پاکستان کو مضبوط اور طاقتور دیکھنے کی آرزومند نئی نسل نے عمران خان کا پرچم تھاما کہ نواز شریف زر اندوزی اور بھارت کی طرف جھک پڑے تھے۔ پاکستان مخالف لیڈروں کی تائید سے کپتان کیا حاصل کرے گا؟ بری صحبت کنفیوژن اور سرگردانی کے سوا اسے کیا دے گی؟
کیسے لیڈر ہیں؟ تاریخ سے بے بہرہ، اپنی قوم کی اجتماعی نفسیات سے بے نیاز، اہلِ علم سے گریزاں اور خوشامدیوں میں گھرے ہوئے۔ کم ہمت، اپنے عہد کے تقاضوں سے نا آشنا۔ جب کوئی قوم خود کو ایسے کم کوش رہنمائوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتی ہے تو اس کے ساتھ وہی سلوک ہوتا ہے، جو یتیم بچّوں کے خود غرض سرپرست ان کے ساتھ کیا کرتے ہیں۔
آدمی کا المیہ یہ ہے کہ اپنی ناکامیوں کے اسباب وہ خارج میں دیکھتا ہے؛ حالانکہ وہ داخل میں ہوتے ہیں۔ کوئی شخص ناکام نہیں ہوتا؛ اگر وہ حماقتوں کا ارتکاب نہ کرے۔ اس کائنات کا خالق سمیع و بصیر بھی ہے اور قادر و عادل بھی۔ آخرکار انسان کو وہی کچھ ملنا ہے، جس کا وہ مستحق ہو۔ کامیابی سے مراد میاں محمد نوا ز شریف اور آصف علی زرداری کی سی کامیابی نہیں، جس کے ساتھ بدنامی جڑی ہے۔ ظفر مندی محمد علی جناح جیسی ہوتی ہے۔ ان کی زندگی میں ان کے دشمنوں تک نے گواہی دی کہ انہیں خریدا جا سکتا ہے اور نہ دھوکہ دیا جا سکتا ہے۔ ان کی وفات کے ساٹھ برس بعد بھارت میں مسلسل ایسی کتابیں چھپیں، جن میں ان کی عظمت کا اعتراف کیا گیا۔ ان میں سے ایک بھارت کے ایک سابق وزیرِ خارجہ نے لکھی ہے۔ 150 سال بیت گئے، ابرہام لنکن کی عظمت پہ حرف نہیں آیا۔
صلاح الدین ایوبی پر لکھی گئی John Man کی تازہ کتاب پڑھی۔ اس کے مختلف فیصلوں کے پیچھے مصنف روایتی سیاسی محرکات تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے‘ بالآخر مگر وہ پکار اٹھتا ہے کہ اپنے دین کا وہ ایک سچّا پیروکار، ایک رحم دل اور عالی ظرف آدمی تھا، جو اپنی ذات کی نفی اور خود احتسابی پر قادر تھا۔
ایک لیڈر اقتدار کے بارے میں سوچتا ہے‘ اور ایک مدبّر آنے والی نسلوں کے بارے میں۔ لگتا ہے، عمران خان پر حصولِ اقتدار کی تمنّا اس قدر غالب آ چکی کہ مختلف متعصب گروہوں کی خوشنودی کے لیے وہ بے سر و پا بیانات داغ رہا ہے۔ خالقِ کائنات کا ارشاد تو یہ ہے کہ جب کسی معاملے میں الجھ جائو تو اہلِ علم سے رجوع کیا کرو۔ اہلِ ذکر کے پاس جایا کرو۔ اصرار کے ساتھ سرکارؐ نے ارشاد کیا تھا: علیکم مجالس بالابرار۔ تم پر لازم ہے کہ نیکوکاروں کی محفل میں بیٹھا کرو۔ ظاہر ہے کہ نیکوکاروں سے مراد لمبی لمبی داڑھیوں اور جبّہ و دستار والے واعظ نہیں بلکہ وہ ہیں، جن کے کردار تضادات سے پاک ہوں۔ جھوٹ اور خیانت سے جن کا دامن آلودہ نہ ہو اور جو ہمیشہ زندگی پر غور و فکر کرتے رہیں۔ ''یذکرون اللہ قیاماً و قعوداً و علی جنوبہم و یتفکرون فی خلق السمٰوٰت و الارض‘‘ وہ جو اٹھتے بیٹھتے اور پہلوئوں کے بل لیٹے ہوئے اللہ کو یاد کیا کرتے ہیں... اور آسمانوں اور زمینوں کی تخلیق پر غور کرتے رہتے ہیں۔
سیاستدانوں کو کتاب سے بہت کم واسطہ ہے۔ اکثریت ان سیاسی اور علمی تحریکوں سے بھی نا آشنا ہے جو گزشتہ ایک صدی میں اٹھیں، جدید سیاست کی تشکیل میں جن کا حصہ ہے۔ کانگرس، مسلم لیگ، احرار، جمعیت علمائِ ہند، خاکسار اور سرحد کے سرخ پوش۔
ایک ہزار برس ہوتے ہیں، جب محدّث ابنِ جوزیؒ اور ان کے بعد امام غزالیؒ نے حبّ جاہ، مقبولیت کی بے قابو تمنا کے عوارض پر روشنی ڈالی تھی۔ گزشتہ دو صدیوں کے دوران مغرب میں نفسیات پر بہت عرق ریزی کی گئی۔ بہت کچھ اس سے سیکھا جا سکتا ہے مگر ابنِ جوزیؒ اور غزالیؒ کے شہ پاروں میں آج بھی وہ موتی جگمگاتے ہیں کہ ہم بے خبر تو کیا، خود آج کا مغرب بھی ان سے اکتسابِ فیض کر سکتا ہے۔ ہر وہ شخص، جو فریبِ نفس سے نجات کا آرزومند ہو۔ غزالیؒ نے کہا تھا: مقبولیت کی خواہش اگر کسی پر سوار ہو جائے تو یہ دولت اور اقتدار کی تمنا سے بھی بدتر ہے۔ اس لیے کہ مقبولیت سے دونوں چیزیں حاصل کی جا سکتی ہیں۔ ارشادِ ربانی یہ ہے: جب میں نے نفس پیدا کیا تو اپنا سب سے بڑا دشمن پیدا کیا۔ عارف سے پوچھا گیا کہ کون آدمی کو فریب دیتا ہے، شیطان یا نفس؟ فرمایا: شیطان ایک کاشتکار ہے، جو نفس کی زمین میں کاشتکاری کرتا ہے۔
تاریخ عمران خان کا مضمون نہیں اور انہیں اس پر اظہارِ خیال سے گریز ہی کرنا چاہیے۔ فرمایا: گاندھی بڑے لیڈر تھے۔ ہمیں یہ ماننا چاہیے کہ انہوں نے آزادی کی جنگ لڑی۔ غفار خان اور مفتی محمود بھی بڑے لیڈر تھے۔ ابوالکلام آزاد نے کہا تھا: پاکستان بنا تو پھر یہ ہو گا۔ پھر وہی ہوا...
ابوالکلام آزاد نے کون سی ایسی پیش گوئی کی تھی، جو دوسرے نہ کر سکے۔ ٹھیک یہی بات سید ابوالاعلیٰ مودودی نے کہی تھی؛ اگرچہ وہ ابوالکلام سے زیادہ متوازن تھے۔ ذاتی وجاہت کے وہ بھی آرزومند تھے مگر خوددار تھے اور کانگرس کے آلۂ کار بننے پر آمادہ نہ ہوئے۔ ابوالکلام کی ساری زندگی خود ستائی میں گزری ــ ''غبارِ خاطر‘‘ میں اپنی سحر خیزی پر خود کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے، انہوں نے اپنا موازنہ اپنے ذاتی ملازم سے کیا ہے، جو اس وقت پڑا سوتا رہتا ہے۔ کروڑوں لوگ صبح سویرے اٹھتے ہیں۔ عابدوں کی بات ہی الگ ہے۔ دنیا بھر میں کامیاب لوگوں کی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ وہ صبح سویرے بیدار ہوتے ہیں۔ وہ طبعاً شکر گزار ہوتے ہیں۔ کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے وہ اس سوال پر غور کرتے ہیں کہ یہ ان کی طے کردہ اولین ترجیحات، یعنی مقاصدِ حیات کے مطابق ہے یا نہیں۔ وہ محنتی اور مستقل مزاج ہوتے ہیں۔ اپنی کامیابیوں سے زیادہ ناکامیوں اور خوبیوں سے زیادہ خامیوں پر غور کر تے ہیں۔ ان میں سے کوئی اپنی سحر خیزی کا ڈھنڈورا پیٹتا ہے اور نہ ابوالکلام کی طرح اپنے آبائواجداد کے غیر معمولی علم اور زہد و تقویٰ کا۔
وہ ایک عظیم نثر نگار اور خطیب تھے۔ انہوں نے صعوبتوں کا سامنا کیا اور وہ ہندوستان کے خس و خاشاک میں آگ بھڑکانے والی چند ممتاز شخصیات میں سے ایک تھے مگر ان کا آخری مقصد کیا تھا؟ ... ذاتی مقبولیت! ملاقات کی درخواست کے لیے بھیجے گئے ایک تار کے جواب میں قائدِ اعظم نے انہیں لکھا تھا: اگر آپ کا کوئی ضمیر ہے تو آپ کو کانگرس سے الگ ہو جانا چاہیے (اس کے بعد ہی ملاقات ممکن ہے)۔
اقبالؔ نے عمر بھر ان سے واسطہ نہ رکھا۔ ان کے ایما پر لکھی جانے والی ایک تحریر میں جب یہ دعویٰ کیا گیا کہ اقبالؔ ''الہلال‘‘ سے متاثر ہیں تو مشرق کے بے مثال مفکر نے اکبر الٰہ آ بادی کو لکھا: ابوالکلام سے ملاقات ہو تو انہیں بتائیے گا کہ اقبالؔ الہلال سے پہلے بھی مسلمان تھا۔
جی ہاں گاندھی بڑے لیڈر تھے مگر ہندوئوں کے۔ وہ اکھنڈ بھارت کے حامی تھے۔ وزیرستان کی سرحد پر کھڑے ہو کر انہوں نے کہا تھا: ہندوستان کی سرحد بامیان تک ہے۔ مزید برآں جیسا کہ وجے لکشمی پنڈت سمیت خود ان کے کانگرسی رہنمائوں نے شہادت دی کہ وہ ایک ریاکار تھے۔ ریل کے تیسرے درجے میں وہ سفر کرتے تو ایک پورا ڈبہ بک کرایا جاتا، جراثیم کش ادویات چھڑکی جاتیں اور کانگرسی کارکنوں کو بھنگیوں کا لباس پہنا کر اس میں سوار کرایا جاتا۔
رہے عبدالغفار خان اور مفتی محمود تو وہ ہرگز بڑے لیڈر نہ تھے؛ اگرچہ اپنی اولاد سے بہتر تھے۔ غفار خان نسلی تعصب اور مفتی محمود مذہبی فرقہ پرستی کے شکار تھے۔ غفار خان نے اپنے وطن میں دفن ہونا بھی پسند نہ کیا۔ سترہویں ترمیم کی طرح، مفتی صاحب مرحوم نے ایک آئینی ترمیم کے لیے فیلڈ مارشل ایوب خان کا ساتھ دیا۔ چوہدری ظہور الٰہی مرحوم کے ہاں درجن بھر ممتاز لیڈروں کی موجودگی میں انہوں نے یہ کہا تھا: ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شامل نہیں تھے۔ کیا 75.6 فیصد ووٹوں سے آزاد وطن کی تشکیل ایک گناہ تھا؟
پاکستان کو مضبوط اور طاقتور دیکھنے کی آرزومند نئی نسل نے عمران خان کا پرچم تھاما کہ نواز شریف زراندوزی اور بھارت کی طرف جھک پڑے تھے۔ پاکستان مخالف لیڈروں کی تائید سے کپتان کیا حاصل کرے گا؟ بری صحبت کنفیوژن اور سرگردانی کے سوا اسے کیا دے گی؟