مشرق کے عظیم شاعر نے یہ کہا تھا:
مے کدے میں کل ایک رندِ زیرک نے کہا
ہے ہمارے شہر کا والی گدائے بے حیا
تاج پہنایا ہے کس کی بے کلاہی نے اسے
کس کی عریانی نے بخشی ہے اُسے رنگیں قبا
مانگنے والا گدا ہے‘ صدقہ مانگے یا خراج
کوئی مانے یا نہ مانے میرو سلطاں سب گدا
کون بادشاہ ہے جسے خوشامدی میسر نہ رہے ہوں۔ کون زردار ہے، جس کے لیے تاویل کرنے والے مستعد نہ ہوں۔ گزشتہ چند عشرے، اخلاقی اعتبار سے زوال کے عشرے ہیں۔ مگر برصغیر میں ایک مثالی کیا معقول معاشرہ بھی کبھی وجود میں نہیں آیا۔ کل شب رابندر ناتھ ٹیگور کے چند افسانے انہماک سے پڑھنے کا موقعہ ملا۔ بنگال کے دیہات میں زندگی کس قدر پست تھی۔ پنجاب میں بھی، جس کے ایک بزرگ مکیں کی خود نوشت کے چند اوراق پڑھنے کے بعد کوفت اور کراہت ہونے لگی کہ یہ کتاب خریدنے کی حماقت ہی کیوں کی۔ ایک ممتاز شاعر اور ایک ممتاز اخبار نویس نے اس کی وکالت کی تھی۔
یہ بادشاہوں کی سرزمین ہے، تمیزِ بندہ و آقا کی۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی نے لکھا ہے: سیڑھیوں والا ایک معاشرہ۔اوپر کے زینے پر بیٹھا ہوا آدمی، نیچے والے کو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے۔ اوپر والے کو مرعوبیت سے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان، جنرل محمد یحییٰ خان، فخر ایشیا قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو، جنرل محمد ضیاء الحق، دختر مشرق محترمہ بے نظیر بھٹو، قائد اعظم ثانی میاں محمد نواز شریف، جنرل پرویز مشرف اور ایشیا کے نیلسن منڈیلا جناب آصف علی زرداری، آٹھ حکمرانوں کا جاہ و جلال ہم نے دیکھا ہے۔ خوشامد آج کا مرض نہیں ‘آج شاید کچھ کم ہو گیا ہے۔ بڑے بڑے بزرگ اخبار نویسوں کو اقتدار کی غلام گردشوں کے اندر مسحور ہی دیکھا۔ ان میں سے جس کسی کو بارگاہ تک رسائی ملی، کمال فخر سے وہ اس کا ذکر کیا کرتا۔ لیڈرانِ کرام کو قریب سے دیکھا تو رفتہ رفتہ گھن سی آنے لگی، اکثر سے۔ یہ نہیں کہ اس حمام میں سب ننگے ہیں۔ معقول بھی ہیں، محتاط بھی ہیں اور چند ایک درد مند بھی۔ اکثریت مگر کانسٹیبلوں اور پٹواریوں کی ذہنیت سے اوپر نہ اٹھ سکی۔ بالاتروں سے مرعوب، مغرب سے مرعوب، طاقت کے سامنے پچک جانے والی۔ ملوکیت، جمہوریت، اشتراکیت یا ملاّئیت، ریاست کے مقابل عام آدمی ہمیشہ عاجز ہی رہا۔ خود حکمران طبقات بھی عاجز ہی، کروفرنصیب ہوا تو متکبر ہو گئے اور ظاہر ہے کہ تکبر کمزوری ہے، جہل ہے، خوبی تو نہیں، بالیدگی تو نہیں۔ گر پڑے تو رو دیئے اور رحم کی بھیک مانگنے لگے۔
امین اور ہارون الرشید کے جھگڑے میں اکثریت امین کی حامی تھی۔ سب سے بڑھ کر اس کی ماںملکہ عالیہ زبیدہ خانم۔ سلطنت میں اس کا رسوخ بہت تھا۔ معزز ترین عرب خاندانوں میں سے ایک خاندان کی وہ نورِ نظر تھی‘ سیدنا عباس بن عبدالمطلب کی اولاد۔ پھر یہ کہ ہارون الرشید کی کمزوریوں نے ملکہ کو اور بھی زیادہ طاقتور بنا دیا تھا۔ امیر المومنین الجھے ہوئے ذہن کے متلون مزاج آدمی تھے۔ پل میں تولہ‘ پل میں ماشہ‘ کبھی اس قدر میٹھے کہ ہڑپ کر لیے جائیں اور کبھی اس قدر کڑوے کہ تھوک دیئے جائیں۔ کبھی تیزی و تندی غالب آتی اور کبھی رقّت۔ برمکی خاندان کا ایک ایک فرزند مار ڈالا اور ایک دن فضیل بن عیاض کے سامنے گریہ کرتے بے ہوش ہو گئے۔وہ ذکی اور فیاض تھا مگر خوشامدیوں میں گھرا رہنے والا‘ سیرو شکار کا دلدادہ۔ مامون اس سے کہیں بہتر تھا‘ اصل نام جس کا عبداللہ تھا۔
سلطنت عملاً امین کو سونپ دی گئی اور مامون کے حصے میںصرف خراسان آیا۔ خراسان یعنی دائمی شورش ۔آج کا افغانستان اسی کا حصہ تھا‘ یہی لوگ‘ یہی تیور۔ ہارون کے آخری زمانے میںبھی وہاں بغاوت برپا تھی۔ وراثت لکھی اور اس کی رو سے سلطنت بانٹی جا چکی تو امیرالمومنین نے معاہدے پر امراء‘ جنرلوں اور سرداروں کے توثیقی دستخط ثبت کرائے۔ پھر یہ اوراق سونے کی نلکیوں میں رکھ کر خانہ کعبہ میں محفوظ کر دیئے گئے۔ خانہ کعبہ میں رکھنے سے کیا ہوتا ہے نیت اگر نیک نہ ہو ع
مکّے گیاں گل مُکدی نئیںجے ناں آ پ مکائیے
1992ء کے معاہدہ اسلام آباد کے بعد افغان لیڈروں نے اللہ کے اس مقدس گھر میں متحد رہنے کا پیمان کیا تھا۔ ایک دن بھی اس پر عمل پیرا نہ ہوئے۔ اقتدار کی خواہش ایسی پاگل کر دینے والی ہے کہ باقی سب کچھ حقیر ہو جاتا ہے‘نظر سے اوجھل ہو جاتا ہے۔ اللہ کی آخری کتاب کہتی ہے : آخرت افضل ہے مگر دنیا کی محبت شدید تر ہوتی ہے۔ پھر دنیا میں سب سے بڑھ کر حکمران ہو جانے کی تمنا۔ ملٹن نے کہا :"To reign is worth ambition, though in hell" حسرت حصول اقتدار ہی سے پوری ہوتی ہے‘ خواہ وہ جہنم کی حکومت ہی ہو ۔اور اس نادرِ روزگار، دانشور آسکر وائلڈ نے کہا تھا : "I can resist any thing except temptation" آدمی ہر چیز کا سامنا کر سکتا ہے مگر خواہش کی بے تابی کا نہیں۔
حکمرانوں کے عہد و پیماں ان کے دعوے اور نعرے شاید اس دنیا کی سب سے زیادہ ناقابل اعتبار چیزیں ہیں۔ مقبولیت کی تمنا‘ بہت بڑی کمزوری ہے۔ بادشاہ تو کیا علماء اس کا شکار ہوتے ہیں اور اس بری طرح شکار کہ مسخرے معلوم ہونے لگتے ہیں۔ سب کچھ ہار جاتے ہیں۔ انتخابی جنگیں لڑنے والے سیاستدانوں میں یہ دونوں عیب ایک ساتھ جمع ہو جاتے ہیں۔ ان میں سے بعض پست ترین سطح کو چھو لیتے ہیں۔
نوے فیصد سلطنت پر امین قناعت نہ کر سکا۔ امیر المومنین کی آنکھیں بند ہوتے ہی اس نے خراسان پر قبضے کا منصوبہ بنایا۔ چھوٹی اور بڑی عسکری طاقتوں میں سے چھوٹی اس لیے ظفر مند ہو جاتی ہے کہ برتری کا گمان بعض اوقات ڈھیلارد کر دیتا ہے۔ امین کے ساتھ یہی ہوا۔ مامون کا لشکر ایک دن بغداد کے دروازوں پر دستک دے رہا تھا۔ وہ شہر جو امین کے پڑدادا نے تعمیر کیا تھا‘ ۔ابتدا میں جس کی ہر سڑک 200 فٹ فراخ تھی۔ رات کی تاریکی میں امین فرار ہوا۔ اس زمانے میں جب بغداد کے گویّے بھی شمشیر کے بغیر گھر سے نہ نکلتے تھے‘ اس نے عورتوں کا لباس پہنا اور ایک کشتی میں دجلہ عبور کرنے کی کوشش کی۔ قاتلوں نے اسے جا لیا تو اس نے ایک تکیے سے اپنا دفاع کرنا چاہا۔
خوف زدہ بچے کی طرح وہ فریاد کر رہا تھا: میرا قتل تمہارے لیے جائز نہیں۔ میں تمہارا ابن عَمِ رسول ہوں۔
بس اتنی ہی تاب بادشاہوں میں ہوا کرتی ہے ۔ ورنہ دولت کے لیے وہ پاگل کیوں ہوں۔ جس آدمی کو حکومت نصیب ہو گئی دولت اسے کیوں درکار ہوتی ہے اور کتنی دولت؟ اربوں ڈالر کس کام کے؟ ایک اندازے کے مطابق زرداری صاحب15بلین ڈالر رکھتے ہیں۔اور شریف خاندان چار بلین ڈالر ۔فرض کیجئے‘ یہ اندازے غلط ہیں۔ وزیر اعظم محمد نواز شریف کے پاس صرف ایک ارب ڈالر ہیں۔ فرض کیجیے‘ آج وہ اپنا کاروبار سمیٹ دینے کا ارادہ کریں تو یہ خطیر رقم کتنے عرصے کے لیے کافی ہو گی؟ ایک ہزار ڈالر یعنی ایک لاکھ روپے روزانہ اگر وہ خرچ کریں تو 2470برس کو کفایت کرے گی۔ پانچ لاکھ روپے روزانہ کریں تو ؟ دس لاکھ روزانہ یعنی 3کروڑ ماہوار تو 247 سال۔
جی ہاں! یہ ممکن نہیں، یہ معجزہ رونما نہیں ہو سکتا ۔اسی لیے کہا گیا دو فقیر ایک گدڑی میں سو سکتے ہیں‘ایک سلطنت میں دوبادشاہ نہیں رہ سکتے۔ حکمرانوں کو اور تو کچھ بھی عطا ہو سکتا ہے مگر غنیٰ نہیں۔ فرمایا: الغنیٰ غنی النفس۔
مشرق کے عظیم شاعر نے یہ کہا تھا:
مے کدے میں کل ایک رندِ زیرک نے کہا
ہے ہمارے شہر کا والی گدائے بے حیا
تاج پہنایا ہے کس کی بے کلاہی نے اسے
کس کی عریانی نے بخشی ہے اُسے رنگیں قبا
مانگنے والا گدا ہے‘ صدقہ مانگے یا خراج
کوئی مانے یا نہ مانے میرو سلطاں سب گدا