کون کہتا ہے کہ پاکستان کا کوئی مستقبل نہیں۔ ایک ملک شیطان نے بنایا، اسرائیل اور ایک رحمن نے‘ پاکستان۔رحمن کا دیار سربلند ہو کر رہے گا۔ ستمگر خاک چاٹیں گے۔ میر فضلی یہ کہتے ہیں: پاکستان ایک مجذوب ہے، جس نے اس پر ستم ڈھایا، اس کا انجام عبرتناک ہوا ۔
دس بج کر تئیس منٹ پر ڈاکٹر صاحب آ پہنچے۔ ناشتہ ابھی کرنا تھا۔ ملٹری کالج کے پرنسپل بریگیڈیئر رفیق یاد آتے ہیں۔ کہا جاتا تھا کہ اس ادارے کو انہوں نے دنیا کا، جی ہاں ساری دنیا کا سب سے اچھا کیڈٹ کالج بنا دیا۔ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کو 9بجے تشریف لانا تھا۔ آٹھ بجکر پچاس منٹ پر وہ آ پہنچے۔ اپنے کمرے میں بریگیڈیئر صاحب بیٹھے رہے ۔عالی مرتبت مہمان کو انتظار کرنا پڑا۔ جنرل آغا محمد یحیٰی خان بھی آئے۔ سلامی کے وقت وہ ٹانگیں پھیلائے کھڑے رہے۔ تب ایک گونجتی ہوئی آواز سنی گئی۔ Shun general اور جنرل وہیں سن ہو گیا۔کچھ واقعات سوانح عمری میں درج ہیں، کچھ نہیں۔ ایک صاحب ضمیر آدمی ایسا ہی ہوا کرتا تھا۔ اس دروازے پر لیکن ایک درویش تھا۔ التجا ہی ان سے کی جا سکتی تھی۔ اگر اجازت ہو تو ناشتہ کر لوں؟ وہی میٹھی موہنی آواز ''جی ہاں، جی ہاں‘‘۔ ایک اجلا آدمی!
برستی بارش کی بوندوں نے لاہور کو دھو ڈالا تھا۔ سید علی ہجویری ؒنے‘ تاریخ کو جنہیں داتا گنج بخشؒ کے نام سے یاد رکھنا تھا، یہ لکھا ہے:ٹیلے پر چڑھ کر میں نے شہر پر نظر کی۔ چاروں طرف پھیلا ہوا سبزہ اور دریا کے پانیوں کو چھو کر آتی ہوئی تازہ ہوا۔ اقبال نے کہا تھا ؎
اے باد بیابانی مجھ کو بھی عنایت کر
خاموشی و دل سوزی سر مستی و رعنائی
محمود غزنوی اور ایاز کا لاہور، جو شریف خاندان تک پھلتا پھولتا رہا اور اب بستر مرگ پہ ہے۔ برسات کے اس دن کی یاد شیخ ہجویری ؒکے نہاں خانہ خیال میں ہمیشہ گونجتی رہی۔ فرمایا: خود سے میں نے کہا‘ فقیر تو ایک فریب خوردہ ہے۔ اس دیار کے جمال نے تجھ کو تجھ سے چھین لیا۔ گمان تجھے یہ ہے کہ تو روشنی بانٹتا ہے، حالانکہ نفس نے تجھے دھوکہ دیا۔ سامان سمیٹا اور چل دیئے۔ کب گئے اور کب لوٹ کر آئے، کوئی ذکر تاریخ میں نہیں، مگر یہ گمان ہی تھا۔ درویش وہ ہوتا ہے، دوسروں کو رعایت دینے پر جو ہمیشہ آمادہ ہو، خود کو کبھی چھوٹی سی رعایت بھی نہ دے۔
اپنے عالی قدر مہمان سے جنیدِ بغداد نے سوال کیا:''دلاوری کیا ہے‘‘۔ فرمایا :'' دلاوری یہ ہے کہ آدمی اپنے فرائض تو سب کے سب پورے کر دے اور اپنے حق کا مطالبہ نہ کرے‘‘۔ صوفی نے جسے سیدا لطائفہ کہا جاتا ہے، اس پر اپنے شاگردوں سے یہ کہا:شیخ کے اکرام میں اٹھو، ایسی بات انہوں نے کہی ہے کہ زمین اس کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی۔
اقبالؔ یہ کہتے ہیں: تعجب اس پر نہیں کہ دو بادشاہ ایک محل میں سما نہیں سکتے‘حیرت اس پر ہے کہ ایک فقیر دو عالم میں کس طرح سما جاتا ہے۔ خلق خدا مغالطے کا شکار ہے۔ فقیر پوشاک سے پہچانا جاتا ہے اور نہ ترکِ دنیا سے۔ اس کی شناخت اس کا عمل اور علم ہے۔ بلھے شاہ کو اصرار تھا کہ شیطان نہیں یہ آدمی کا نفس ہے، جو اسے گمراہ کرتا ہے‘ قول و فعل کا تضاد۔کتابوں سے نہیں، علم صحبت سے عطا ہوتا ہے۔ اپنے درون میں اترنے سے۔ ایک اور ارشاد یہ ہے کہ جب تک دودھ کو ''جاگ‘‘ نہ لگے، دہی نہ بنے گا۔ اپنے مرشد کی مدح میں وہ یہ کہتے ہیں ع
عرش منور بانگاں ملیاں سنیاں تخت لاہور
حضرت سلطان باہو تو ایک عارف تھے۔ صوفی شاعر کہلانے والوں کی عظیم اکثریت سالک نہیں متصوف تھی۔ بلھے شاہ ہوںیاوہ نادرِ روزگار شاعر ‘اہل سلوک کے ہم نشین۔ سلطان باہو کا اعزاز یہ ہے کہ اقبال نے اس کی زمین میں غزل کہی۔ خواجہ غلام فرید کا بھی انہیں اکرام تھا۔ حیرت سے انہوں نے کہا تھا:وہ قوم اقبال کو کیوں پڑھے گی جس میں فرید ایسا شاعر موجود ہو۔ بلھے شاہ اور میاں محمد بخش، خواجہ غلام فرید اور سلطان باہو۔ افسوس کہ ہم انہیں کبھی نہیں پڑھتے؛ اگر آشنا ہیں تو گلوکاروں کے حوالے سے۔ مولانا روم نے عطار پہ رشک کیا تھا ؎
ہفت شہر عشق در عطار گشت
میں ہنوز اندر خم یک کوچہ ایم
عطار نے عشق کے سات دیار کھنگال دیئے۔ میں تو ابھی کوچے کے ایک موڑپر ششدر کھڑا ہوں۔
خواجہ مہر علی شاہ کا قول یہ ہے: وہ عظیم صوفیوں کے سلسلے کی آخری کڑی تھے۔ پاکیزہ خیال تجلّی برقی عارضی ہے۔ ہر اچھے خیال کو اگر تھام لیا جائے تو تجلّی برقی دائمی کا حصول ممکن ہے۔
سیدنا علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا: ''حکمت فاسق کے سینے میں بھی ہوتی ہے مگر وہ بے چین رہتی ہے، جب تک کہ مومن کے دل میں نہ جا اترے‘‘۔
قرآن سوال کرتا ہے: لم تقولون مالاتفعلون۔ وہ بات تم کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں۔ ہارون خواجہ نے قرآن کریم تین حصوں میں بانٹ کر مرتب کر دیا ہے۔ قوانین، اخلاقیات اور وہ آیات جو حسنِ بیان کا معجزہ ہیں۔ فی سحاب المسخر بین السماء والارض لآیات القوم یعقلون‘‘ اس بادل میں جو آسمان اور زمین کے درمیان معلق ہو جاتا ہے، غور کرنے والوں کے لیے نشانی ہے۔
ڈاکٹر امجد ثاقب بھی اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہیں۔ افسر بھی کیا ایسے ہوتے ہیں کہ خلقِ خدا کا درد پالیں اور عمر بھر اس کی آبیاری کرتے رہیں۔ زندگی کو شاعر نہیں پاتے اہل عمل پاتے ہیں۔ اللہ کی کتاب کہتی ہے ‘شاعر تو خیالات کی وادیوں میں بھٹکتے رہتے ہیں۔ سرسید کی موت پر اکبر الٰہ بادی نے یہ کہا تھا ؎
ہماری سب باتیں ہی باتیں ہیں سید کام کرتا تھا
نہ بھولو اس کو فرق جو ہے کہنے والے کرنے والے میں
اخوت کالج، اخوت کا صدر دفتر، اخوت کا کلاتھ بینک، بارش سے دھلے اس دن میں یہ ایک خیرہ کن تجربہ تھا۔ اسے جذب کر سکوں تو بیان کروں۔ ابھی تو کوچے کے خم پر حیران کھڑا اور اقبال کو یاد کر رہا ہوں: ''جہاں کہیں بھی روشنی ہے، مصطفیٰؐ کے طفیل ہے یا مصطفیٰؐ کی تلاش میں‘‘۔ اپنے اساتذہ، اپنے مسالک اور اپنے پیشوائوں کے اسیر۔ایک بات بعض لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتی۔ رحمتہ للعالمین سے محبت کے بغیر، رب العالمین کے ادراک کا دروازہ نہیں کھل سکتا۔ فرمایا: وہ معطی اور میں قاسم۔ عطا کرنے والا وہ ہے اور بانٹنے والا میں ہوں۔یہ جو اخوت نام کا ایک باب رحمت ہے، دس لاکھ پاکستانیوں کو جو بلا سود قرضوں سے برسرروزگار کر چکا، یہ جو کالج ہے، جو ملٹری کالج جہلم کی یاد دلاتا ہے، جس میں چار صوبوں اور قبائلی پاکستان کے طلبہ کا تناسب ہے 20 فیصد ۔افتادگان خاک جو انشاء اللہ آسمان کو چھوئیں گے۔ یہ جو فیصل آباد میں بائیو ٹیکنالوجی یونیورسٹی کی ابتدا ہے۔ یہ جو نواح لاہور میں ایک یونیورسٹی کا کیمپس زیر تعمیر ہے۔ یہ سب کرامات، ایک خیال کی ہیں۔ مواخات مدینہ پر امجد ثاقب نام کے اس آدمی نے غور کیا اور آپ کے ایک قول مبارک پر: ''خیرات کی دس نیکیاں ہیں اور قرض حسنہ کی اٹھارہ‘‘ ۔کالج کا احوال لکھوں گا۔ انشاء اللہ جامعہ کا بھی۔ فی الحال ایک شعر سن لیجیے ؎
آپ ان کے لیے بھی رحمت ہیں
جو زمانے ابھی نہیں آئے
کون کہتا ہے کہ پاکستان کا کوئی مستقبل نہیں۔ ایک ملک شیطان نے بنایا، اسرائیل اور ایک رحمن نے‘ پاکستان۔رحمن کا دیار سربلند ہو کر رہے گا۔ ستمگر خاک چاٹیں گے۔ میر فضلی یہ کہتے ہیں: پاکستان ایک مجذوب ہے، جس نے اس پر ستم ڈھایا، اس کا انجام عبرتناک ہوا ۔