مولانا شبیر احمد عثمانی نے سچ کہا تھا ''بیسویں صدی کے سب سے بڑے مسلمان‘‘۔ عمر بھر جھوٹ نہ بولا، خیانت کا ارتکاب کیا اور نہ پیماں شکنی کا۔ سچا مسلمان اور کیا ہوتا ہے، ہمہ وقت جو وعظ کرتا رہے؟
عصرِ رواں کے عارف نے دو اصول دیے ہیں۔ تمام تر علمی ریاضت کا ثمر یہ ہونا چاہیے کہ اللہ آدمی کی ترجیحِ اوّل ہو جائے۔ ثانیاً‘ اعتدال: انتہا پسندی، ہیجان اور تعصبات سے اوپر اٹھ کر جذباتی توازن کا حصول۔ اللہ کے آخری رسولؐ نے فرمایا: اعتدال پر رہو۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو اعتدال کے قریب تر۔
محمد علی جناحؒ ان اوصاف کی ایک منفرد مثال تھے۔ توکّل ان میں ایسا تھا کہ جدید تاریخ میں کسی اور سے موازنہ ممکن نہیں۔ موہن داس کرم چند گاندھی کی مقبولیت کا سورج نصف النہار پہ تھا۔ آل انڈیا کانگرس سب کچھ بہا لے گئی تھی؛ حتیٰ کہ جلیل القدر علماء کو بھی۔ اقبالؔ کے سوا قائدِ اعظم واحد شخص تھے، جنہوں نے طوفان کا حصہ بننے سے انکار کر دیا۔
اسداللہ خاں غالبؔ نے اپنی وفات کی پیش گوئی کی‘ مگر جیتے رہے۔ پوچھا گیا تو جواب ملا: امسال وبائے عام میں مرنا، میں نے پسند نہ کیا۔ انسانوں کی اکثریت وبائے عام میں مرتی ہے۔ اپنے عہد کے رجحانات سے کس کو چھٹکارا ہے۔ خاص طور پہ اس وقت جب پورا معاشرہ ہیجان کی گرفت میں ہو۔ قومی تعصبات جس سے وابستہ ہوں۔ وہی آدمی پورے قد سے کھڑا رہ سکتا ہے، خوب سوچ سمجھ کر جس نے ایک رائے قائم کی ہو۔ اپنے موقف کی حقانیت پر جسے پورا یقین ہو۔
قائد اعظمؒ کے زیرِ استعمال ساز و سامان کی حفاظت کرنے والے نگہبان نے قرآنِ کریم کے ان نسخوں کا ذکر کیا، جن سے آپ استفادہ کیا کرتے۔ محکم یقین کے وہ حامل نہ ہوتے، اگر اللہ پر ان کا ایمان پختہ نہ ہوتا۔ اس بلند مقام پر وہ کس طرح فائز ہوئے؟ کیا یہ فقط بچپن کی تربیت کا نتیجہ تھا؟ سندھ مدرسۃ الاسلام کے اساتذہ کا فیض یا اس کے سوا بھی؟ یہ قرآنِ کریم کا اعجاز دکھائی دیتا ہے اور اس کے بعض دوسرے مظاہر بھی ہیں۔ مثلاً خود ترسی کا ان کی ہستی میں نام و نشان تک نہ تھا۔ وہ کبھی غیبت کا ارتکاب نہ کرتے اور کبھی یہ شکایت نہ کرتے کہ ان کے ساتھ کسی نے زیادتی کا ارتکاب کیا، ان کی توہین کا مرتکب ہوا۔ آج کے سیاسی لیڈروں کے برعکس، اپنے بارے میں نہیں، ہمیشہ وہ اپنی قوم کے بارے میں بات کرتے۔
راولپنڈی کے مسلم لیگی لیڈر محمود منٹو نے بیان کیا: علّامہ عنایت اللہ خاں مشرقی نے قائد اعظمؒ کو ملاقات کے لیے مدعو کیا۔ سب جانتے ہیں کہ علامہ خبطِ عظمت کا شکار تھے‘ بلکہ شیزوفرینیا کا۔ قائدِ اعظمؒ کو وہ اپنا حریف سمجھتے تھے۔ ایک خاکسار نے چاقو سے ان پر حملہ کیا تھا۔
راولپنڈی کی ملاقات طے ہوئی تو محمود منٹو علامہ کے ذاتی عملے میں شامل تھے۔ قائدِ اعظمؒ بروقت پہنچے۔ پانچ منٹ، پندرہ منٹ، پچیس منٹ، وقت گزرتا گیا اور بلاوا نہ آیا۔ آدھ گھنٹہ بیت چکا تو قائد اعظمؒ اپنی نشست سے اٹھے اور یہ کہتے ہوئے تشریف لے گئے: "I think, he is busy"۔
بہت دن بعد قائدِ اعظمؒ نے جواں سال منٹو کو دہلی میں نیشنل گارڈز کی وردی میں ملبوس پایا۔ یہ مسلم لیگی محافظوں کا دستہ تھا۔ وہ ان کے پاس آن کھڑے ہوئے اور ارشاد کیا ''مجھے یقین تھا کہ ایک دن تم مسلم لیگ میں شامل ہو جائو گے‘‘۔ منٹو بتایا کرتے کہ قائد اعظمؒ واپس تشریف لے گئے تو علّامہ نے کہا: دیکھو! اس شخص کو میں نے کیسا ذلیل کیا؟ جواں سال رضاکار اس نتیجے پر پہنچا کہ اخلاقی عظمت کا مظاہرہ تو جناح ؒنے کیا۔ وقت کی پابندی، ایک شوکت اور وقار، احتجاج نہ ناراضی۔
ڈسپلن کے معاملے میں قائدِ اعظمؒ سخت گیر تھے۔ ان کے اے ڈی سی عطا ربانی نے بعض واقعات لکھے ہیں۔ نازک ترین مواقع پر قائدِ اعظمؒ کی مخالفت کرنے والے شیرِ بنگال فضل الحق مرکزی دستور ساز اسمبلی کی عمارت میں پہنچے۔ ملاقات کے آرزومند تھے مگر ہمّت نہ پڑی۔ غلام گردش میں کھڑے رہے۔ قائد اعظم باہر نکلے تو فضل الحق اتنا جھکے کہ گویا رکوع میں ہوں۔ نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھا اور ہمیشہ کی طرح استوار قدموں کے ساتھ چلتے ہوئے باہر نکل گئے۔
بیت المقدس میں داخلے کے ہنگام اصحابِ رسولؓ نے سیدنا عمر فاروقِ اعظمؓ سے درخواست کی: لباس تبدیل کر لیجیے۔ فرمایا: لباس زمین کی چیز ہے اور رعب آسمان کی۔ قائدِ اعظمؒ تو خیر خوش لباس بھی بہت تھے اور اس پر ایّامِ آخر میں سیدنا عثمانِ غنی ؓ کا ایک قول یاد آتا ہے ''عمر بھر میں نے اچھا کھایا اور اچھا پہنا۔ بس اب میرا مال تمام ہوا‘‘۔ شخصیت ایسی سحر انگیز تھی کہ مشتاق یوسفی کے بقول سر سے پائوں تک چہرہ ہی چہرہ۔
ایک دوسرا واقعہ بھی عطا ربانی نے لکھا ہے۔ حسین شہید سہروردی قائد اعظم ؒ کے دفتر میں طلب کیے گئے۔ وہ خود ایک دبنگ آدمی تھے مگر ایسے گڑبڑائے کہ شیروانی کے اوپری بٹن بند کیے بغیر ہی کمرے میں داخل ہو گئے۔
ڈانٹ ڈپٹ وہ بالکل نہ کرتے۔ لازم ہوتا تو ضروری سوال کرتے۔ ضائع کرنے کے لیے وقت ان کے پاس تھا ہی نہیں۔ کسی سے الجھنا ان کے مزاج کا حصہ کبھی نہ تھا۔ ریاضت کیش بے حد۔ محترمہ فاطمہ جناح کہتی ہیں کہ کھانے کے لیے وہ انہیں بلانے جاتیں تو ہمیشہ چند منٹ طلب کرتے۔ اکثر دوسری بار بھی۔ کبھی کبھی تو تیسری بار بھی یہ فرماتے: آپ کھانا شروع کیجیے‘ میں ابھی آتا ہوں۔ ڈان کے ایڈیٹر، الطاف حسین نے آخری گول میز کانفرنس کا احوال لکھا ہے کہ آخرِ شب بریفنگ کے لیے وہ بلائے جاتے۔ جب ہندوستان میں سورج ڈوب رہا ہوتا۔ بات کرتے گاہے تکان کا اس قدر غلبہ ہوتا کہ آنکھیں مند جاتیں۔ لیاقت علی خاں نے ایک شب کا ذکر کیا ہے، جب ایک ہنگامی ضرورت سے انہوں نے دستک دی۔ دروازہ کھلا تھا۔ سوٹ اور بوٹ پہنے، صوفے پر دراز قائد گہری نیند سو رہے تھے۔
قائدِ اعظمؒ کے امتیازات میں سے ایک یہ ہے کہ ہمیشہ وہ متوجہ پائے جاتے۔ کبھی کس نے عدم توجہی اور بے نیازی کی شکایت نہ کی۔ مستقل طور پر ایسا شخص ہی حسنِ عمل کا مظاہرہ کر سکتا ہے، اپنی خامیوں پر جس نے قابو پا لیا ہو۔ ایسا لگتا ہے کہ قائدِ اعظمؒ کی زندگی اپنے عصر ہی نہیں، خود اپنے آپ سے بھی جنگ لڑتے ہوئے گزری۔ تعصبات سے وہ بالاتر تھے۔ بی بی سی کے نمائندے نے سوال کیا: کس فرقے سے آپ کا تعلق ہے؟ فرمایا: جس سے نبی اکرمؐ کا تھا۔ جس شب کراچی میں فساد ہوا، ہندو خاندانوں کے لیے فکرمند رہے اور ذاتی طور پر احکامات دیے۔ آرزو تھی کہ یہ لوگ پاکستان چھوڑ کر نہ جائیں۔ زندگی بھر کسی شخص کی اس بنا پر حمایت یا مخالفت نہ کی کہ اس کا تعلق فلاں نسل، فرقے، مذہب یا ملک کے ساتھ ہے؛ اگرچہ ایک بار پنجاب کے انگریز گورنر سے کہا تھا "Yes, I am a prejudiced musliman"۔ اس وقت جب اس نے تعصب کا طعنہ دیا۔ مراد یہ تھی کہ میں اپنی قوم کے بارے میں بہت حسّاس ہوں۔ سرکارؐ کا فرمان یہی ہے: اپنی قوم کی مدد کرو، مگر ظلم میں نہیں۔ فصیح بہت تھے۔ دیکھیے "Musliman" کا لفظ یہاں کیا تیور رکھتا ہے۔
سیکولر اور ملّا ان کا تاثر مسخ کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ پاپائیت کے وہ خلاف تھے اور ''سیکولر‘‘ کا لفظ ایک بار بھی ان کی زبان سے نہ نکلا، جب کہ ایک زمانہ اس کی گردان کیا کرتا۔
مولانا شبیر احمد عثمانی نے سچ کہا تھا ''بیسویں صدی کے سب سے بڑے مسلمان‘‘۔ عمر بھرجھوٹ نہ بولا، خیانت کا ارتکاب کیا اور نہ پیماں شکنی کا۔ سچا مسلمان اور کیا ہوتا ہے، ہمہ وقت جو وعظ کرتا رہے؟