فوج اب پلٹ نہیں سکتی۔ تاریخ کا پہیہ الٹا گھوم نہیں سکتا۔ مجرموں کو اب حساب دینا ہے۔ زور آزمائی کا عہد تمام ہوا‘ یہ حقائق کے ادراک کا لمحہ ہے۔ نصف النہار پر آیا ہوا سورج بھی کسی کو جگا نہ سکے تو اس کے لیے پھر کوئی سویر نہیں ہوتی۔
ربع صدی کے بعد بالآخر کراچی کی تاریخ ایک نیا موڑ مڑ گئی۔ ایم کیو ایم کی ویب سائٹ کے سوا ہڑتال کی ناکامی کل کائنات پہ روشن ہے۔ بند ہونے والی چند دکانوں کی ایک تصویر انہوں نے حاصل کر لی اور یہ ''کامیابی‘‘ کی واحد نشانی ہے۔ یہ بھی معلوم نہیں کہ تصویر تازہ ہے یا پرانی۔ دن بھر سوشل میڈیا رونق سے بھرے بازاروں کے ذکر سے گونجتا رہا۔ کراچی کے شہریوں‘ رینجرز کی قیادت اور ملک بھر کے امن پسند لوگوں کے لیے یہ ایک یومِ مسرت ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک جملے کی بازگشت ہے: رینجرز والوں کو اتنی دعائیں ان کی مائوں نے نہیں دی ہوں گی‘ جتنی شہر کے لوگوں نے۔ خوں ریزی‘ بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان کا باب ختم ہوا۔
اسی رفتار سے آپریشن اگر جاری رہا تو امید کی جا سکتی ہے کہ آئندہ سال کے اختتام پر روشنیوں کا شہر ایک بار پھر زندگی کے اس وفور سے جگمگا اٹھے گا‘ جو کبھی اس کی پہچان تھا۔ بہت عرصے کے بعد اطلاعات کے وفاقی وزیر پرویز رشید نے ڈھنگ کی ایک بات کہی ہے: خوف زدہ ہو کر‘ اپنا سرمایہ دبئی منتقل کرنے والے تاجر اور صنعت کار لوٹ رہے ہیں۔
ملک کا مشکل وقت تمام ہونے کو ہے۔ ابھی کل کی بات ہے کہ حلقہ این اے 246 میں ایم کیو ایم نے اپنے حریفوں کو شہ مات دی تھی۔ عام تاثر یہ تھا کہ شکایات کے باوجود اس تنظیم کی مقبولت باقی ہے۔ ہفتہ کے دن صورتِ حال مگر یہ تھی کہ 90 کے علاقے عزیز آباد میں بھی دکانیں کھلی رہیں۔ شہر کی تمام بڑی شاہراہوں پر ٹریفک رواں دواں رہی۔
دو ہزار برس ہوتے ہیں‘ جب چینی مفکر کنفیوشس نے کہا تھا: Only the change is permanent‘ صرف تغیر ہی ایک مستقل چیز ہے۔ تاریخ اور دینیات کے بہت سے طالب علم یہ رائے رکھتے ہیں کہ ایران کے زرتشت کی طرح کنفیوشس بھی شاید ایک پیغمر تھا۔ دلیل ان کی یہ ہے قدرت کے دائمی قوانین کا ایسا بلیغ اظہار وہی لوگ کر سکتے ہیں‘ آسمانی ہدایت کے دروازے جن پر کھلے ہوں۔
افراد اور جماعتیں نہیں‘ سیاست میں صورتِ حال ہی سب سے اہم ہوتی ہے۔ بہترین حکمت کار وہ ہوتے ہیں‘ جو صحیح ترین اندازہ قائم کرنے کے بعد ایک لائحۂ عمل طے کر سکیں۔ آئن سٹائن کا قول ہزار بار دہرانے کے قابل ہے: دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ وہ ذات قدیم کیا چاہتی ہے‘ باقی سب تفصیل ہوتی ہے۔ ایم کیو ایم کی قیادت نے صورتِ حال کو سمجھنے میں المناک غلطیوں کا ارتکاب کیا۔ اس کی سب سے بڑی قوت ہی اس کی کمزوری بن گئی ہے۔ تئیس برس سے الطاف حسین لندن میں مقیم ہیں‘ جب وہ اپنی زندگی کو خطرے میں پا کر فرار ہو گئے تھے۔ اپنے قائدین کو یہ ذمہ داری انہوں نے سونپی تھی کہ وہ اس فرار کا جواز پیش کرتے اور یہ کہتے رہیں کہ دراصل پارٹی کی فرمائش پر وہ سمندر پار مقیم ہیں۔ اس جنرل کے بارے میں کیا کہا جائے‘ جو اپنی فوج کو خطرے میں چھوڑ کر بھاگ جائے؟
الطاف حسین کا المیہ یہ ہے کہ اختلاف وہ گوارا نہیں کرتے۔ پیہم کامیابیوں نے انہیں حد سے زیادہ پُراعتماد کر دیا ہے۔ ان کے ساتھیوں کی مجال نہیں کہ ان کے پیش کردہ تصورات سے ذرا سا مختلف مؤقف بھی اختیار کر سکیں۔ سب سے بڑی غلطی ان کی یہ تھی کہ حُبِّ وطن کی طاقت کا وہ اندازہ نہ کر سکے۔ ایم کیو ایم کے زوال کا عمل اس دن شروع ہو گیا تھا‘ جب دہلی میں کھڑے ہو کر انہوں نے کہا تھا: پاکستان کا قیام انسانی تاریخ کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ یہ جملہ کسی اور نے کہا ہوتا تو اسی وقت ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوتا مگر میڈیا پر ان کا کنٹرول تھا۔ کسی کی مجال نہ تھی کہ فریاد کرے۔ یہی طاقت اب ان کی سب سے بڑی کمزوری بن گئی ہے۔ جوں ہی میڈیا ان کے چنگل سے آزاد ہوا۔ جوں ہی احتجاج کی آزادی میسر آئی‘ پرانے زخم بھی جاگ اٹھے۔ پرانے قرض ادا کرنے کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔
اس کے باوجود اپنی قوت اور دوسروں کی کمزوریوں کے بارے میں غلط اندازہ قائم کرنے والے اور طاقت کے خمار میں سرمست الطاف حسین نے پے در پے مزید غلطیوں کا ارتکاب شروع کیا۔ کبھی اپنے کارکنوں سے کہا کہ ہر روز کلفٹن میں‘ ایک گھنٹہ وہ فائرنگ کی مشق کیا کریں۔ کبھی بھارت‘ نیٹو اور اقوام متحدہ سے امداد طلب کی۔ کبھی یہ ارشاد کیا کہ مقابلے کا وقت آیا تو جنرلوں کو پتہ چلے گا کہ ظالم طاقتور ہیں یا مظلوم۔ اردو بولنے والوں کی ایک قابل ذکر تعداد اب بھی الطاف حسین کی حامی ہے۔ حقوق طلبی مگر ایک چیز ہے اور ملک کی مذمت و مخالفت بالکل دوسری۔
وہ دن بہت دور رہ گئے‘ 1992ء کے آپریشن میں جب وزیر اعظم عسکری قیادت سے ہم آہنگ نہ تھے‘ جب 1995ء میں دہشت گردوں کے مقابل ڈٹ کر کھڑے نصیراللہ بابر کو اپوزیشن پارٹیوں کی تائید حاصل نہ تھی۔ یہ 1997ء بھی نہیں‘ جب میاں محمد نواز شریف نے ایم کیو ایم کے پانچ سو دہشت گردوں کو جیلوں سے رہا کر دیا تھا اور مرنے والے 150 افراد کے خاندانوں کو ''تاوانِ جنگ‘‘ ادا کیا تھا۔ وہ دن ہوا ہوئے کہ پسینہ گلاب تھا۔ الیکشن 2008ء کے بعد جب آصف علی زرداری سر کے بل ایم کیو ایم کے صدر دفتر میں حاضر ہوئے تھے۔ وہ جو بیچتے تھے دوائے دل‘ وہ دکان اپنی بڑھا گئے۔
2008ء سے 2013ء تک معاملات آصف علی زرداری کے ہاتھ میں تھے۔ پاکستان ان کا وطن ہے مگر نہیں ہے۔ وہ اے این پی کے پرانے کارکن ہیں اور ملک کے بارے میں ایک تماشائی کی طرح بات کرتے تھے۔ ان کی دولت کا بڑا حصہ بیرون ملک پڑا ہے۔ کراچی سے زیادہ‘ جہاں وہ پیدا ہوئے تھے‘ ان کا دل لندن اور دبئی میں لگتا ہے۔ پاکستان ان کے لیے ایک چراگاہ ہے‘ جہاں سے وہ دولت بٹور سکتے ہیں۔ اس کے سادہ لوح عوام کو فریب دے سکتے ہیں۔ اس کے عوام کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اس ملک کے مستقبل سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں۔
ان کی حکمت عملی یہ تھی کہ نہ صرف خود روپیہ بنائو بلکہ دوسروں کو بھی لوٹ مار میں شریک کرو۔ اگر ایم کیو ایم ریاست کو بے معنی بنانے والی طاقت آزمائی پر تلی تھی تو انہوں نے لیاری کی مافیاز کے سر پہ ہاتھ رکھا۔ سندھ میں ان کے وزیر داخلہ نے اعلان کیا کہ اسلحہ کے دو لاکھ لائسنس اس نے جاری کیے ہیں اور یہ شادیوں پر ہوائی فائرنگ کے لیے نہیں۔ کراچی پولیس‘ بلدیاتی اداروں اور واٹر بورڈ میں بھرتی کا عمل زر اندوزی کے لیے ہوا۔ بانٹ کر وہ کھاتے رہے تاآنکہ یومِ حساب آ پہنچا۔
وزیر اعظم نواز شریف بجا طور پہ پوچھتے ہیں کہ آصف علی زرداری ان کے باب میں شکوہ سنج کیوں ہیں۔ جہاں تک امن و امان اور دہشت گردی کا تعلق ہے‘ پالیسیوں کی تشکیل عسکری قیادت کے ہاتھ میں ہے۔ جنرل اور جج خدانخواستہ بدعنوان بھی ہوں تو وہ اپنی عزت کے لیے جیتے ہیں۔ دنیا کی کوئی فوج اپنی طاقت کم ہونے نہیں دیتی۔ یہ اس کی جبلت کے خلاف ہے۔ پھر یہ کہ مدتوں سے اس کی قیادت اجلے ہاتھوں میں ہے۔ لوٹ مار اور دہشت گردی کی اجازت اب وہ نہیں دے سکتی کہ اس کھیل میں بھارت حد سے زیادہ ملوث ہو گیا۔ اس قدر کہ پاکستان کی سلامتی خطرے میں جا پڑی۔
فوج اب پلٹ نہیں سکتی۔ تاریخ کا پہیہ الٹا گھوم نہیں سکتا۔ مجرموں کو اب حساب دینا ہے۔ زور آزمائی کا عہد تمام ہوا‘ یہ حقائق کے ادراک کا لمحہ ہے۔ نصف النہار پر آیا ہوا سورج بھی کسی کو جگا نہ سکے تو اس کے لیے پھر کوئی سویر نہیں ہوتی۔