ہر قوم کو اپنی بقا کی جنگ خود لڑنا ہوتا ہے اوریہ قومی اتحاد ہی سے ممکن ہوتا ہے۔ عہد جدید میں یہ افواج نہیں‘ اقوام ہیں جو طوفانوں کا رُخ پھیر سکتی ہیں۔ وزیراعظم اپنی قوم کو اعتماد میں لیں۔
دورۂ امریکہ شروع ہونے سے پہلے ہی سبوتاژ ہو چکا۔ ایسا ماحول امریکیوں نے پیدا کردیا ہے کہ مذاکرات سے کچھ حاصل ہی نہیں۔ اس طرح کے احمقانہ بیانات کہ فلاں چیز نہیں دیں گے اور فقط فلاں موضوع پر بات کریں گے۔ پاکستانی میڈیا ادراک کر سکا اور نہ وزارت خارجہ۔ میڈیا کی ترجیح ریٹنگ ہے۔ وزارت خارجہ کو مطلوبہ قومی تائید اور پشت پناہی میسر نہیں۔ کراچی‘ بلوچستان اور قبائلی پٹی میں شاندار کامیابیاں اپنی جگہ۔ عالمی منظر پر پاکستان ایک بارہ سنگھا ہے‘ جس کے سینگ جھاڑیوں میں الجھے ہیں۔
ملک کو مشاہد حسین ایسے ایک تردماغ وزیر خارجہ کی ضرورت ہے۔ سرتاج عزیز جہاندیدہ ہیں مگر ان میں اب توانائی نہیں‘ 90 سالہ آدمی کا حافظہ گاہے اس کی مددنہیں کرتا۔ طارق فاطمی ذہین آدمی ہیں مگروہ نوکری پیشہ ہیں‘ بلند پرواز نہیں‘ پھر وزارت خارجہ کے دو بڑوں کی توانائی جب ایک دوسرے کے خلاف صرف ہوتی رہے تو یکسوئی کیسے میسر آئے؟
خطے میں امریکیوں کی ترجیح بھارت ہے۔ شواہد سے اب آشکار ہے کہ بھارتیوں نے دو تین ماہ پہلے ہی وزیراعظم پاکستان کے دورے کو ناکام بنانے کی تگ و دو شروع کر دی تھی۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ہنگام ملیحہ لودھی نے چیخ کر کہا تھا: ایک طرف تو پاکستان سے مطالبہ ہے کہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لائے‘ دوسری طرف ان پر یلغار کا تقاضا۔
اشرف غنی کی حکومت پاکستان کے قریب آئی تو بھارتی مہم کا آغاز ہوا۔ دونوںملکوں نے ایک دوسرے سے کچھ زیادہ امیدیں وابستہ کرلیں۔ اشرف غنی کوپورا اقتدار حاصل نہیں‘ افغان حکومت میں آہنگ کا فقدان ہے۔ افغان فوج ابھی قومی فوج نہیں بنی اور امریکی واپسی سے طالبان کے حوصلے بلند ہیں۔
اس کے باوجود پاکستان نے مری مذاکرات کا معجزہ کر دکھایا‘ تو صورت حال بدل گئی‘ امریکہ اور چین کی جس کو آشیرباد حاصل تھی۔ بھارت پریشان تھا۔ ملا عمر کے مرنے کی خبر آئی تو افغانستان میں بھارت نواز عناصر متحرک ہوگئے۔ سال گزشتہ راحیل شریف نے کابل کا دورہ کیا۔ آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل رضوان باقاعدہ طور پر اپنا منصب سنبھالنے سے پہلے ہی کابل گئے۔ دونوں ملکوں کی خفیہ ایجنسیوں میں تعاون کا معاہدہ ہوا۔ صدر ممنون حسین بھی کابل گئے اور فوراً بعد اشرف غنی اسلام آباد آئے۔ امیدوں کا موسم بہار تھا اور خوابوں کے تاج محل تعمیر کیے جا رہے تھے۔ کابل میں سرکاری افسروں کا جو گروپ صدر ممنون حسین کی میزبانی پہ مامور تھا‘ عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی کے باہمی سمجھوتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان میں سے ایک نے صدر ممنون حسین کے کان میں کہا: سانجھے کا یہ کاروبار چلنے والا نہیں۔ ہمارے شہ دماغوں نے توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہ کی۔
سرکاری تقریبات سے گریز ہے‘ لیکن صدر اشرف غنی کے عشائیے میں ناچیز شریک تھا۔ پاکستان میں امریکی سفیر اسی میز پر موجود تھے‘ جس پر اخبار نویس کو جگہ ملی۔ رعونت کے ساتھ چھت گھورتے رہے یا سرپرستانہ انداز میں ایک سیاستدان کو جوابات عنایت کرتے رہے۔ اتنے میں جنرل راحیل شریف میری طرف آئے اور کہا ‘آپ سے ملاقات ہونی چاہیے۔ عرض کیا: جی ہاں آپ کے دورۂ امریکہ کے بعد۔ امید ہے آپ نے بھرپور تیاری کی ہو گی۔ انہوں نے اثبات میں سر ہلایا اور یہ کہا: خطے کی پوری صورت حال ہی بدلنے والی ہے۔ کیا انہوں نے اپنی توقعات کچھ زیادہ نہ بڑھا لی تھیں؟ ملاقات ہوتی تو ایک کارڈ کی نشان دہی ضرور کرتا جو شاید ملک کے کام آ سکتا۔ میں افغان امور کا ماہر نہیں لیکن بعض افغان لیڈروں سے میرے مراسم 35 سال پرانے ہیں۔ صدر اشرف غنی کو ان کے تعاون کی ضرورت تھی۔ ان سے رابطہ کیا۔ وہ تعاون پر آمادہ تھے مگر آغاز ہی نہ ہو سکا۔ خورشید قصوری وزیرخارجہ تھے تو مجھ ایسے چند اخبار نویسوں کو دوپہر کے کھانے پر تفصیل سے بریفنگ دیا کرتے۔ سرتاج عزیز اور طارق فاطمی تو ہم ایسوں کے سائے سے ڈرتے ہیں۔
بہت سے لوگ ہیں‘ جو خطے کی صورت حال کو مجھ سہل کوش سے زیادہ سمجھتے ہیں۔ بہت بہتر مشورے وہ دے سکتے ہیں۔ اصلاً فوج کا نہیں یہ منتخب حکومت کا کام ہے۔ وزیراعظم کی اس بچگانہ ضد کو مگر کیا کہیے کہ وزیرخارجہ مقرر کرنے پر وہ آمادہ نہیں۔ ملک سے زیادہ انہیں اپنے کاروبار اور خاندان سے دلچسپی ہے۔ ایک حکمران کی کمزوریاں ملک کا مسئلہ بن جاتی ہیں۔ خاتون اول مشعل اوباما نے جب محترمہ مریم نواز کو مدعو کیا تو وزیراعظم کو فوراً ہی انکار کر دینا چاہیے تھا۔ تعلیم ان کا میدان ہی نہیں۔ والد گرامی کی شدید خواہش کے باوجود ایم بی بی ایس کی تعلیم وہ جاری نہ رکھ سکی تھیں۔
کہا جاتا ہے کہ نیویارک کے گزشتہ دورے میں وزیرخارجہ جان کیری نے انہیں ''مسٹر‘‘پرائم منسٹر کی بجائے مسٹر نواز کہہ کر مخاطب کیا۔ یہی نہیں بلکہ میز پر مکّا مار کر ان سے بات کی۔ اگر یہ درست ہے تو وزیراعظم کو دورے کی دعوت خوش اسلوبی سے ٹال دینی چاہیے تھی۔ سفارتی جنگ میں یہی حربے کام آتے ہیں۔ توہین سہہ لی جائے تو دوسرا دلیر ہو جاتا ہے۔ جنرل محمد ضیاء الحق سے امریکی نمائندے نے جب یہ کہا کہ وہ انہیں ایٹمی پروگرام جاری رکھنے کی اجازت نہیں دیں گے تو وہ کرسی سے اٹھے اور یہ کہا: پھر بات کرنے کی ضرورت کیا ہے؟ محترمہ بے نظیر بھٹو‘ شہریارخان‘ جنرل اسلم بیگ اور جنرل حمید گل کی موجودگی میں امریکی صدر کے نمائندے بارتھو لومیو نے ایٹمی پروگرام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے صدر غلام اسحاق سے کہا: آپ کے عقبی تالاب میں ایک بطخ ہے‘ اس کی آواز بطخ کی سی ہے اور بطخ کی طرح وہ تیرتی ہے‘ مگر آپ یہ کہتے ہیں کہ وہ بطخ نہیں ہے۔ صدر نے جواب دیا: جی ہاں بطخ کی آواز نکالتی اور بطخ کی طرح تیرتی ہے مگر جب میں یہ کہتا ہوں کہ وہ بطخ نہیں‘ تو ہرگز وہ بطخ نہیں۔ کہا: پاکستان نے اگر ایٹمی پروگرام پر مفاہمت کرلی تو وہ سکم اور بھوٹان ہو جائے گا۔ بچ نکلا تو مستقبل جگمگا سکتا ہے۔ سلالہ کی چوکی پر امریکی حملے کے بعد سات ماہ تک سپلائی بند رکھی گئی تو کوئی قیامت نہ ٹوٹ پڑی تھی۔
لشکر طیبہ اور حقانی گروپ کا تو محض بہانہ ہے۔ راہداری سے امریکیوں کو تکلیف پہنچی ہے۔ اس سے بھی زیادہ استعماری گھمنڈ کے ساتھ صدر اوباما کا خیال یہ ہے کہ اگر ایٹمی پروگرام محدود کر سکیں تو یہ ایک عظیم کامیابی ہوگی۔ پاکستان کو صاف صاف انہیں بتانا ہوگا کہ اس موضوع پر بات نہیں ہو سکتی۔ بالکل ویسی مزاحمت کا مظاہرہ میاں صاحب کو کرنا ہوگا‘ جیسا ایٹمی دھماکوں کے ہنگام انہوں نے کیا تھا۔ ورنہ جیسا کہ مجید نظامی مرحوم نے کہا تھا؛ خود ان کا دھماکہ ہو جائے گا۔
بعض کا مشورہ یہ ہے کہ دورہ ملتوی کر دیا جائے۔ اس مرحلے پر یہ موزوں حکمت عملی نہ ہوگی؛ تاہم مختصر ضرور کر دینا چاہیے۔ نہایت سلیقہ مندی کے ساتھ صدر اوباما سے علیحدگی میں ملاقات سے انہیں گریز کرنا چاہیے۔ سرتاج عزیز‘ طارق فاطمی‘ چوہدری نثار اور خواجہ آصف کی موجودگی میں ملاقات کرنی چاہیے۔
ہر قوم کو اپنی بقا کی جنگ خود لڑنا ہوتا ہے اوریہ قومی اتحاد ہی سے ممکن ہوتا ہے۔ عہد جدید میں یہ افواج نہیں‘ اقوام ہیں جو طوفانوں کا رُخ پھیر سکتی ہیں۔ وزیراعظم اپنی قوم کو اعتماد میں لیں۔