ڈاکٹر ہانمن نے کہا تھا :بیماری کی بنیاد مریضانہ خیالات پر ہوتی ہے ۔ کاروبارِ حیات میں ہر کہیں ایسا ہے ، سیاست میں بھی ۔ ابرہام لنکن کا وہی قول : سب لوگوں کو کچھ دن کے لیے بے وقوف بنایا جا سکتاہے ، کچھ کوہمیشہ کے لیے مگر سب کو مستقل دھوکہ دینا ممکن ہی نہیں ۔ مشتری ہوشیار باش!
جبلتوں کا تعامل پیچیدہ ہے ۔ آدمی اپنے تعصبات کے ساتھ جیتے ہیں اور ماحول کے اثرات گہرے ہوا کرتے ہیں ۔ کم ہیں جو خود اپنا تجزیہ کر سکتے اور اپنی اصلاح پر آمادہ ہوتے ہیں ۔ خاص طور پر اس معاشرے میں ، عدم تحفظ میں مبتلا جو خود غرضی کا اذیت ناک نمونہ ہے ۔کسوٹی پر رکھے جائیں تواکثر سکّے کمتر نکلتے ہیں ۔
شوکت خانم ہسپتال لاہور میں توسیع کا کام پنجاب حکومت کو گوارا نہیں ۔ عمران خان کی سیاست تو اب وہی دوسری پارٹیوں والی ہے ۔ اقتدار کی وہی ہوس ، ذاتی نمود کی خواہش اور مخالفت برائے مخالفت کا وہی انداز مگراس کے تین کارنامے پاکستان کی تاریخ سے کھرچے نہیں جا سکتے ۔ اوّل کرکٹ کا عالمی کپ، ثانیاً شوکت خانم ہسپتال کی تعمیر ،ثالثاً میانوالی میں بریڈ فورڈ یونیورسٹی کی تعمیر جس کی عمارت ، تعلیم ا ور اساتذہ عالمی معیار کے ہیں ۔ طالب علم کو داخلہ میرٹ پر ملتا ہے ۔ ایک پیسہ بھی اسے خرچ نہیں کر نا پڑتا۔ اپنے کیمپس کی نہیں ،لندن سے ڈگری جاری ہوتی ہے ۔
پروفیسر ایلیسن یونیورسٹی کے سمندر پار اداروں کی نگراں ہیں۔ ان سے پوچھا کہ پاکستانی طلبہ کا معیار کیا ہے ۔ بولیں ، برطانوی بچّوں سے بہتر ؛حتیٰ کہ انگریزی زبان میں بھی ۔ ـ"How Come?" سروقد خاتون سے سوال کیا ، جس کی آنکھوں میں ممتا جاگتی رہتی ہے ۔ انگریزوں کے مخصوص انداز میں اس نے کندھے اچکائے۔ بظاہر ایک ہی سبب ہے ، امیدوار بہت زیادہ اور انتخاب میرٹ پر ۔ مغرب کی خصوصیت یہ ہے کہ کام ایک نظام کار کے تحت اور نگرانی مسلسل ۔ چھوٹی یا بڑی ، سبھی لوگ غلطیوں کا ارتکاب کرتے ہیں ۔ غلطیوں سے نہیں ، آدم کی اولاد غلطیوں پر اصرار سے تباہ ہوتی ہے ۔ اگرجزا و سزا کا قرینہ موثر ہو تو زندگی ندی کی مانند رواں وگرنہ جوہڑ ۔
شوکت خانم لاہور کی توسیع روکنے سے حکومتِ پنجاب کو کیا ملے گا؟ میڈیا متوجہ ہو گاتو بات بڑھ جائے گی۔ پرویز رشید ، خواجہ سعد رفیق، دانیال عزیز اور خواجہ آصف سکینڈل تراشنے کی کوشش کریں گے مگر لا حاصل ۔ شوکت خانم ہسپتال عمران خان کا نہیں ، اب ایک قومی ادارہ ہے ۔ اپنی سیاست سے کپتان نے ہسپتال کو الگ رکھا ۔ ایک میڈیا گروپ سے آویزش کے ہنگام بھی ہسپتال کے اشتہار اسے جاری ہوتے رہے ۔
دھرنے کے نام پر کپتان نے حکومت کو اکھاڑ پھینکنے کی جو مہم برپا کی‘ اسے ناکام ہونا تھا۔ بنیاد ہی کمزور تھی۔ الیکشن میں کچھ دھاندلی ہوئی مگر ایسی اور اتنی بہرحال نہیں کہ نہ ہوتی تو عمران خان وزیرِ اعظم بن جاتے۔ اکتوبر 2011ء سے شروع ہونے والی مقبولیت کی لہر کے باوجود جو چند ماہ جاری رہی ، اس کی ناکامی کے تین اسباب تھے ۔ ایک پورا برس پارٹی الیکشن میں ضائع کر دیا گیا جوجماعت کی تنظیم ،کارکنوں کی تربیت اور امیدواروں کی تلاش میں صرف ہونا چاہیے تھا ۔ بدترین امیدوار میدان میں اتارے ۔ پولنگ والے دن کے لیے کوئی تیاری تھی ہی نہیں ۔تحریکِ انصاف کے الیکشن میں قومی انتخاب سے بڑھ کر دھاندلی ہوئی ۔ صرف فیصل ا ٓباد کے ایک حلقے میں 33ہزار ووٹوں کو 3300کر دیا گیا ۔ جن لوگوں نے یہ کارنامہ انجام دیا ، وہ آج بھی پارٹی پر مسلط ہیں ۔ قرائن یہ ہیں کہ مستقل طور پر رہیں گے ۔ پارٹی کے ہیڈ کوارٹر سمیت ملک بھر میں موجود اس کے دفاتر میں دوسروں کے کارندے موجود ہیں ۔ عام انتخابات میں شاہ محمود ،پرویز خٹک،اسد قیصر اور اعجاز چوہدری سمیت بہت سوں نے اپنے حامیوں کو ٹکٹ دلوائے ۔کچھ سے نقدی وصول فرمائی گئی ۔ کچھ لوگوں کاخیال یہ ہے کہ نئے پارٹی الیکشن کے بعد تحریکِ انصاف طاقتور بن کے ابھرے گی ۔ شاید وہ خوش فہمی کا شکار ہیں ۔ سبب اس کایہ ہے کہ وہی بے ڈھنگی چال جو پہلے تھی سو اب بھی ہے ۔ مرض کا اگر علاج نہ کیا جائے تو محض مقوی دوائیں اورفقط ورزش صحت یاب نہیں کرسکتیں ۔
ہمیشہ ہر بار کپتان سے عرض کیا کہ پارٹی حکومت سے زیادہ اہم ہوتی ہے ۔ اگر اس کی جمہوری تشکیل ہو سکے ، اگر چند ہزار کارکن تربیت پا سکیں ۔ اگر بنیادی قومی مسائل پر عرق ریزی کا سلسلہ برپا رہے ۔ اگر لیڈر کی بجائے عنان ایک نظام کو حاصل ہو۔ پارٹی کو اگر ایک آدمی اور خاندان کے گرد گھومنا ہے تو وہ اسی کی خوبیوں اور خامیوں ، اسی کی استعداد اور مہارت کا پرتو ہو گی۔ پیپلزپارٹی بہت بڑی تھی ۔ اس کی پشت پر شہیدوں کا خون تھا۔ بار بار ابتلا اور امتحان سے گزرنے والے اس کے کارکن ایک ملک گیر برادری بن گئے تھے ۔ اس کے باوجود آصف علی زرداری نے اسے دفن کر دیا۔ خوشامدیوں نے ان کا ہاتھ بٹایا اور اب بھی بٹا رہے ہیں ۔ دیہی سندھ میں ان کے حریف ناکردہ کار ہیں۔ الیکشن کاموسم آیاتو صورتِ حال شاید بدلنے لگے ۔ ظلم، بد انتظامی اور کرپشن کی کوئی حد نہیں ۔ ہر عمل کا ایک ردّعمل ہوا کرتاہے۔یہ قدرت کا ابدی قانون ہے ۔
مقابلتاً نون لیگ اب بہت طاقتور ہے ۔ا س لیے نہیں کہ کوئی کارنامہ اس نے انجام دیا ہے بلکہ اس لیے کہ حریف اس کے نالائق ہیں ۔ حادثات سے گزرنے والا شریف خاندان آج پر عزم ہے ۔ نئی نسل کو اپنی وراثت منتقل کرنے پر تلا ہوا ۔ میڈیا سے نمٹنا اس نے سیکھ لیا ہے ۔ سیاسی تجربہ تیس برس کو محیط ہے ۔ سرمایے کی فراوانی ہے ۔پولنگ کے سارے حربے وہ جانتا ہے۔ موزوں امیدواروں کی بہتات ۔ اس راز کو اس نے پالیا ہے کہ پاکستانی معاشرہ رشتوں ،اور تعلقات کا ، سرپرستی کے ایک نظام، Kinship کا معاشرہ ہے۔ پی آئی اے میں ہڑتال کا اعلان ہوا تو صاف نظر آتا تھا کہ وہ ناکام رہے گی۔ پیپلز پارٹی اور عمران خان یہ بات سمجھ سکے او ر نہ دانشور ۔ اب وہ اپنے زخم چا ٹ رہے ہیں ۔
نون لیگ کا مقابلہ سہل نہیں ۔ گلگت بلتستان کے ا لیکشن سے قبل تحریکِ انصاف کے رہنمائوں سے عرض کیا تھا کہ ناموزوں لیڈروں کو ذمہ داری سونپی ، قیمتی وقت انہوں نے کھو دیا۔ اب کچھ حاصل نہ ہوگا۔ آزاد کشمیر کے لیے مضمون واحد ہے ۔ بہت آسانی سے پی ٹی آئی دوسری بڑی جماعت بن کے ابھر سکتی تھی ۔ مگر پارٹی پر توجہ دی گئی اور نہ امیدواروں کی تلاش پر ۔ اب بھی نہیں ۔ تازہ اطلاع یہ ہے کہ دس اضلاع کے عہدیدار بدلے جار ہے ہیں ۔ نامزد وہ کیے جائیں گے ، جو قابلِ قبول نہ ہوں گے ۔ اپنی غلطیوں سے اگر آدمی سیکھ نہ سکے تو ناکامی کے سوا اس کے مقدر میں کیاہوگا؟
شریف خاندان کو بہ ایں ہمہ اس مغالطے میں مبتلا نہ ہونا چاہئیے کہ دائم وہ کوس لمن الملک بجاتا رہے گا ۔آخر کار جدید جمہوری اصولوں پر استوار ایک نئی سیاسی جماعت متبادل بن کر ابھرے گی۔تب اس کا دبدبہ برف کی طرح پگھل جائے گا۔1993ء اور 1999ء ، دو بار وہ اکھاڑ کر پھینکے گئے ۔ اب بھی روش وہی ہے ۔ شوکت خانم ہسپتال کی توسیع روکنے کی احمقانہ کوشش۔ فوجی قیادت ناخوش ہے کہ قبائلی مہاجرین کے لیے مختص رقوم پرزاہد و متقی اسحٰق ڈارسانپ بن کر بیٹھے رہے ۔ کتنے دن وہ روک سکتے ہیں ؟
ڈاکٹر ہانمن نے کہا تھا :بیماری کی بنیاد مریضانہ خیالات پر ہوتی ہے ۔ کاروبارِ حیات میں ہر کہیں ایسا ہے ، سیاست میں بھی ۔ ابرہام لنکن کا وہی قول : سب لوگوں کو کچھ دن کے لیے بے وقوف بنایا جا سکتاہے ، کچھ کوہمیشہ کے لیے مگر سب کو مستقل دھوکہ دینا ممکن ہی نہیں ۔ مشتری ہوشیار باش!