کوئی اپنے قاتل پہ مہربان نہیں ہو سکتا۔ افراد ہوں یا اقوام‘ بلیک میلروں سے خوف زدہ ہو کر فروغ نہیں پا سکتے۔ اپنے لٹیروں کو جو معاف کرتا ہے، وہ خود سے غدّاری کا ارتکاب کرتا ہے۔
برلاس ترکوں کا سردار صاحبقراں امیر تیمور گورگانی دائمی عظمت کے خبط میں مبتلا تھا۔ بے شمار بے گناہوں کا خون اس نے بہایا۔ باایں ہمہ ہیرالڈلیم ایسا سوانح نگار اسے تاریخ کا سب سے بڑا فاتح قرار دیتا ہے۔ نظامِ حکمرانی میں کچھ چیزیں اس نے یادگار چھوڑی ہیں۔ دنیا بھر سے وہ ہنر مندوں اور کاریگروں کی ایک بڑی تعداد سمیٹ کر سمرقند لے گیا۔ اس دیار سے جہاں گرد عشق میں مبتلا تھا۔ پھر ان سنگی عمارتوں کا سلسلہ استوار کیا، جمال سے زیادہ جو تاتاری جلال کی مظہر تھیں۔ پہلی عمارت مکمل ہونے کو آئی تو راہ میں پڑنے والا بازار منتقل کرنے کا حکم دیا۔ کہا کہ معاوضوں کی ادائیگی میں فیاضی سے کام لیا جائے۔
تاجروں نے انکار کر دیا۔ خود کو شہنشاہ نہ کہلوانے والے امیر کو اندازہ ہوا کہ فیاضانہ پیشکش کو انہوں نے کمزوری پر محمول کیا ہے۔ فرمان جاری ہوا کہ بازار منہدم کر دیا جائے۔ تاجر راہ پہ آ گئے۔ وہ ریاست کی غالب حاکمیت کا قائل تھا۔ ایک گورنر کو محض اس لیے برطرف کیا کہ ٹیکس وصول کرنے کے لیے ایک تاجر کو اس نے کوڑے لگوائے تھے۔ ''کیا ہماری حکومت کا اتنا سا رعب بھی نہیں‘‘ اس نے سوال کیا تھا ''کہ تاجر لو گ مقررہ رقم آمادگی سے ادا کریں‘‘۔
پاکستانی تاجر منہ زور ہیں۔ اس لیے کہ حکمران کمزور ہیں۔ اگر وہ خود ٹیکس ادا نہ کریں؟ اس سے آگے بڑھ کر اگر وہ خود کاروبار کریں؟ اپنے تاجر اور صنعت کار دوستوں کو پالیں؟ نجکاری کے نام پر سرکاری ادارے کوڑیوں کے مول ان کے حوالے کر دیں؟
گوشوارے جمع کرانے کی صورت میں 0.3 فیصد کٹوتی نہ ہو گی، اس اعلان کے بعد احتجاج ناقابلِ فہم ہے۔ ٹیکس کے بغیر کاروبارِ حکومت چل نہیں سکتا۔ تاجر، صنعت کار، ڈاکٹر، وکیل، انجینئر اور ملازمت پیشہ اگر مزاحمت کریں گے تو اخراجات میں کمی نہیں آئے گی۔ سرکار کرنسی نوٹ چھاپے گی یا قرض لے گی۔ اشیا کی قیمتوں میں جس سے اضافہ ہو گا۔ ملکی معیشت بتدریج کمزور سے کمزور تر ہوتی جائے گی۔
پاکستانی معیشت عجیب ہے۔ نصف ریکارڈ پر ہی نہیں،کالی کمائی۔ وہ کہتے ہیں: ٹیکس کیوں دیں، جب وہ کرپشن کی نذر ہو جاتا ہے۔ ایف بی آر بدعنوان افسروں سے بھرا پڑا ہے۔ بدھ کی شام ایک ٹی وی پروگرام میں اس سوال کا جواب عرض کیا: بلوچستان میں باغی ہتھیار ڈال رہے ہیں۔ کراچی اور وزیرستان میں امن کے لوٹ آ نے کی امید جاگی ہے تو یہ افواجِ پاکستان کے طفیل ہے۔ ٹیکس ہی سے انہیں تنخواہ ملتی ہے۔ پوری آبادی اگر انکار کر دے تو ریاستی ادارے بلکہ خود ریاست ہی کس طرح باقی رہے گی۔ کیا ہماری حالت داعش کی رعایا ایسی نہ ہو جائے گی؟ پاکستان کی قبائلی پٹی کی طرح، خانہ جنگی کی معیشت نے جہاں عجیب و غریب پیشوں کو جنم دیا۔ مثلاً گھروں میں خود کش جیکٹیں بنانے والی عورتیں۔ میران شاہ کے بازار میں یہ جیکٹیں دکانوں پر فروخت کی جاتیں اور ان پر لکھا ہوتا ''تیس افراد کو تباہ کرنے کے لیے کافی ہے‘‘۔
بتدریج ریاست کی اصلاح ایک چیز ہے، بغاوت بالکل دوسری۔ نون لیگ نے تاریخی غلطی کا ارتکاب کیا تھا، جب پیپلز پارٹی کے دور میں سیلز ٹیکس نافذ کرنے کی مزاحمت کی۔ بدقسمتی سے میڈیا نے بھی۔ تب پیشۂ صحافت میں یہ ایک تنہا آواز تھی، جس نے کہا: ٹیکس نہیں، تاجر لوگ دستاویزی معیشت کی مخالفت پر تلے ہیں۔ عہدِ جدید میں غیر دستاویزی معیشت ممکن ہی نہیں۔
گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں
یہاں اب مرے رازداں اور بھی ہیں
خدا کا شکر ہے کہ اب اور لوگ بھی یہ دلیل دہراتے ہیں۔ غلطی کا اعادہ آج تحریکِ انصاف اور پیپلز پارٹی نے کیا ہے۔ میاں محمد نواز شریف اگر یہ کہیں کہ اللہ ایک ہے تو جواب میں کیا ہم تثلیث کا نعرہ بلند کریں؟ لاحول ولاقوۃ الا باللہ۔
پیپلز پارٹی کی بات دوسری ہے۔ گویا اس نے خود کشی کا ارادہ کر لیا ہے۔ منشیات کی طرح بدعنوانی بھی ایک عادت بن جاتی ہے، رفتہ رفتہ فطرتِ ثانیہ۔ پنجابی زبان کے بے مثال شاعر نے کہا تھا۔
وارثؔ شاہ نہ عادتاں جاندیاں نیں بھاویں کٹیے پوریے پوریے نی
مجرم کو ٹکڑے ٹکڑے ہو جانے کا خوف لاحق ہو، تب بھی اس کی فطرت نہیں بدلتی۔ اللہ کے آخری رسولؐ کا فرمان یہ ہے: کوہِ احد اپنی جگہ سے ٹل سکتا ہے مگر عادت نہیں بدلتی۔ تب بدلتی ہے، جب آدمی کے اندر سے آواز اٹھے۔ جب کوئی عالی قدر استاد نصیب ہو یا انکشافِ ذات کا لمحہ۔ عہدِ ہارون کے جلیل القدر صوفی فضیل بن عیاضؒ اوّل اوّل ڈاکو تھے۔ ایک شب ڈاکہ زنی کے ہنگام تلاوت سنی: کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ وہ توبہ کریں۔ وہ پلٹ آئے۔ عبداللہ بن مبارکؒ کو پاکبازوں کا سردار کہا گیا۔ ایک پوری شب وہ ایک حرّافہ کی دہلیز پر کھڑے رہے۔ پھر اذان ہوئی۔ اذان کا وقت مبارک ترین ہوتا ہے کہ وسوسے روک دیے جاتے ہیں۔ روشنی کی کوئی کرن باقی رہ گئی تھی۔ وہ بھڑک اٹھی اور قلب کی سیاہی اس میں تحلیل ہو گئی۔ تبدیلی کی تمنا کتنے ہی دلوں میں جاگتی ہے مگر باقی نہیں رہتی۔ خورشید ؔرضوی نے اس کیفیت کو بیان کیا ہے۔
دیکھ اب بھی روشِ دہر سے وحشت کر جا
اپنے باطن کے چمن زار کو رجعت کر جا
اپنا چلتا ہوا بت چھوڑ زمانے کے لیے
اور خود عرصۂ ایام سے ہجرت کر جا
خواجہ مہر علی شاہؒ نے کہا تھا: خیالِ خیر برق کی طرح چمکتا ہے مگر دل اسے تھام نہیں پاتا۔ تھام لے تو سعادت دائمی ہو سکتی ہے۔ بھتّے پر پلنے اور بھٹو کے بعد زرداری خاندان کی عبادت کرنے والے وزرا سے کیا امید، مستقبل کے لیے اپنی بستی جو دبئی میں بسا رہے ہیں۔ عمران خان کو کیا ہوا؟ کیا انہیں یہ بتایا گیا ہے کہ اس طرح ان کی مقبولیت میں اضافہ ہو گا؟ ایک احمقانہ مفروضہ! ٹیکس نادہندگان کھیت رہیں گے۔ جنرل راحیل شریف تاجروں کے مددگار ہوں گے اور نہ میڈیا۔ تحریکِ انصاف تب کیا کرے گی؟ پنجابی کی ایک ضرب المثل یہ ہے: مال اس کا ہوتا ہے، جو حق دار ہو۔ موقعہ پرست بروکر کو مٹی کے سوا کچھ نہیں ملتا۔
تاجروں کے لیڈر کہتے ہیں: دنیا کے کسی ملک میں روپے کے لین دین پر ٹیکس نہیں۔ جی ہاں مگر دنیا کے کسی ملک میں دستاویزی معیشت سے انکار بھی نہیں۔ ٹیکس گوشوارہ جمع کرائیے۔ سال بھر میں فقط ایک سو روپے ٹیکس بنتا ہے تو وہی دیجیے۔ ایف بی آر والے دھمکائیں تو پشت پناہی کے لیے آپ کی انجمنیں موجود ہیں۔ ٹیکس چوروں کا مددگار ہر صحافی اور لیڈر قوم کا مجرم ہوگا۔ ملازمت پیشہ کا جرم کیا ہے کہ سالانہ ایک کروڑ روپے ٹیکس ادا کرے؟ اس کے برابر کمانے والے تاجر کو استثنیٰ کیوں؟ اس لیے کہ گاہے وہ جعلی مصنوعات بیچتا، زیادہ منافع لیتا اور بجلی چوری کرتا ہے؟
میڈیا کا دبائو دونوں طرف چاہیے۔ حکمران کرپشن سے باز آئیں۔ آئی ایس آئی اور دوسری انٹلی جنس ایجنسیوں کی مدد سے ایک شاندار انٹلی جنس نیٹ ورک بنایا جائے جو ایف بی آر کے لٹیروں اور ٹیکس چوروں کی فہرستیں مرتب کرے۔ اخراجات کے سوا بھی بہت کچھ بچ رہے گا۔ قانون سازی کی جائے کہ وزیرِ اعظم، وزیرِ خزانہ اور جناب آصف علی زرداری سمیت تمام لوگ اپنا سرمایہ واپس لائیں ورنہ سیاست کو خیرباد کہیں۔
کوئی اپنے قاتل پہ مہربان نہیں ہو سکتا۔ افراد ہوں یا اقوام بلیک میلروں سے خوف زدہ ہو کر فروغ نہیں پا سکتے۔ اپنے لٹیروں کو جو معاف کرتا ہے، وہ خود سے غدّاری کا ارتکاب کرتا ہے۔