطنی ان کی ضرب المثل تھی۔ ان کی یاد آتی ہے تو کتنے ہی نقش دمک اٹھتے ہیں۔ کسی اسیر نے لکھا تھا ؎
اک عجب بوئے نفس آتی ہے دیواروں سے
ہائے کیا لوگ تھے زنداں میں بھی ہم سے پہلے
کیسے کیسے لو گ زندگی کر گئے۔ ایسا لگتا ہے کہ اب بھی ہمارے درمیان جیتے ہیں۔ یہیں کہیں آس پاس ہیں۔ اپنے مشفق و مہربان، اپنے بزرگ لگتے ہیں ؎
ابھی ابھی انہی کنجوں میں اس کے سائے تھے
ابھی ابھی تو وہ تھا ان برآمدوں میں یہاں
سراج الدولہ کی موت پر ان کے ہندو وزیر نے کہا تھا ؎
غزالاں تم تو واقف ہو کہو مجنوں کے مرنے کی
دوانہ اٹھ گیا، آخر کو ویرانے پہ کیا گزری
کشمیر کے ہزاروں شہدا کے علاوہ، گنج ہائے شہدا میں جو سوئے پڑے ہیں، جو خدا اور تاریخ کی بارگاہ میں ہمیشہ کے لیے محترم اور معزز ہیں۔ سیّد صلاح الدین ہیں، سیّد علی گیلانی ہیں۔ افتخار عارف موتی پرو دیتے ہیں ؎
ہمیں میں رہتے ہیں وہ لوگ بھی کہ جن کے سبب
زمیں بلند ہوئی آسماں کے ہوتے ہوئے
ایسوں کے جگمگاتے، نواز شریف خود ہی کو دیوتا گردانتے ہیں۔ ہمارے اعمال کی سزا! وہ قائدِ اعظم ثانی ہیں، زرداری صاحب ایشیا کے نیلسن منڈیلا۔ جہاں تک کپتان کا تعلق ہے، جنگ و جدل سے کبھی فرصت پا سکا تو تعمیر کی آرزو بھی پا لے گا۔ اسے طوفان اٹھانے کا عارضہ لاحق ہے۔ شاعروں کی طرح ہیرو بننے کا۔
جائو کہہ دو کوئی ساحل کے شبستانوں میں
لنگر انداز ہوں میں آج بھی طوفانوں میں
وزیرِ اعظم نے 41 منصوبوں کا افتتاح کیا۔ فرمایا: آزاد کشمیر کے پہاڑوں اور وادیوں میں سڑکوں کا جال بچھا دوں گا۔ سڑک، سیمنٹ اور سریے کے سوا عالی جناب کو سوجھتا ہی کچھ نہیں۔ کرپشن اور بدانتظامی آزاد کشمیر کو کھا گئی۔ اسے اچھی حکومت درکار ہے، حسنِ انتظام۔ خوش قسمتی سے فاروق حیدر موجود ہیں۔ سب ہنر، خوشامد کے سوا رکھتے ہیں۔ صنعت کاری اس خطے کو سازگار نہیں۔ افرادی قوت شاندار ہے۔ اقبالؔ نے کہا تھا ''قومِ چرب دست و تر دماغ‘‘ آئی ٹی پارک بنائیں، ٹیکنیکل ادارے کہ اندرونِ ملک اور سمندر پار کشمیری نوجوان نوکریاں پائیں۔ وادیٔ نیلم بہشت کا نمونہ ہے۔ سیاحت کے لیے موزوں مقامات، ان کے لیے آسان قرض اور میزبانی کے تربیتی ادارے۔ سڑکیں بارشوں میں بہہ جاتی ہیں۔ سطح مرتفع میں پانی کی نکاسی سہل ہے مگر پروا بھی ہو۔ بہت شاہراہوں کی بجائے کم بنائی جائیں مگر مضبوط کہ مدّتوں باقی رہیں۔ کشمیر کی سڑک تو سیمنٹ سے بننی چاہیے۔ نصف صدی عمر پاتی ہے۔ تعلیمی اداروں کا حال پتلا ہے۔ اساتذہ کی تربیت چاہیے۔ ہسپتالوں کا حال اور بھی خراب۔ 40 ہزار میگاواٹ پن بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ وزیرِ اعظم کو یاد ہی نہیں کہ چار برس سے یہ خطہ محترمہ فریال تالپور کی چراگاہ ہے۔ عام سرکاری ملازمین ہی نہیں ، سول سروس کا معیار بھی پست ہو چکا۔ کیا کہنے، قائدِ اعظم ثانی کے‘ کیا کہنے!
مقبوضہ کشمیر سے جو لوگ ملازمتوں کے لیے مشرقِ وسطیٰ پہنچتے ہیں، ان میں سے ہر ایک کے ہاتھ میں ایک ہنر کا سرٹیفکیٹ ہوتا ہے۔ آزاد کشمیر والوں کے لیے مواقع زیادہ ہیں۔ میرپور سے ہر سال سینکڑوں نوجوان بیاہ رچانے برطانیہ جاتے ہیں۔ اچھی انگریزی اور کوئی ہنر سکھا دیا جائے تو ان کی زندگیاں شادمان ہوں، ان کا خاندان اور وطن بھی شاد ہو۔ Anatol Lieven کی کتاب "Pakistan, a hard country" میں، جو ایک معتبر دستاویز ہے، یہ لکھا ہے: پچاس برس بعد بھی 59 فیصد شادیاں خاندان میں ہوتی ہیں۔ دوری محبت کو بھڑکاتی ہے۔ پاکستانیوں کے دلوں میں ملک کی محبت کبھی نہ مر سکے گی۔ وزیرِاعظم کو کون سمجھائے۔ برطانیہ کے کشمیریوں کی مدد سے چھوٹی سطح کے ہزاروں ترقیاتی منصوبے مکمل ہو سکتے ہیں... ان کے نام پر بنائے جائیں۔ ترقیاتی منصوبے الیکشن جیتنے کے لیے بنیں گے۔ اپنی سیاست اور اپنے کاروبار سے میاں صاحب کبھی رہائی نہ پا سکے۔ گلگت بلتستان کے بعد اب آزاد کشمیر فتح کرنے کی فکر ہے۔ کاش کبھی خلق کے لیے سوچیں۔ کاش کبھی ملک کے لیے سوچیں۔ فرمایا: ''کثرت کی خواہش نے تمہیں ہلاک کر ڈالا‘ حتیٰ کہ تم نے قبریں جا دیکھیں‘‘