"HRC" (space) message & send to 7575

نیم ریاست

بڑے اوربنیادی فیصلوں کا وقت آپہنچا ۔ طالبان سے مذاکرات نتیجہ خیز نہیں ہو سکتے ۔ پاکستان او رنہ افغانستان میں ۔ کوئی کرنا چاہے تو کر کے دیکھ لے۔ باغیوں کا قلع قمع کیا جاتاہے ،ان سے محبت کی پینگیں نہیں بڑھائی جاتیں ۔
حقائق کا سامنا کرنے کے سوا چارہ کیا ہے ؟ امتحان ہو تو فیصلہ کرنا پڑتاہے ۔ قرآنِ کریم یہ کہتاہے کہ کسی جان پر اس کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا جاتا۔بحرانوں میں مواقع چھپے ہوتے ہیں ۔ انحصار اس پر ہوتا ہے کہ آپ ان مواقع کو پہچان سکتے ہیں یا نہیں ۔ فرار کا رویہ یا ٹھنڈے دل کے ساتھ تجزیہ ۔ تمام انحراف بنیادی طور پر علمی ہوتے ہیں۔ اگر تجزیہ درست ہے تو بتدریج ہی سہی ، بہتری آتی چلی جائے گی ۔ 
افراد چلے جاتے ہیں ، ملک زندہ رہ سکتے ہیں ، ریاست بشرطیکہ ان تقاضوں کا ادراک کرسکے ، جو اس کی بنیاد ہوتے ہیں ۔ سیدنا علی ابنِ ابی طالب کرم اللہ وجہہ کا وہی قول : ملک کفر سے چلایا جا سکتاہے ، ظلم سے نہیں ۔ 
یوں تو اور بہت سی غلطیاں ہم نے کی ہیں مگرشاید سب سے بڑی غلطی ریاست کے کاروبار میں شہریوں کی عدمِ شرکت ہے ۔ سالِ گزشتہ آرمی پبلک سکول میں ایک شہید کی تعلیم یافتہ ماں نے کہا: ہم تو طالبا ن کواچھے لوگ سمجھتے تھے ،مذہبی جماعتوں کا تو ذکر ہی کیا، عمران خان اس بارے میں کنفیوژن کا شکار تھے ۔ یہ کنفیوژن انہوں نے نئی نسل کو منتقل کر دی ، جو ایک دیوتا کی طرح انہیں پوجتی ہے ۔ فوجی آپریشن کے خلاف کپتان اور مذہبی سیاسی جماعتوں کی شدید ترین مزاحمت کے مقابل، نامقبولیت کے خطرے سے دوچار لیگی حکومت سربسجود ہو گئی؛حالانکہ حالات کی نزاکت کو شاید وہ سمجھتی تھی۔ تمام سنگین حقائق سامنے تھے۔ جنرل ثناء اللہ نیازی اور ان کے ساتھیوں ، 23ایف سی اہلکاروں کی شہادت، پشاور چرچ کے سانحے اور سب سے بڑھ کر آرمی پبلک سکول نے رائے عامہ کو یکسو کر دیا۔مذہبی سیاسی لیڈروں کو طالبان کے خلاف کارروائی کی حمایت کرنا پڑی ؛اگرچہ مولانا فضل الرحمٰن اڑے رہے کہ مذہبی دہشت گروں کا الگ سے ذکر نہ کیا جائے۔مدارس کی آزادی انہیں خطرے میں نظر آتی تھی اور اس پر وہ برہم تھے ۔ سامنے کی بات یہ تھی کہ دہشت گردوں کے خلاف جنگ کا آغاز ہوگا تو ہمہ قسم کے خلاف ہوگا۔ میدانِ جنگ میں نام اور نسب نہیں پوچھے جاتے ۔ 
چار سدّہ یونیورسٹی پر حملے کے بعد جامعہ کے چوکیداروں ، پولیس اور ان سے زیادہ فوج نے بروقت کارروائی کی ۔ اپنی رائفلیں اٹھائے، قریب کے دیہاتی میدان میں نکل آئے۔ یہ سب کچھ خوش آئند تھا ۔یہ بھی کہ بحیثیتِ مجموعی دہشت گردی میں کمی آئی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ عام آدمی کی شرکت کے بغیر کیاجنونی دہشت گردوں سے نجات ممکن ہے ؟ 
آزادی کے اڑسٹھ برس بعد بھی عام آدمی کی ریاست سے حقیقی وابستگی نہیں ۔ پولیس کے ہاتھوں وہ رسوا ہوتاہے ، جس کے افسروں کا تقرر کبھی میرٹ پر نہیں ہوتا۔ عدالت اسے انصاف نہیں دیتی ۔ سرکاری دفاترمیں اس کی سننے والاکوئی نہیں ۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ وہ مایوس ہوتا جا رہاہے اور اذیت پسند بھی ۔ سرکاری پالیسیاں زرداروں کے لیے ہیں ۔چار سدّہ سانحے کے روز ایک وفاقی وزیر کا بیان چھپا : تاجروں کو ہم ناراض نہ ہو نے دیں گے ۔ وہ ٹیکس چور ، جن کی وجہ سے وصولی کی شرح 16فیصد سے 9فیصد ہو چکی ۔ جن کی وجہ سے پاکستان بھکاری بنا ہو اہے ۔ ترقیاتی منصوبوں کا تیس فیصد فرسودہ ٹھیکیداری نظام کی وجہ سے ڈکار لیا جاتاہے ۔ کسی کو صدمہ نہیں ہوتا۔کوئی دل نہیں کانپتا۔کوئی آنکھ نہیں بھیگتی۔ ٹیکس چور تاجروں کے لیے سبھی فکر مند ہیں ۔ترقیاتی منصوبے حکمران خاندانوں کی انتخابی ترجیحات کے مطابق بنتے ہیں ۔ میڈیا میں ان کا رسوخ اتنا ہے کہ احتجاج کرنے والوں کی آواز بے معنی ہو جاتی ہے ۔ میٹرو بس اور اورنج لائن ٹرین حکومت کی ترجیح ہونی چاہیے یا صاف پانی اور دہشت گردی کا خاتمہ ؟ اقتصادی ترقی اگر ترجیح ہے تو حکمران اشرافیہ کی شوگر ملوں کو سبسڈی کس خوشی میں ؟یہ ہمارے ٹیکسوں کی کمائی ہے ۔ 
وزیرِ اعظم کے سمدھی اسحق ڈار بار بار احسان جتلاتے ہیں کہ جنگی اخراجات اتنے ارب روپے ہو چکے ۔ سکھر میں خورشید شاہ کے علاقے میں بجلی کے ساڑھے سات لاکھ کنکشنوں میں سے چار لاکھ کا بل ہی وصول نہیں ہوتا ۔اس پر کوئی وفاقی وزیر بات نہیں کرتا۔ بلوچستان میں ٹیوب ویل چلانے والوں کے ذمہ 140ارب روپے کے واجبات ہیں ۔ پختون خوا کے بعض علاقوں اور قبائلی پٹی میں بھی صورتِ حال یہی ہے ۔ سرکاری کارپوریشنوں پر، برسوں پہلے جن کی نجکاری ہو جانی چاہیے تھی ، ہر سال آٹھ سو ارب روپے ضائع ہو تے ہیں ۔ پی آئی اے کی نجکاری کا سوال اٹھتاہے تو سیاسی لیڈر علمِ بغاوت بلند کرتے ہیں ۔ چند ہزا ر ووٹوں اور ہوائی اڈوں پر وی آئی پی پروٹوکول کے لیے ۔ پھر تعجب کیا ہے کہ پاکستان ریاست سے ایک نیم ریاست بن چکا۔ 
اس طرح کام نہیں چلے گا۔ وقت آپہنچا کہ بڑے اور بنیادی فیصلے صادر کیے جائیں۔ جس نوکرشاہی کے ذریعے انگریز نے برصغیر کانظام چلایا تھا، وہ تقریباً مکمل طور پہ تباہ ہو چکی ۔ بجا کہ افسر زیادتی کے مرتکب ہوتے او رمن مانی کرتے ہیں ۔ اس کاعلاج مگر یہ ہے کہ نگرانی کی جائے ۔ یہ نہیں کہ ان کی بجائے کوئی حکمران خاندان یا سیاستدانوں کا کوئی ٹولہ شہنشاہی فرمانے لگے۔ بلوچستان میں ترقیاتی منصوبوں کے نام پر ایک ایم پی اے کو سالانہ چالیس سے پچاس کروڑ روپے دیے جاتے ہیں ۔ خزانہ جب اس طرح لٹے گا تو عام آدمی اسی طرح پستا رہے گا۔
افغانستان اور قبائلی پٹی میں قیامِ امن کے بغیر پاکستان میں امن کا حصول ممکن نہیں ۔ ماضی کو رونے سے کچھ حاصل نہیں مگر اس کاتجزیہ تو کرنا چاہیے ۔ افغانستان میں روسی تسلط ختم کرنے کے لیے جن مذہبی گروپوں کو مسلح کیا گیا ، اب وہ ریاست کے لیے خطرہ ہیں۔ ملک بھر میں ان کے حامی ،انہیں پناہ دیتے ہیں ۔ تین برس قبل اس دانا اور جرّی سید علی گیلانی نے کہاتھا: طالبان پاکستان کی جڑیں کھو درہے ہیں ۔ یہ فیصلہ کرنے کا وقت تھا، جو ہم نے کھو دیا لیکن کیا اب بھی فیصلہ نہ کریں گے ؟ افغانستان اور پاکستان میں حقیقی تعاون کے بغیر خطے میں امن کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پاک افغان سرحد پر آزادانہ آمدور فت سب سے بڑا مسئلہ ہے ۔ ہر روز اسّی ہزار افراد اس سرحدکو پار کرتے ہیں ۔ پاسپورٹ اور ویزہ کے بغیر ۔ دنیا کے کسی اور ملک میں یہ تماشا ممکن ہے ؟ 
جی ہاں ، بھارت ، جی ہاں افغانستان کے پاکستان دشمن عناصر مگر دشمن سے رحم کی امید کیوں رکھی جائے ؟ بھارت اگر پاکستانی سرحد پر لیزر باڑ بنا سکتاہے ، بلوچستان میں محدود وسائل سے اگر ساڑھے چار سو کلومیٹر لمبی خندق کھودی جا سکتی ہے تو ریاستِ پاکستان، پاک افغان سرحد پر دیوار کیوں تعمیر نہیں کر سکتی ؟ کوئی حد ہے ، حماقت کی کوئی حدہے کہ پختون خوا میں متحدہ مجلسِ عمل کی پانچ سالہ حکومت میں دہشت گرد پروان چڑھتے رہے ۔ عین اس وقت جب چار سدّہ یونیورسٹی پہ دہشت گر د ٹوٹ پڑے تھے ، محمود خان اچکزئی کے پندرہ بیس حامی کراچی میں نعرے لگا رہے تھے ''یہ جو دہشت گردی ہے ۔ اس کے پیچھے وردی ہے ‘‘۔ 
اللہ کے آخری رسولؐ کا فرمان یہ ہے کہ اگر چھوٹے سر والا ایک حبشی بھی تمہارا حاکم بنا دیا جائے تو اس کی بھی اطاعت کرو (مفہوم)۔ ظاہر ہے کہ تقدیس حکمران کی نہیں ریاست کی ہوتی ہے ۔ 
ریاست کو ریاست بنانا ہوگا۔ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ بڑے اوربنیادی فیصلوں کا وقت آپہنچا ۔ طالبان سے مذاکرا ت نتیجہ خیز نہیں ہو سکتے ۔ پاکستان او رنہ افغانستان میں ۔ کوئی کرنا چاہے تو کر کے دیکھ لے۔ باغیوں کا قلع قمع کیا جاتاہے ،ان سے محبت کی پینگیں نہیں بڑھائی جاتیں ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں