"HRC" (space) message & send to 7575

وزیرِ اعظم کس بات پر اترا رہے ہیں؟

پھانسیوں پر پنجاب اسمبلی آج رو رہی ہے، کل ممکن ہے کہ پختون خوا بھی روئے مگر اس بعد از مرگ واویلے سے کیا حاصل؟ کم از کم جماعتِ اسلامی ہی نے سرحد اسمبلی میں بروقت قرارداد پیش کر دی ہوتی؟ ع
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟
کمزور معاشرے کس طرح زوال کی دلدل میں دھنسے رہتے ہیں۔ اس کی ایک مثال پاک بھارت کرکٹ ہے، دوسری بنگلہ دیش کی پھانسیاں۔ ایک اندیشہ یہ ہے کہ کراچی کے بلدیاتی الیکشن میں خون خرابہ ہو گا۔ رینجرز نے جان پر کھیل کر امن بحال کیا۔ سیاسی لیڈر مسلسل اور متواتر اسے مطعون کر رہے ہیں۔ 
بلدیاتی الیکشن میں کامیابی پر نواز شریف اترا رہے ہیں۔ اگر ایک پارٹی کرپشن کے پانچ سالہ ریکارڈ کی وجہ سے مسترد کر دی گئی، دوسری بدنظمی اور ناتجربہ کاری کے طفیل‘ نون لیگ اگر ایک تہائی نشستیں لے اڑی تو اس میں فخر کی کون سی بات ہے؟ 2005ء کے شہری انتخابات میں کیا نون لیگ کا صفایا نہ ہو گیا تھا؟ ایک قبضہ گیر مرکزی اور صوبائی حکومت کی موجودگی میں لوگ سرکاری پارٹی ہی کی تائید کیا کرتے ہیں۔ پھر یہ کہ ان اداروں کو کون سا اختیار حاصل ہے کہ معاشرے میں صحت مند تبدیلی کی امید ہو؟ صحت، تعلیم؛ حتیٰ کہ صفائی تک کے اختیارات تو خادمِ اعلیٰ کے فولادی پنجے میں دبے ہیں۔ ہر شہری ادارے کا بجٹ ممکنہ حد تک اورنج میٹرو ٹرین کے جہازی پیٹ میں انڈیل دیا گیا ہے۔ شہری حکومتوں کو جو اختیارات ایک آمر نے عطا کیے تھے، وہ بھی چھن چکے۔ اس پر مستزاد یہ کہ امیدواروں کے چنائو میں سرکاری پارٹی کے عہدیدار من مانی کرتے رہے۔ ڈاکٹر فضل چوہدری نے اپنے رشتے داروں کو نوازا تو روتے ہوئے وہ وزیرِ اعظم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اس پر انہیں وفاقی وزارت سونپنے کا فیصلہ کیا گیا۔ کچھ ٹکٹ قبضہ گروپوں کو دیے گئے، جن کے جرائم آشکار اور بے شمار ہیں۔ع
یہی ہے بادِ بہاری؟ یہی ہے فصلِ مراد؟ 
جلد ہی نوکر شاہی کے ساتھ ان کی کشمکش کا آغاز ہو گا۔ وہ اختیارات مانگیں گے، پنجاب اور سندھ کی حکومتیں مزاحمت کریں گی۔ قوم کی توانائی جب اس طرح رائیگاں ہوتی رہے گی تو نئی قیادت کیونکر جنم لے سکے گی؟
پختون خوا میں کم از کم نچلی سطح تک نمائندگی کا اہتمام تو کیا گیا۔ بجٹ کا تیس فیصد ان اداروں کے لیے مختص کرنے کا اعلان کیا گیا۔ صوبے میں پولیس کو غیر سیاسی بنانے کی طرف فیصلہ کن پیش رفت ہوئی۔ سکولوں اور ہسپتالوں میں کچھ اصلاحات ہوئیں۔ پٹواری کا مسئلہ حل کر دیا گیا‘ عشروں سے عام آدمی کے لیے جو ذہنی اذیت کا سبب ہے اور خادمِ اعلیٰ ہر چند ماہ بعد جسے حل کرنے کا تازہ اعلان فرماتے ہیں۔ پولیس اور پٹوار کے بل پر مقتدر خاندان اور جرائم پیشہ جائیدادوں پر قابض ہیں۔ ہر سال عوام کے اربوں روپے وہ ڈکار جاتے ہیں۔ حکومتیں ان کی خوشنودی کے لیے پالیسیاں تشکیل دیتی ہیں۔ 
بڑے پیمانے پر قومی سرمایہ بیرونِ ملک منتقل ہو رہا ہے۔ اس حال میں وزیرِ اعظم اور وزیرِ خزانہ خوشحالی کی نوید دے رہے ہیں۔ تیل کی قیمت ایک تہائی رہ جانے کے باوجود سرمایہ کاری کا نام و نشان تک نہیں۔ ابھی کچھ دیر پہلے دیکھا کہ لاہور کے ہوائی اڈے کا وسیع و عریض لائونج بھائیں بھائیں کر رہا ہے۔ امن و امان کی خرابی اور توانائی کے بحران نے کاروباری سرگرمیاں محدود کر دی ہیں۔ برآمدات میں مسلسل کمی کا سامنا ہے۔ سرمایہ کاری کے اعتبار سے پاکستان 138واں ملک ہے مگر وزیرِ خزانہ کو امید ہے کہ وہ دنیا کی اٹھارہویں بڑی معیشت بن جائے گا۔ فی الحال اس کا نمبر 43واں ہے۔ اٹھارہویں نمبر پر لے جانے کے لیے اس کی معیشت کا حجم 25ہزار ارب روپے سے بڑھا کر 80ہزار تک لے جانا ہو گا۔ امید ہے کہ وزیرِ خزانہ اپنا خفیہ منصوبہ جلد آشکار فرمائیں گے۔ 10 نومبر 2013ء کو انہی صاحب نے پاکستان کو گیارہویں بڑی معیشت بنانے کا اعلان کیا تھا۔
مصدقہ اطلاعات یہ ہیں کہ بھارت نے بڑے پیمانے پر فسادات کا منصوبہ بنایا ہے۔ اجیت دوول نگران ہیں۔ فاروق ستار کئی دن سے چیختے پھر رہے ہیں کہ کراچی کو ایم کیو ایم سے چھیننے کی کوشش ہے۔ اگر ایسا کوئی منصوبہ ہوتا تو این اے 246 میں ان کی جماعت ستر فیصد ووٹ حاصل کر پاتی؟ حیدر آباد میں ایم کیو ایم کے 25 فیصد نمائندے بلامقابلہ ظفر مند ہوتے؟ اصل مطالبہ ان کا یہ ہے کہ جس طرح ماضی کی حکومتیں من مانی کی اجازت دیتی رہیں، اب بھی دی جائے۔ فاروق ستار خود اعتراف کر چکے کہ ان کے کارکن بھار ت میں تربیت حاصل کرتے رہے۔ کراچی اور حیدر آباد کے شہریوں کو ان کے حقوق دلوانے کے لیے؟ کیا اس نازک مرحلے پر وہ خاموش رہیں گے؟ کیا ان کے آقا فساد پھیلانے کے لیے انہیں استعمال نہ کریں گے؟ کراچی پولیس اور رینجرز کے افسروں پر قاتلانہ حملوں کے بعد کُل 90 گرفتار شدگان میں ایم کیو ایم کے صرف 12 یا 13 کارکن شامل ہیں۔ باقی طالبان ہیں یا فرقہ پرست۔ کیا سپریم کورٹ قرار نہیں دے چکی کہ سیاسی پارٹیوں میں مسلّح جرائم پیشہ موجود ہیں اور کیا خود ایم کیو ایم یہ اعتراف نہیں کرتی؟ پھر انہیں نگرانی سے مستثنیٰ کیسے کر دیا جائے؟ پنجاب میں پہلے مرحلے میں کامیاب ہونے والے امیدواروں میں سے 500 کالعدم تنظیموں کی مدد سے جیتے۔ ایک صوبائی وزیر کے خلاف ہونے والی تحقیقات میں متعلقہ پولیس افسر کو تبدیل کرنے کے لیے خود وزیرِ اعلیٰ دبائو ڈال رہے ہیں۔ کیا اسی پر وزیرِ اعظم کامیابی کے نشے میں سرشار ہیں؟ 
بلدیہ فیکٹری سمیت ہولناک وارداتوں کی تفتیش ممکنہ حد تک ملتوی کرنے کی کوشش ہے۔ بظاہر ایک دوسرے کے خلاف بیانات داغنے والی پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم اندر خانہ ایک ہیں۔ پیپلز پارٹی اور نون لیگ بھی۔ عمران خان نے خواہ ایک ہزار غلطیاں کی ہوں مگر یہ بات بالکل صحیح ہے کہ اب صرف وہی اپوزیشن ہیں۔ این اے 122 میں 21 ہزار جعلی ووٹوں کے باوجود تمام سیاسی پارٹیوں نے جس طرح ایاز صادق کی حمایت کی، وہ ہماری تاریخ کا ایک شرمناک باب ہے۔ اس سے زیادہ شرمناک یہ ہے کہ میڈیا کا ایک حصہ اس الیکشن کو آبِ زمزم کی طرح پاکیزہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ 
دہشت گردی کے خلاف بظاہر ریاست کا پلڑا بھاری ہے مگر سیاسی پارٹیوں کا روّیہ ہے کہ فوج جانے اور عسکریت پسند۔ اس کے باوجود یہ دعویٰ ہے کہ سول اور فوجی قیادت میں ہرگز کوئی اختلاف نہیں۔ فساد پھیلانے پر بھارت تلا ہوا ہے۔ وزیرِ اعظم کو توفیق نہیں کہ نمایاں سیاسی پارٹیوں کے سربراہوں کو مدعو کر کے وضاحت کریں کہ تجارتی راہداری کے مغربی حصے کو ترجیح دی جائے گی۔ پوری ذمہ داری سے میں عرض کر تا ہوں کہ عسکری قیادت اس پر پریشان ہے۔ پریس ریلیز میں چند ہی خرابیوں کا ذکر تھا، مسائل اور بھی ہیں۔ 
پاک بھارت کرکٹ سیریز کے لیے د نیا بھر میں ملک کو رسوا کیا گیا۔ ممکن ہے کہ آخرکار سری لنکا میں مقابلے منعقد ہو جائیں۔ سوال یہ ہے کہ ممبئی کی تذلیل کے بعد شہریار خان اور نجم سیٹھی اگر باوقار انداز سے اپنا موقف پیش کرتے؟ اگر بھک منگوں کی سی لجاجت کا مظاہرہ نہ کرتے؟ خاص طور پر شہریار خان۔ 
اگر ایک قوم خود کو اس طرح کے تجارت پیشہ حکمرانوں کے سپرد کر دے‘ خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دے تو فروغ اور توقیر اس کے حصے میں کہاں سے آئے؟ پھانسیوں پر پنجاب اسمبلی آج رو رہی ہے، کل ممکن ہے کہ پختون خوا بھی روئے مگر اس بعد از مرگ واویلے سے کیا حاصل؟ کم از کم جماعتِ اسلامی ہی نے سرحد اسمبلی میں بروقت قرارداد پیش کر دی ہوتی؟ع
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں