"HRC" (space) message & send to 7575

کراچی سے کچھ چونکا دینے والی خبریں

قدرت کے اشارے ہیں کہ پاکستان دلدل سے نکل رہا ہے۔ جو سمجھ نہیں رہے ہلاک وہ ہوں گے ‘ انشاء اللہ قوم نہیں۔
کراچی بدل رہا ہے۔پورا سندھ۔ درحقیقت پورا پاکستان۔ سندھ حکومت رخصت ہو سکتی ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت اور رینجرز میں تعلقات کار قائم ہوں۔ دوسرا امکان موجود ہے اور اس پر جلد ہی پیش رفت ممکن ہے۔ دوسری طرف اپوزیشن پارٹیاں نئی حکومت کے لیے مشاورت کا آغاز کر چکیں۔ بحث جاری ہے کہ وزیر اعلیٰ کس پارٹی سے لیا جائے گا۔ یہ بھی کہ ایم کیو ایم کو شامل کرنا چاہیے یا صرف پیپلز پارٹی کے باغی۔ پیر صاحب پگارا شریف کا کہنا یہ تھا کہ ہزاروں مقدمات وہ بھگت رہے ہیں، فنکشنل لیگ کے کارکنوں پر جھوٹے مقدمات۔ جرم ان کا یہ ہے کہ انہوں نے زرداری صاحب کی طرف سے پانچ ارب روپے کی پیش کش ٹھکرا دی تھی، الیکشن 2013ء سے قبل۔ ان کے بقول:وزارت اعلیٰ کے وہ حقدار ہیں۔ اس لیے بھی کہ بدترین حالات میں انہوں نے وفاق کا ساتھ دیا اور سب جانتے ہیں کہ قومی سلامتی ان کی ترجیح ہے۔ ایک دلیل ان کی یہ بھی ہے کہ سندھی عوام نے علاقائی پارٹیوں کو کبھی ووٹ نہیں دیا ‘''رسول بخش پلیجو کے سوا‘‘۔ایک بار انہوں نے اس اخبار نویس سے کہا تھا :''وہ بے سروپا باتیں کرتے ہیں‘ زمینی حقائق سے بے خبر لوگ‘‘ ۔ان کا مؤقف یہ ہے کہ ایم کیو ایم کو نئے ڈھانچے میں شامل کرنا چاہیے۔ شہری سندھ کو الگ تھلگ کیسے کیا جا سکتا ہے۔ حکمت عملی یہ ہونی چاہیے کہ ازخود وہ لوگ الطاف حسین سے نجات پا لیں۔ ان کے حقوق اور امنگوں کا احترام کیا جانا چاہیے۔ 
الطاف حسین بیمار ہیں۔ عدالتی حکم کے مطابق ہر پندرہ دن کے بعد ان کی صاحبزادی ملاقات کے لیے لندن جاتی ہیں تو اکثر اپنے والد کو وہ سویا ہوا پاتی ہیں، خواہ یہ دن ہو۔ بستر پہ وہ لیٹے رہتے ہیں۔ آنکھ کھول کر نورِ نظر کو دیکھتے ہیں، پھر غنودہ ہو جاتے ہیں۔ کچھ دیر میں جاگتے ہیں تو سوال کرتے ہیں: بٹیا، تم کب آئیں؟ پائوں میں گنگرین ہے۔ چھڑی کی مدد سے اور دوسروں کے سہارے چند قدم بھی مشکل سے وہ چلتے ہیں۔ ذہنی حالت بھی اچھی نہیں۔ حال ہی میں کارکنوں سے انہوں نے خطاب کیا تو خواتین کی موجودگی میں ایسی غیر متعلق اور نازیبا قسم کی گفتگو فرمائی کہ نقل نہیں کی جا سکتی۔خدائی کا جو خواب انہوں نے دیکھا تھا، وہ پریشان ہے۔ بہت پہلے انہیں ادراک ہونا چاہیے تھا کہ ؎
بڑھتے بڑھتے حد سے اپنی بڑھ چلا دست ہوس
گھٹتے گھٹتے ایک دن دست دعا رہ جائے گا
ایم کیو ایم کے مخالفین میں بلوغت فکر کے کچھ آثار ہیں۔ اس لسانی تنظیم کے وجود کا کچھ جواز ہے، ان کی سمجھ میں آنے لگا ۔ دوسروں نے اگر سندھی ‘ پنجابی ‘ پشتون اور بلوچ بن کر سوچا تو مہاجرفرشتے کیوں بنتے؟ ایم کیو ایم باقی رہ سکتی ہے۔ پھل پھول بھی سکتی ہے، اگر منفی رویوں سے نجات پا لے۔
''را‘‘ سے تعلقات کا چونکا دینے والا اور سنگین باب الگ۔ جو سلوک اپنے ساتھیوں سے الطاف حسین نے روا رکھا۔ ملک کے بارے میں جو رویہ انہوں نے اپنایا۔ قومی افواج کے بارے میں جو طرزِ عمل اختیار کیا، اس کے نتائج سامنے ہیں۔ مصطفی کمال اور انیس قائم خانی محض دو افراد نہیں، ایک عزم اور منصوبہ ہیں۔ زندگیاں دائو پر لگا دیں۔ ڈاکٹر فاروق ستار جرأت کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؛ با یں ہمہ جب رینجرز کی قیادت سے تنہائی میں ملتے ہیں تو معمول سے کہیں زیادہ شائستہ اور مؤدب رہتے ہیں۔ حیدر عباس رضوی کا حال بھی یہی ہے۔ عشرت العباد کو الوداع کہا جا چکا۔ ڈاکٹر صغیر نے بغاوت کر دی۔ ایم کیو ایم کی قیادت جانتی ہے کہ اس کی اعلیٰ ترین سطح پر بیزار اور باغی رہنما موجود ہیں۔ مولا بخش چانڈیو اور خورشید شاہ تک کو ادراک ہونے لگا کہ متحدہ کے اندر شکست وریخت ہے۔ اپنی جماعت میں بھی۔
پیپلزپارٹی کے معاملات ادی فریال تالپور کے ہاتھ میں ہیں۔ وہ ایک پیدائشی سیاستدان ہیں۔ ان کے اعصاب اپنے بھائی سے زیادہ مضبوط ہیں۔ دو بجے بلاول بھٹو سے ان کی ملاقات تھی۔ ایک بجے ان کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھایا۔وزیر داخلہ سہیل سیال بھی موجود تھے۔ ان سے ادی نے پوچھا:ہارون الرشید کے فلاں دوست کو کیوں مدعو نہیں کیا۔ انہوں نے معذرت کی اور کہا: میرا خیال تھا کہ وہ اس کے ساتھ آئیں گے۔ حیرت ہوئی، ادی نے چالیس سالہ آدمی سے کہا: ایسی عدم توجہی اچھی نہیں بٹیا!
ہاں! عمر میں ان سے بارہ چودہ سال وہ بڑی ہوں گی۔ کچھ کم یا زیادہ ۔نازیبا تھا کہ ان سے سوال کیا جاتا۔ ایک ملاقات دو دن پہلے شب کو ہوئی تھی‘ جب دن بھر کی ریاضت کے بعد اخبار نویس نڈھال 
تھا۔ پوچھا تو آزاد کشمیر میں بہتر پارلیمانی بورڈ اور عسکری قیادت سے اچھے تعلقات کا مشورہ دیا۔ کہا :لیڈر تو بلاول ہیں ۔ہم بوڑھے ہوتے جا رہے ہیں۔سینیٹر سعید غنی طعام میں شریک نہ ہوئے۔ ہمیشہ کے دھیمے لہجے میں کہا :نماز پڑھنی ہے۔ اجازت دیجیے کہ بلاول بھٹو کے ہاں اجلاس میں شریک ہو جائوں۔ سہیل سیال کو سرپرستی حاصل ہے۔ عتاب نہیں‘ یاددہانی تھی۔ سعید غنی پراعتماد تھے کہ سلیقہ مند ہیں۔ آزاد کشمیر کے پارلیمانی بورڈ میں شامل راجہ پرویز اشرف اور لطیف کھوسہ کے بارے میں سوال کیا کہ کشمیر کی برادریوں کو کیا وہ جانتے ہیں؟ کراچی اور پنجاب میں انتخابی امکانات کیا ہیں؟ عرض کیا کہ مظفر آباد میں مرکزی حکومت کے حامی براجمان ہوا کرتے ہیں ۔لطیف کھوسہ پر انہوں نے اعتماد کا اظہار کیا۔ پرویز اشرف کا ذکر نہ کیا۔ پنجاب سے کچھ زیادہ امید ادی کو نہیں۔کراچی کی دونوں سیٹیں وہ جیت لیں گی۔ اتفاق کیا کہ اسلام آباد کا اقتدار الیکشن کو متاثر کرتا ہے۔کہا:ٹکٹیں میں خود دوں گی۔ ذہنی طور پر آزاد کشمیر میں نون لیگ کی کامیابی کے لیے وہ تیار ہیں مگر ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا پختہ ارادہ بھی ۔ عمران خان کی انتخابی مہم کا انہوں نے ذکر تک نہ کیا۔ میں حیران ہوتا رہا کہ بلاول بھٹو میدان میں کیوں نہیں نکلتے۔ کارکنوں کے ساتھ رابطے میں وہ کیوں نہیں ۔ پارٹی کو منظم کرنے کے سنہری مواقع کیوں ضائع کر رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ کو کیا ادراک ہے کہ عمران خان کے بھر پور عوامی جلسوں سے فضا بدل سکتی ہے۔ اگر ڈھنگ کا پارلیمانی بورڈ انہوں نے بنا دیا، اگر کچھ مقبول امیدوار مل گئے؟ نون لیگ کی نہ سہی‘ پختون خوا اور پنجاب میں پیپلز پارٹی کی بساط انہوں نے لپیٹ دی تھی۔
امریکہ سے اطلاعات یہ ہیں کہ زرداری صاحب تھکے ماندے ہیں۔ مایوس بلکہ ڈپریشن کا شکار۔ واپسی کا فی الحال کوئی ارادہ نہیں۔ رات بھر جاگتے اور وقفوں کے ساتھ دن میں کئی بار آرام کرتے ہیں۔ خواہش ان کی یہ ہے کہ میاں صاحب اور عسکری قیادت سے صلح ہو جائے۔
عسکری قیادت دانا ہے تو پیپلز پارٹی کے ساتھ سختی سے گریز کرنا چاہیے۔ بات ادی سے کرنی چاہیے۔سب سے اہم دہشت گردی کا خاتمہ ہے۔ طالبان اور لشکر جھنگوی کے علاوہ یہ الطاف حسین کے حکم پر براہ راست حرکت میں آنے والے ''مجاہدین ‘‘ہیں،' را‘ جن کی ان داتاہے۔ مہاجروں کے لیے سیاست کا در چوپٹ کھلا ہے۔ پاکستانی سیاست سے انہیں الگ نہیں کیا جا سکتا۔ جواور جتنی بھی کارروائی ہے‘ وہ قانون اور آئین کے دائرے میں ہونی چاہیے۔
کور کمانڈر نوید مختار درد مند ہیں۔ مشاورت کا دائرہ وسیع رکھتے ہیں اور خود کو یاد دلاتے رہتے ہیں کہ مہلت مختصر ہے۔ ایک روز وردی‘ بیج اور چھڑی باقی نہ رہے گی۔ تربیت اچھی اور تحمل ہے۔ جنرل خوش قسمت ہے، جنرل بلال جیسا رفیق اسے ملا ہے۔ کراچی کو اب وہ اپنی ہاتھ کی لکیروں کی طرح پہچانتا ہے۔ قدرے جارحانہ مزاج کا مگر وہ ایک دیانت دار اور مخلص آدی ہے۔ ایسی شدید کشمکش کے باوجود پیپلز پارٹی کی قیادت ذاتی طور پر ان دونوں آدمیوں سے حسن ظن رکھتی ہے۔
سندھ بدل رہا ہے اور پورا پاکستان۔ دانشور مگر اس سوال میں الجھے رہتے ہیں کہ مصطفی کمال کیا اسٹیبلشمنٹ کے ایما پر بروئے کار آئے؟ پہلاسوال‘ کیا یہ امریکہ یا بھارت کی اسٹیبلشمنٹ ہے؟ کیا اس نے بے خوفی اور بہادری سے قومی بقا کی جنگ میں غیر معمولی فتوحات حاصل نہیں کیں۔ وہ تعاون اور محبت کے مستحق ہیں یا شک و شبہ کے۔ افواج اور عوام میں آویزش را کا ایجنڈا ہے جو افغانستان‘ بلوچستان اور قبائلی پٹی کے ذریعے پاکستان کو سرنگوں کرنے کا خواب دیکھ رہی ہے۔ مذہبی گروہوں میں اس کے کارندے موجود ہیں۔ جنرل جنجوعہ ہی نہیں‘ پوری عسکری قیادت کو اندازہ ہے کہ جو تخریب کار پاک بھارت سرحد عبور کرے گا‘ دراصل وہ بھارت کا مددگار ہو گا۔ کیا وزیر اعظم جانتے ہیں‘ ان کے اور بھارت کے حامی ترقی پسند اخبار نویس بھی؟ 
کائنات کے فیصلے چند لیڈروں کے ہاتھ میں نہیں ہوتے۔ انحصار سازشوں پرنہیں ہوتا۔ اللہ نے اپنی زمین شیطان کو نہیں سونپ دی۔ آئن سٹائن نے کہا تھا: دیکھنا یہ چاہیے کہ وہ ذات قدیم کیا چاہتی ہے۔ باقی تفصیلات ہیں۔ قدرت کے اشارے ہیں کہ پاکستان دلدل سے نکل رہا ہے۔ جو سمجھ نہیں رہے ہلاک وہ ہوں گے ‘ انشاء اللہ قوم نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں