کوئی ملک اور کوئی معاشرہ ،اس قدر افراتفری اور اس قدر بدنظمی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ جی نہیں، قطعاً نہیںہو سکتا۔
خوف کی ایک لہر یکایک اٹھی اور چاروں اور محیط ہو گئی۔ کئی بار پہلے بھی عادل صاحب نے یہ بات کہی تھی مگر سرسری اور رواروی میں: ملک کو ایک سخت گیر ڈکٹیٹر کی ضرورت ہے، جو سب بگڑے ہوئوں کو سیدھا کر دے۔ ان کے جملے سے نہیں، اس خیال سے سننے والا ڈرا کہ خدانخواستہ واقعی ایسا نہ ہو جائے۔ پیہم شورش کا نتیجہ بعض اوقات یہی ہوتا ہے۔
اگر ایک معاشرہ خودشکنی پر تلا رہے، نظم و نسق کو قبول کرنے سے یکسر انکار ہی کر دے تو ایک مضبوط لیڈر کی بے چین کرنے والی خواہش جنم لیتی ہے۔ یہ رجحان اگر مسلسل جاری رہے تو گاہے وہ متشکّل بھی ہو جایا کرتا ہے۔ گاہکوں کی اکثریت جس چیز کی خریدار ہو، وہ مارکیٹ میں آ کر رہتی ہے۔ عوام جس اندازِ حکمرانی کے حق میں ہوں، بالآخر وہی برپا ہوتا ہے۔اگر ایسا ہو تو کون جانتا ہے کہ ملک کے نصیب میں کوئی لی کوان یو ہو گا یا یحییٰ خان۔ اب تک کے تجربات بحیثیت مجموعی کچھ زیادہ اچھے نہیں۔
انتشار بہت ہو گیا۔ حد سے زیادہ اور ناقابل برداشت۔ جی ہاں! لوگ جمہوریت چاہتے ہیں، محسوس کے اظہار کی آزادی مگر آزادی کے ساتھ ڈسپلن بھی۔ اجتماعی حیات کے یہی دو بنیادی تقاضے ہیں۔ پوری آزادی اور پورا ڈسپلن۔ آزادی میں بہترین انسانی صلاحیت بروئے کار آتی ہے اور نظم خرابی کو محدود کرتا ہے۔آزادی تو اب پہلے سے کہیں زیادہ ہے مگر ڈسپلن؟...
صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے، پابہ گِل بھی ہے
انہی پابندیوں میں حاصل آزادی کو تو کر لے
قومی زندگی میں فوج اور سرکاری یا نجی دفاتر ایسا نظم نہیں ہوتا مگر یہ بھی کیا کہ سماج جنگل ہو جائے۔ وحشی جانوروں کی طرح جو جس طرف چاہے بھاگتا پھرے۔ جانور کی بقائے حیات کی غالب آ جانے والی جبلّت، پھر بھی اسے روک دیا کرتی ہے۔ اس کی حسیّات کہیں زیادہ تیز ہوتی ہیں مگر آدمی؟۔ آدمی بے قابو ہو جائے تو درندوں سے بدتر ہو جاتا ہے۔ اسفل السافلین، داعش اور بوکوحرام۔
نظم و ضبط برقرار رکھنا کس کی ذمہ داری ہے؟ ظاہر ہے کہ حکمرانوں کی۔سندھ کا صوبائی وزیر کہتا ہے: کراچی میں گٹرابل رہے ہیں اور کوڑے کے ڈھیر پڑے ہیں تو کراچی میونسپل کارپوریشن بھی ذمہ دار ہے۔ اس کے ساتھی کچھ اور کہتے ہیں۔ قائم علی شاہ فرماتے ہیں کہ گٹر کے ڈھکنے وزیر اعلیٰ کی ذمہ داری نہیں۔ بجا ارشاد مگر ڈھکنوں کی نگرانی کرنے والے افسر وزیر اعلیٰ کی ذمہ داری ہوتے ہیں۔ پبلک سروس کمیشن کی جو سب کے سب برباد ہو چکے، چاروں صوبوں میں، مرکز میں بھی۔ کراچی شہر میں جو غدر مچا ہے، اس پر پیپلز پارٹی کے لیڈر یہ فرماتے ہیں کہ ان کے خلاف سازش ہو رہی ہے۔ وہ ایم کیو ایم کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
ایم کیو ایم والوں میں سننے کی تاب کہاں۔ ناک پر مکھّی بیٹھنے نہیں دیتے۔ الطاف حسین کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی اسٹیبلشمنٹ سے مل کر ان کے خلاف سازش کر رہی ہے۔ مستقل طور پر بھنّائے رہنے والے کراچی کے نامزد میئر وسیم اختر بھڑک اٹھتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ میونسپل کارپوریشن اور دوسرے اداروں کا باقی ماندہ بجٹ لٹایا جا رہا ہے۔دنیا ٹی وی کے ایک پروگرام میں کئی ماہ سے چیخ و پکار ہے کہ کراچی بہت گندہ ہو گیا۔ سرکار سوئی پڑی ہے۔ سائیں سرکار مانتی ہے مگر نہیں مانتی۔ کریں گے، کچھ کریں گے، جلد کریں گے۔ وہی میاں محمد شہباز شریف والا گیت، زمینوں کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کریں گے، جلد کریں گے، تین ماہ میں کر دیں گے، چھ ماہ میں ہو رہے گا۔ چھ ماہ میں لوڈشیڈنگ ختم ہو جائے گی، دو سال میں ہو جائے گی، زیادہ سے زیادہ اڑھائی برس میں۔ اڑھائی برس بیت چکے۔ اب ان کا اعلان یہ ہے کہ بھٹوں پر بچوں کی جبری مشقت کا خاتمہ کر دیا جائے گا۔ ہر چند ماہ بعد وہ تھانہ کلچر بدلنے کا اعلان کرتے ہیں۔
ڈیڑھ سال سے نون لیگ کی قیادت یہ بتا رہی ہے کہ تجارتی راہداری کا آغاز ہو گا۔ تو سب دلدّر دور ہو جائیں گے۔ نون لیگ کے بعض رہنما یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ ان کا ہر عہد ترقی کا عہد تھا۔ المیہ تو فقط یہ ہوا کہ قائد اعظم ثانی کو ہر بار ان کی مدت پوری کرنے سے روک دیا گیا، ورنہ پاکستان ملائشیا بن چکا ہوتا۔ ساری رکاوٹوں کے باوجود، آٹھ برس کی جلاوطنی کے باوجود، قید و بند کے باوجود، شریف خاندان کا کاروبار دن دگنی، رات چوگنی ترقی کرتا رہا۔ زرداری صاحب کا بھی۔
ملک کے حالات کیوں بہتر نہ ہو سکے۔ پولیس کیوں بہتر نہ ہو سکی۔ عدالت کیوں نہ ہو سکی۔ روزگار کے مواقع کیوں نہ بڑھے۔ تیل کی قیمت 110ڈالر سے 32 ڈالر فی بیرل ہو گئی۔ اس کے باوجود معاشی نمو کا آغاز کیوں نہ ہو سکا؟۔ آبادی میں اضافہ 2فیصد، وزیر خزانہ کے اعداد و شمار درست مان بھی لیے جائیں تو سالانہ شرح ترقی چار فیصد۔ کیا اسی کا نام فروغ ہے؟۔ ترقی اس کو کہتے ہیں؟۔
ٹھہر سکا نہ ہوائے چمن میں خیمۂ گل
یہی ہے فصلِ بہاری، یہی ہے بادِ مراد
ہسپتال، تھانے، کچہری اور سبزی منڈی کی حالت خراب ہے۔ پیلی ٹیکسی ہی سہی، میٹرو اور اورنج ٹرین ہی سہی، دکھاوے کی خاطر ہی سہی، نون لیگ تو پھر بھی کچھ کر دکھاتی ہے، پیپلزپارٹی تو بالکل ہی نکمی نکلی۔ ذوالفقار علی بھٹومنتقم مزاج تھے۔ ان کی دختر نیک اختر، خطاب بہت فرمایا کرتیں مگر کچھ کام بھی کر دکھائے۔ بھٹو نے دستور بنایا، ایٹمی پروگرام شروع کیا اور پاکستانیوں پر سمندر پار روز گار کے دروازے کھولے۔ زرداری صاحب نے بدنامی کے سوا پارٹی کو کیا دیا؟۔ ان کے ساتھیوں نے کیا دیا؟۔ بیچارے بلاول پہ ترس آتا ہے۔ کس قدر بوجھ اسے اٹھانا ہے۔ ایک صوبائی پارٹی کو قومی پارٹی بنانا ہے، چوہدری ریاضوں، فردوس عاشق اعوانوں اور منظور وٹوئوں کی موجودگی میں۔ایم کیو ایم کی یہ بات تو بالکل درست ہے کہ بلدیاتی اداروں کو اختیارات ملنے چاہئیں۔ اس کے لیے اگر وہ دبائو بڑھا رہے ہیں تو کیا غلط ہے؟ ذمہ داری اختیار کے ساتھ ہوتی ہے۔ ساری دنیا میں بلدیاتی اداروں نے جمہوریت کو پروان چڑھایا ہے۔ ساری دنیا میں شہریوں کے مقامی مسائل شہری حکومتوں نے حل کیے ہیں۔ قیادت وہیں سے جنم لیتی ہے۔ جمہوری اداروں کی اساس یہی ہے۔ سچ پوچھیے تو اس سے بھی پہلے سیاسی پارٹیاں۔ پاکستان عجیب ملک ہے، جہاں بلدیاتی ادارے فقط فوجی ادوارمیں پروان چڑھتے ہیں۔ معاشی ترقی بھی عسکری اقتدار میں ہوتی ہے۔ جمہوریت آتی ہے تو بدنظمی اور کرپشن کا طوفان لے کر آتی ہے۔پارٹیاں لیڈروں کی جیب میں پڑی رہتی ہیں۔ برباد ہو جاتی ہیں مگر کوئی چوں نہیں کرتا۔ اعتزاز احسن تک خاموش رہے۔ اب وہ یہ فرماتے ہیں کہ پی آئی اے کی نجکاری ماں کا زیور بیچنے کے مترادف ہو گی۔ لاحول ولا قوۃ الا باللہ۔
لے دے کر میڈیا کا سہارا تھا ، وہ بھی خود فریبی ہی ثابت ہوا۔ مسئلے کا حل ڈھونڈنے اور عوامی تربیت کی بجائے، وہ خود مسئلے کا حصہ بنتا جا رہا ہے۔ ایک سے ایک بڑی انا ہے۔ جنرل کیانی کے خاندان پر کچھ لوگ صرف اس لیے برس رہے ہیں کہ ان کی بریفنگ میں بلائے نہ جاتے تھے۔ بھاڑے کے ٹٹّوئوںکو چھوڑیے، ہر کہیں کچھ ہوا ہی کرتے ہیں مگر وہ ہیں کہ غور کرنے کی زحمت ہی نہیں کرتے۔ بس دانش بھگارتے ہیں اور دانشور کہلاتے ہیں۔سامنے کی بات یہ ہے کہ جنرل کیانی کا کبھی کوئی کاروبار نہ تھا۔ اپنے بھائیوں کی انہوں نے کبھی کسی سے سفارش نہ کی۔ ایک واقعہ بھی نہیں، ایک رقعہ اور ایک ٹیلی فون بھی نہیں۔ اعتراض ہے تو کاروبار کرنے والوں پر۔ ان میں سے بھی کامران کیانی پر، جن کا کاروبار قدرے وسیع ہے۔جی ہاں! تحقیقات ہونی چاہیے، لازماً ہونی چاہیے مگر بالکل شفاف تحقیقات۔ اگر قصور وار وہ ثابت ہو تو اس کے خلاف کارروائی کی جائے، ڈٹ کر کی جائے، علی الاعلان کی جائے اوراس کہانی میں کیا رکھا ہے کہ فلسفے تراشے جا رہے ہیں۔ دور کی کوڑی لائی جاتی ہے ۔ نابینا شاعر نے مصرعہ تراشا۔اس زلف پہ پھبتی شبِ دیجور کی سوجھی۔ اس پر کسی نے گرہ لگائی ع
اندھے کو اندھیرے میں بہت دور کی سوجھی
کوئی ملک اور کوئی معاشرہ ،اس قدر افراتفری اور اس قدر بدنظمی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ جی نہیں، قطعاً نہیںہو سکتا۔