ہر بحران میں مواقع چھپے ہوتے ہیں اور یہ انہی بحرانوںمیں سے ایک ہے ۔
اسلام آباد کے اس سائنسدان نے ، جو کسی نیم خواندہ مولوی کی طرح ہمیشہ فتویٰ جاری کرنے پر تلا رہتاہے ، اخبار کے نام ایک مراسلے میںلکھا ہے کہ قرآنی آیات کے ورد سے انسانی صحت پر کوئی اثر مرتب نہیں ہو سکتا۔ یہ وہی امریکہ نواز ہے ، کئی دن تک ٹیلی ویژن پر جو دہائی دیتا رہا کہ بلیک واٹر نام کے کسی ادارے کا کوئی وجود نہیں ؛تاآنکہ پورے ملک میں اس کے شواہد اجاگر ہو گئے ۔ پریشان ہو کر وہ گوشہ نشین ہو گیا۔
''کیا فقط تسبیح سے زندگی سنور سکتی ہے ؟ ‘‘ سات برس ہوتے ہیں ، عارف سے میں نے سوال کیا ۔ ''بلکہ توجہات سے ‘‘ انہوں نے کہا۔ عجیب بات یہ ہے کہ ضروری کاموں کی انجام دہی کے ساتھ سارا دن وہ اوراد و وظائف میں مگن رہتے ہیں ۔ روتا بلکتا کوئی مریض آتا ہے تو وہ اسے دعا تعلیم کرتے ہیں مگر کسی معالج کا پتہ بھی بتاتے ہیں ۔ تلقین کرتے ہیں کہ عطائیوں سے دور رہنا چاہیے اور جہاں تک ممکن ہو ، معالجہ بہترین ڈاکٹر سے کرانا چاہیے ۔
دعا اور جدوجہد میں کوئی تضاد نہیں ۔ دعا ایک تمنا ہے ، جو ایک سچے دل سے اٹھے تو خود آگہی کی طرف لے جاتی اور اپنے آپ سے برسرِ جنگ ہونے کی آرزو جنم دیتی ہے ۔خود میں آہنگ پیدا کرنے اور ترجیحات کو اعلیٰ ترین ادراک کے ساتھ از سرِ نو مرتب کرنے کی ۔ ابراہام لنکن نے کہاتھا : میں یہ نہیں سوچتا کہ خدا میرے ساتھ ہے یا نہیں بلکہ میں اس کے ساتھ رہنے کی تمنا پالتا ہوں ۔ دعا اخلاقی اقدار سے وابستہ ہونے کی فکر مندی ہے ۔ اپنی خامیوں کے احساس کا آغاز۔ تگ و تاز سے وہ روک نہیں دیتی ؛الّا یہ کہ آدمی کا فہم ناقص اور ہمت ٹوٹ چکی ہو ۔ زندگی کا ارتقا شعور کے ساتھ وابستہ ہے ۔ جو اقوام اور افراد علم کے دروازے خود پر بند کر لیتے ہیں ، حیات کی بہترین نعمتوں کا در ان پر کبھی نہیں کھلتا۔
اب ہمارے سامنے زلزلے سے اجڑی ہوئی کچھ بستیاں اور خاندان ہیں اور سوال یہ ہے کہ ان کے زخم کیونکر مندمل ہو سکتے ہیں۔ سرکار ختم المرسلینؐ کے بہترین اوصاف میں سے ایک یہ ہے کہ مشکل مسائل کے وہ ہمیشہ آسان حل بتایا کرتے ۔
لٹے پٹے مہاجرین مکہ مکرمہ سے مدینہ پہنچے تو آپؐ نے انصار اور مہاجرین کو جمع کیا ۔ ان میں سے ہر ایک کو دوسرے کا بھائی بنادیا۔ تاریخ نے اس واقعے کو ''مواخات ‘‘ کے نام سے یاد رکھاہے۔
ڈاکٹر امجد ثاقب سے میں نے پوچھا ''اخوت ‘‘ کا خیال ان کے ذہن میں کہاں سے پھوٹا۔ کہا : مواخات سے اور پھر عالی جنابؐ کا ایک قول دہرایا‘ خیرات کی دس نیکیاں ہیں اور قرضِ حسنہ کی اٹھارہ۔ ایک خوددار بیوہ عورت کے لیے دس ہزار روپے سے ایثار کا آغاز کرنے والی یہ تنظیم اب تک آٹھ لاکھ افراد کو غیر سودی قرضے جاری کر چکی ۔ یہ جنرل پرویز مشرف کے پورے دور میں پیدا ہونے والی سرکاری اور نیم سرکاری ملازمتوں سے زیادہ ہے ، جب شرحِ نمو سات تھی ۔ 2009ء کے سیلاب زدگان کی امداد کے لیے انہوں نے ایک جامع منصوبہ تشکیل دیا۔ اسی طرح تھر میں قحط کے ماروں کے لیے ۔ پاکستان میں نینو ٹیکنالوجی اب تک ایک اجنبی سائنس ہے مگر ڈاکٹر صاحب نے فیصل آباد میں ایک انسٹی ٹیوٹ کا آغاز کر دیاہے ۔ طلبہ سے برائے نام فیس بھی نہیں لی جائے گی ۔ اپنا قرض وہ مستقبل میں ادا کریں گے ، جب وہ اپنے قدموں پر کھڑے ہو جائیں گے ۔
امیر جماعتِ اسلامی سراج الحق نے اپنی پارٹی کی طرف سے دو کروڑ روپے کے عطیے کا اعلان کیاہے ۔ بلاول بھٹو نے کہاکہ مصیبت زدگان کے لیے اپنی پوری توانائی وہ استعمال کریں گے ۔ یہ ان کے لیے تلافی کا لمحہ ہے ۔ اس ملک کے وسائل سے بہت فیض ان کے خاندان اورلیڈروں نے پایا ہے ۔ اب انہیں لوٹانا چاہیے۔ سراج الحق کی طرح انہیں ایک ہدف کا اعلان کرنا چاہیے ۔ سب سے پہلے خود عطیہ دینا چاہیے اور پھر اپنی پارٹی کے رہنمائوں اور کارکنوں کو آمادہ کرنا چاہیے ۔ مثال سے پیروکار حرکت میں آتے ہیں ۔ زیادہ نہیں تو بیس تیس کروڑ ہی سہی ۔ ایک نگران کمیٹی ، جس میں قابلِ قبول لوگ شامل ہوں اور کارکنوں کی ٹیمیں ۔
سیاسی پارٹیاں یوں تو بہت گرجتی برستی ہیں ‘ قوم پر افتاد آپڑے تو سو جاتی ہیں ۔ عمران خان نے اچھا کیا کہ فیصل آباد کا جلسہ منسوخ کر کے پشاور پہنچے ۔ میاں محمد نواز شریف نے اچھاکیا کہ غیر ملکی دورہ مختصر کرکے واپس آئے۔ پرویز خٹک کو ساتھ لے کر مصیبت زدوں کے پاس گئے ۔ اعلان کیا کہ صوبائی حکومت کے ساتھ مل کر وہ کام کریں گے ۔ میاں شہباز شریف نے پختون خوا حکومت کو پیشکش کی کہ ان کی فرمائش پر ہر چیز مہیا کر دی جائے گی ۔ اس بار بھی بے توجہی کی شکایت اور فریاد سنائی دی ہے مگر 2005ء کے مقابلے میں فوج زیادہ سرعت سے بروئے کار آئی اور سول ادارے بھی ۔ نون لیگ مگر ایک جماعت کی حیثیت سے کیوں سرگرم نہیں ہوتی ؟ الیکشن کے لیے پارٹی کو فنڈ ز درکار ہوں تو اربوں روپے جمع ہو جاتے ہیں ۔ اب کیوں نہیں ؟ لاکھوں کارکن انتخابی سرگرمیوں میں بھاگ دوڑ کرتے ہیں ۔ امتحان کی اس گھڑی میں چند ہزار بھی کیوں سامنے نہیں آسکتے ؟
سیاسی پارٹیوں میں سے جماعتِ اسلامی کا کردار ایسے مواقع پر ہمیشہ مثالی رہا ۔ اکتوبر 2005ء میں نہ صرف ان کے ہزاروں کارکن میدان میں اترے بلکہ بعد ازاں یتیم بچوں کے لیے انہوں نے کئی ادارے قائم کیے ۔ رمضان المبارک کی ایک شام راولا کوٹ میں ایسے ہی ادارے میں بتانے کا ارادہ تھا مگر افسوس کہ بروقت اور موزوں رابطہ نہ ہونے کے باعث یہ مبارک کام ملتوی ہو گیا۔
پیپلز پارٹی کے سابق رہنما زمرّد خاں نے ایسے ہی بے نوابچوں کے لیے کئی مراکز تشکیل دیے ہیں ۔ وہ بہاد رآدمی ، جس نے تماشا دیکھتی اسلام آباد پولیس کی صفوںمیں سے گزر کر کلاشنکوف لہراتے غنڈے کو جا پکڑا تھا۔ ان اداروں کے بارے میں سنائی دینے والی کہانیاں ولولہ انگیز ہیں ۔ ایک تقریب میں خان سے ملاقات ہوئی ۔ میں نے چھوٹا سا عطیہ دینا چاہا تو وہ ہنسا اور اس نے کہا : یوں نہیں، آپ کو وہاں آنا ہوگا۔ کم از کم ایک بچے کی ذمہ داری قبول کرنا ہوگی ۔ ایک برق سی ذہن میں لہرائی : یہ تو وہی مواخات ہے ۔ اس آدمی نے ایک بہت بڑا سپنا دیکھا ہے ۔ چند سو یا چند ہزار بچوں کی دیکھ بھال ہی نہیں ، وہ تو روتی بسورتی زندگی کے تیور بدلنا چاہتا ہے ۔ ایک درخشاں خواب کے ساتھ جینے کی تمنا ۔ آدمی کیا سے کیا ہو جاتاہے ۔ زمرد خان کتنا بدل گیا۔ کامران ہو گیا۔ سیاست کا اب وہ نام بھی نہیں لیتا۔ کبھی کبھی میں اسے عارف کے ہاں دیکھتا ہوں ۔
میں نے نہیں دیکھا کہ محتاجوں اور مظلوموں کی خدمت کا جذبہ لے کر کوئی اٹھے اور ناکام رہے ۔ 10اکتوبر 2005ء کی شام عمران خان نے مجھ سے کہا : شوکت خانم ہے ، پارٹی ہے ، دوسرے ادارے ہیں ۔ زلزلہ زدگان کے لیے کون ہمیں عطیات دے گا‘لیکن پھر وہ اٹھ کھڑا ہوا اور دس ہزار عارضی گھر بے گھروں کے لیے تعمیر کر ڈالے۔ پختون خوا حکومت نہ کرسکی ، جس کی قیادت مولانا فضل الرحمٰن اور اکرم درّانی کے ہاتھ میں تھی۔ قال اللہ اور قال الرسولؐ ایک چیز ہے اور رحمتہ للعالمینؐ کی پیروی دوسری بات۔
مستقل طور پر زلزلوں کا خطرہ ہے ۔ یہ سوال اہم ہے کہ کنکریٹ کی بجائے ہلکاسازو سازمان مکانوں کی تعمیر میں استعمال ہونا چاہئے ۔ سرکاری اداروں اور اہلکاروں کی کارکردگی بہتر بنانے کی ضرورت بھی یقینا ہے ۔ ایک چیز مگر ان سب سے زیادہ اہم ہے ۔ ایک قوم کی تعمیر کا خواب۔ معاشروں میں آہنگ تب جنم لیتاہے ، باہمی انس اور الفت تب جنم لیتے ہیں ، مصیبت کی گھڑی میں لوگ جب ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہوجائیں ۔ کسی طرح اگر یہ ممکن ہو کہ سمندر پار پاکستانی اور ملک کے آسودہ حال خاندان ایک ایک گھرانے کی ذمہ داری قبول کر لیں تو پاکستانی قوم کی تشکیل کا عمل تیز ہو جائے گا۔
حکومت شاید یہ نہیں کر سکتی مگر ڈاکٹر امجد ثاقب کر سکتے ہیں ۔ زمرّد خان کر سکتے ہیں ،جماعتِ اسلامی کر سکتی ہے اور شاید عمران خان بھی اگر کچھ دن کے لیے اقتدار ان کی اولین ترجیح نہ رہے ۔ ہر بحران میں مواقع چھپے ہوتے ہیں اور یہ انہی بحرانوںمیں سے ایک ہے ۔