حیرت سے میں نے سوچا: لاہور میں کچھ لوگ یکجا ہو رہے ہیں اور کراچی میں بھی۔ اُفق پر چراغاں ہونے والا ہے؟ ؎
دنیا رہی خوابیدہ، خورشید نے شب بھر میں
پورب سے شفق لے کرپچھم میں بچھا ڈالی
دیدۂ سعدی و دل ہمراہِ تست،تانہ پنداری کہ تنہا می روی
مجھے تو وہ آدمی اس سے یکسر مختلف لگا، جیسا وہ اخباری تجزیوں میں دکھائی دیتا ہے۔ اندازے ہیں، درست بھی ہوتے ہیں اور نا درست بھی۔ بات وہ کہنی چاہیے جو دل لگتی ہو۔ ان کا خیال یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اس کی پشت پناہ ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس کی پشت پر فقیر کا ہاتھ ہے...اور ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ وہ ناکام ہو جائے گا۔ اس ناچیز کا احساس یہ ہے کہ وہ پہلے ہی کامیاب ہو چکا... اور شاد ہے ؎
حاصلِ عمر نثار رہِ یارے کر دم
شادم از زندگیٔ خویش کہ کارے کر دم
زندگی بھر کا حاصل، یار پہ قربان کر دیا۔ شادماں ہوں کہ بڑا کام کر دکھایا۔کیا چیزہے جو انسانوں کو بدل ڈالتی ہے۔ اس نادر روزگار آدمی عطاء بن ابی رباحؒ سے ملاقات کے بعد، 14سو برس پہلے جو حرم میں بیٹھا رہتا، سلیمان بن عبدالملک نے یہ کہا تھا:علم حاصل کرو کہ وہ غلام کو آزاد، گمنام کو نامور اور ناتواں کو طاقتور بناتا ہے۔آپؐ نے فرمایا:موتوا قبل ان تموتوا۔ مرنے سے پہلے ہی مر جائو۔
نپولین کا سپاہی دشمن کا علم اتار کر لایا۔ فاتح نے کہا: تم تو بری طرح گھائل ہو۔ اس نے جواب دیا:جہاں پناہ، میں مرچکا ، فقط یہ جھنڈا آپ کے حوالے کرنے تک زندہ ہوں۔
آدمی خود کو جب دریافت کر لیتا ہے تو ایک بے کراں ولولہ جاگ اٹھتا ہے۔ ہو اگر خود نگرو خودگرو خودگیر خودی/ یہ بھی ممکن ہے کہ توموت سے بھی مر نہ سکے۔ مشرق کے عظیم المرتبت شاعر نے یہ بھی کہا تھا ؎
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دو میں
پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا
کہا: تعجب اس پر نہیں کہ دو بادشاہ ایک سلطنت میں سما نہیں سکتے۔ حیرت اس پر ہوتی ہے کہ ایک فقیر دو عالم میں کیسے سما جاتا ہے۔
چھ ماہ سے زائد ہوتے ہیں۔ ٹیلی فون کی سکرین پر ایک شب دبئی کا ایک نمبر نمودار ہوا۔ یہ مصطفی کمال تھے۔انہوں نے یہ کہا: میں نے تو کبھی آپ کو پڑھا ہی نہ تھا۔ اپنے ماحول کے زیر اثر میں آپ کو دشمن سمجھتا تھا۔ دیکھنا شروع کیا تو آنکھیں کھل گئیں۔ آئندہ چند ماہ کے دوران درجنوں بار ان سے بات ہوئی۔ ہر بار تفصیل کے ساتھ۔ بلا کم و کاست اپنی روداد انہوں نے بیان کر دی۔ پرسوں پرلے روز منظرِ عام پر آئے تو خوشگوار حیرت ہوئی کہ الفاظ تک وہی تھے۔ ؎
عاقبت منزلِ ما وادیٔ خاموشان است
حالیہ غلغلہ درگنبد افلاک انداز
آخر کار قبر میں جا سونا ہے۔ کیوں نہ آواز بلند کی جائے اور اس طرح کہ آسمان تک پہنچے۔ یہ اقبالؔ نے کہا تھا۔ مصطفی کمال نے یہ کہا: خود سے میں نے سوال کیا: ''کب تک، آخر کب تک؟ ایک دن اللہ کے حضور حاضر ہونا ہے۔ میں اسے کیا جواب دوں گا۔ صبر کا پیمانہ لبریز تھا اور کوئی چیز اندر سے کھائے جاتی ۔آخر کار فیصلہ کر لیا۔‘‘
دل عشق کے دریا میں ڈالا
بِسم اللہِ مجرِہا ومُرسٰہا
دعویٰ یہ ہے کہ کراچی کے ہوائی اڈے پر استقبال کا اہتمام تھا۔ اس نے مجھے بتایا: نصف شب کی پرواز سے ہم آئے اور قصد کو خفیہ رکھا۔ ہوائی اڈے پر ایک ذاتی دوست نے خیر مقدم کیا۔ کرائے کا مکان پہلے سے لے لیا گیاتھا۔ 25فروری کو ایک خاندان نے خالی کیا۔ مالکِ مکان کو یہ تک نہ بتایا گیاکہ کون اس میں قیام کرے گا۔ اندیشہ تھا کہ انہیں پتہ چل گیا تو کام تمام کر دیں گے۔ ''ایک قاتل، جس کے ہاتھ میں سبزی کاٹنے والی چھری ہو۔‘‘
آسودہ.... اس قدر آسودہ کہ آدمی حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔ کس کے ایما پر ایسا خطرناک قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا اور کس امید پر؟ اپنی حفاظت کے لیے اسے وہ دعا پڑھنی چاہیے، جو صوفیاء تعلیم کرتے ہیں، جو اللہ کی کتاب میں لکھی ہے:''اِنَّ ربی علیٰ کل شیٔ حفیظ‘‘ ۔کہا: آپ بھول گئے، مدتوں پہلے آپ نے تلقین کی تھی۔ تب سے ناغہ کبھی نہیں ہوا۔ کچھ اور تسبیحات بھی پابندی سے پڑھتا ہوں۔ اس کا لہجہ دل گداز ہو گیا۔ آواز جیسے بدل گئی اور کہا: درویش کا کیا حال ہے؟ پھر انکشاف کیا کہ ازراہ کرم کسی کے ہاتھ انہوں نے دعائیں لکھ بھیجی تھیں۔ باری تعالیٰ کے اسماء گرامی اور وہ مناجات جو ابوالقاسمﷺکی زبان سے ادا ہو کر بابرکت ہو چکیں:
یا سلام یا مومن یا اللہ۔ یا رحمن یا رحیم یا کریم۔ یا ولی یا نصیر۔اللھم انی اسئلک العفو والعافیہ فی الدنیا والآخرۃ۔
اے قرار عطا کرنے والے رب، اے رحمن، اے رحیم، اے کریم، اے سائبان، اے مددگار۔ اے میرے مالک، دنیا اور آخرت میں، میں تجھ سے عافیت کا سوال کرتا ہوں۔
جسے اللہ رکھے، اسے کون چکھے۔ ڈیفنس کراچی کے اس مکان میں ایک چوکیدار کے سوا حفاظت کا کوئی انتظام نہ تھا۔ خبر پا کر اتنے میں پولیس افسر آیا، دو گاڑیوں کے ساتھ۔ اس کے ہم نفس انیس قائم خانی نے پولیس افسر سے کہا: اس انتظام کا شکریہ۔ گھر میں داخل ہونے والوں کی مگر تلاشی نہ لی جائے۔ انہیں روکا نہ جائے۔ ہم سیاسی کارکن ہیں اور بڑے لوگوں کی طرح خلوت گزیں نہیں ہو سکتے۔
بڑے دروازے کے سامنے کیمروں کی ایک قطار۔ انٹرویو کرنے کے آرزو مند اخبار نویسوں کا ہجوم۔ عرض کیا: لگاتار اظہار موزوں نہیں۔ جواب ملا: کیا کریں، اصرار کرنے والوں کا اصرار شدید ہے۔ وہ مانتے ہی نہیں۔
بلندی سے لڑھکتی ہوئی ندی جیسے خود کو تھام نہیں سکتی۔ بے تکان مگر رسان اور آمادگی کے ساتھ۔ ایک کے بعد دوسرے وقائع نگار کو اپنی کہانی وہ سناتا رہا۔ شاعر کا ساحال نہ تھا: ؎
دو حرف تسلی کے جس نے بھی کہے، اس کو
افسانہ سنا ڈالا، تصویر دکھا ڈالی
چھپانے کے لیے اس کے پاس کچھ ہے ہی نہیں۔ چھپانا وہ چاہتا ہی نہیں ۔ اک ذرا چھیڑ تو دے تشنۂِ مضراب ہے ساز/نغمے بے تاب ہیں تاروں سے نکلنے کے لیے۔
کہا: بوجھ دل پر بہت تھا، مافیا کو خیر باد کہنے میں خطرات بہت تھے مگر دل باغی ہو گیا اور ماننے سے اس نے انکار کر دیا۔ ہجرت کرنا ہو گی۔ بیوی بچوں کو بتا دیا کہ مشکلات سے گزرنا ہو گا۔ دو ماہ آرلینڈو امریکہ میں ایک دوست کی میزبانی میں گزارے۔ ضرورت کی ہرچیز جس نے ایک شاندار مکان میں جمع کر دی تھی۔ تلاش رزق کے لیے پھر دبئی کا رخ کیا۔ ایک مشترکہ دوست نے بحریہ ٹائون کے ملک ریاض کو بتایا۔ انہوں نے سمندر پار منصوبوں کی نگرانی سونپ دی۔ بعد ازاں، کراچی میں تعمیرات کی۔ وہیں بیٹھے بٹھائے ان پر نگاہ رکھنی تھی۔ خطرات کے بادل ٹل گئے۔ زندگی آسودہ ہو گئی۔ بس ایک ذمہ داری باقی رہ گئی۔ شہر والوں کو، اہلِ وطن کو داستان سنا دی جائے اور پوری داستان۔
''اور اب ؟‘‘
''اپنا فرض میں نے ادا کر دیا۔ اس سے زیادہ میں کچھ چاہتا نہ تھا۔ حیرت انگیز یہ ہے کہ پذیرائی ہوئی اور اتنی پذیرائی کہ تصور بھی کیا نہ تھا‘‘۔ پھر وہ رکا، ''اسلام آباد سے آپ مجھے ملنے آئے ہیں۔ میرے پاس الفاظ نہیں کہ شکریہ ادا کروں۔ پہلی بار آپ آئے۔ شرمندہ ہوں کہ تواضع نہ کر سکا۔‘‘
ایک مکالمہ دہراتے ہوئے جو فرزند اور باپ کے درمیان تھا، رقت نے اسے آ لیا۔ مصطفی خود بھی رویا، اورملاقاتی کو بھی رُلا دیا... تم پر خدا کی رحمت ہو مصطفی، منتخب اور محبوب۔ جس کا کوئی چارہ گر نہ ہو، وہ اس کا چارہ گر ہوتا ہے۔
حیرت سے میں نے سوچا: لاہور میں کچھ لوگ یکجا ہو رہے ہیں اور کراچی میں بھی۔ اُفق پر چراغاں ہونے والا ہے؟ ؎
دنیا رہی خوابیدہ، خورشید نے شب بھر میں
پورب سے شفق لے کرپچھم میں بچھا ڈالی
دیدۂ سعدی و دل ہمراہِ تست،تانہ پنداری کہ تنہا می روی