"HRC" (space) message & send to 7575

ترازو

تلخ بات ہے مگر کیا کیجے۔ خیال آیا، سرکارؐ نے جان بوجھ کر حقیقت چھپانے والے کو گونگا شیطان قرار دیا تھا۔ اپنے آپ سے میں نے پوچھا‘اب بھی تمہارے پاس ایک ہی ترازو ہے ؟
وزیر آباد شہر میں ووٹوں کا فرق غیر معمولی طور پر کم ہو جانے کے باوجود حامد ناصر چٹھہ کے فرزند احمد چٹھہ ہار کیسے گئے؟ حلقۂ انتخاب سے بہت دور ناچیز ملتان میں تھا۔ شہرکے بیشتر نتائج سامنے آ چکے تو اندازہ یہ تھا کہ چٹھہ جیت جائیں گے۔ ٹیلی ویژن نے معرکے کو نظر انداز کیا کہ برسلز کے واقعہ نے دنیا کو دہلا دیا تھا۔ جسٹس افتخار چیمہ کے برادر خورد ڈاکٹر نثار چیمہ سے مختصر سی بات ہی ہو سکی۔ ذوالفقار چیمہ کو‘جو سرکاری افسر ہیں، فون کیا تو انہوں نے گریز سے کام لیا۔ ذوالفقار چیمہ نے برادر بزرگ سے درخواست کی تھی کہ وہ انتخابی سیاست سے دستبردار ہو جائیں، جس کا مطلب یہ تھا کہ سیاست ہی سے۔ دونوںچھوٹے بھائیوں نے 2008ء ہی میں گریز کا مشورہ دیا تھا۔ ان کا خیال یہ تھا کہ قومی اسمبلی کی سیٹ سے خاندان کی عزت میں کوئی اضافہ نہ ہو گا۔ان کے گرامی قدر مرحوم والد چوہدری محمد اسلم تحریک پاکستان کے مخلص کارکن تھے۔اگرچہ حامد ناصر چٹھہ کے بزرگوں کی طرح قائدانہ کردار نہ رکھتے تھے۔ اپنے گائوں میں اس قدر محبوب کہ 1946ء کے الیکشن میں 500میں سے ایک ووٹ بھی مسلم لیگ کے مخالف کو مل نہ سکا۔ خاندان کا کوئی فرد کسی عامی کے ساتھ زیادتی کرے توتنبیہ کرتے۔ ان کے بیٹوں نے ایک غریب گھرانے کے بچوں کو مارا پیٹا تو چوہدری نے چوک میں پنچایت برپا کی۔ قصور ثابت ہو گیا تو ان بچوں سے کہا کہ سب لوگوں کے سامنے ان سے بدلہ لیں۔
کہا جاتا ہے کہ قول کے دھنی تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ کنوں کا ایک باغ انہوں نے لگایا۔ پہلے برس پھل برائے نام ہوتا ہے اور بیچا نہیں جاتا۔ حسنِ اتفاق سے ان کے پودے لد گئے۔ کسی کے اصرار پہ چند ہزار روپے پرٹھیکے دار کو دے دیا۔ پودے عام طور پر پھل کا بوجھ نہیں اٹھاتے مگر یہ برقرار رہا۔ منافع سے للچائے دوسرے ٹھیکیداروں نے زیادہ رقم کی پیش کش کی۔ مشورہ دیا کہ بیعانہ واپس کیا جا سکتا ہے۔ ان کا جواب یہ تھا: اپنے وعدے سے آدمی منحرف کیسے ہو سکتا ہے۔ ایسا ہی ایک دوسرا واقعہ اس وقت پیش آیا جب جواں سال محمد افتخار بھی ضلع کونسل کے ممبر چن لیے گئے۔ دونوں طرف کے ووٹ برابر تھے اور چیئرمین کا الیکشن باقی تھا۔ مخالف دھڑے نے محمد افتخار کو نائب چیئرمین کے عہدے کی پیش کش کی جو کامران سیاسی زندگی کا سپنا دیکھنے والے نوجوان نے قبول کر لی۔ ان لوگوں کا خیال یہ تھا کہ اس طرح دو عدد ووٹوں کے ساتھ واضح برتری وہ حاصل کر لیں گے۔ چوہدری محمد اسلم کے سوا دونوں طرف کے لوگوں نے حلف اٹھا رکھا تھا اور کسی کے منحرف ہونے کا اندیشہ کم تھا۔ چوہدری نے حلف اٹھانے سے انکار کر دیا تھا۔ اس کو گوارا کیا گیا کہ وہ بات کے پکے ہیں۔ محمد افتخار نے امیدوار بن جانے کے بعد باپ کو مطلع کیا تو فرزند کو انہوں نے مبارک باد دی مگر ووٹ دینے سے انکار کر دیا ۔کہا کہ ایک مسلمان وعدہ کیسے توڑ سکتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا، آنکھ میں حیا نہیں ہوتی۔ یہ ایک مختلف خاندان ہے۔ پندرہ برس سے میرا ان کے ساتھ واسطہ ہے۔ ان کے سینوں میں دل ہیں اور آنکھوں میں حیا بھی۔ ذوالفقار چیمہ زیادہ مشہور ہیں۔ وہ ایک دیانت دار‘ نتیجہ خیز اور سخت گیر پولیس افسر کی شہرت رکھتے ہیں۔ 1996ء میں جب وہ رحیم یار خان کے ایس ایس پی تھے تو عمران خان وہاں گئے۔ ایک سے زیادہ بار انہوں نے کہا کہ اگر ایک تنہا پولیس افسر پورے ضلع سے نمٹ سکتا ہے تو سارے ملک میں کیوں نہیں۔ گوجرانوالہ کے ڈی آئی جی کی حیثیت سے انہوں نے اغوا برائے تاوان کا خاتمہ کر دیا‘ جو سہل نہ تھا۔ بڑی ریاضت کے ساتھ بیرون ملک بھاگ جانے والے ننھو گورایہ کو انٹرپول کی مدد سے وہ پکڑ کر لائے اور پولیس مقابلے میں مار ڈالا۔ شہریوں نے پولیس پر پھول برسائے۔ کچھ عرصہ بعد این اے 101میںضمنی انتخاب ہوئے۔ نون لیگ کا امیدوار بیلٹ باکس لے اڑا تو لیگی کارکنوں کو گرفتار کر کے انہوں نے پیپلزپارٹی کی کامیابی کا راستہ ہموار کر دیا، درآں حالیکہ وہ اس جماعت کے اور یہ جماعت ان کی مخالف تھی۔ اس پر شہباز شریف نے ان کا تبادلہ کر دیا‘ مگر وہ شاد تھے۔ دوسری بار ان کا تبادلہ گورنر سلمان تاثیر نے کیا ‘ جب2009ء میں پنجاب حکومت برطرف کی۔ لاہور کے ایک اخبار نے جسٹس افتخار چیمہ کی کردار کشی کی، جب قومی اسمبلی کے وہ ممبر منتخب ہو چکے تھے۔ معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچا تو برسرعدالت چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا: میں جسٹس چیمہ کی دیانت کی قسم کھا سکتا ہوں؛ چنانچہ اخبار کو معافی مانگنا پڑی۔
ڈاکٹر نثار چیمہ ہولی فیملی ہسپتال راولپنڈی کے سپرنٹنڈنٹ تھے تو اسے ملک کا بہترین سول ہسپتال سمجھا جاتا۔ اپنی نور نظر کے ساتھ بارہ دن میں نے اس فلاح گاہ میں گزارے‘ جس کی زندگی خطرے میں تھی؛ اگرچہ معجزانہ طور پر وہ صحت یاب ہو گئی۔ ہسپتال کے ماحول نے مجھے حیران کر دیا۔ کرپشن کیا سفارش کا یہاں گزر نہ تھا۔ جن محتاج مریضوں کا بوجھ سرکار نہ اٹھا سکتی، ان کے لیے ایک فنڈ قائم کیا گیا، شہری جس میں خوش دلی سے عطیات دیتے۔ ڈاکٹروں کی ایسی ٹیم، شاید ہی کہیں ہو۔ مستعد کپتان نے ایسا تحرک اور ولولہ ان میں پیدا کر دیا تھا۔ ایسے خلوص کے ساتھ وہ سرگرم دکھائی دیتے کہ بایدوشاید۔ مقامی ارکان اسمبلی کے ایما پر ڈاکٹر صاحب کا تبادلہ ہوا تو وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی کی زندگی اجیرن ہو گئی۔ راولپنڈی پریس کلب اور ضلع کونسل نے ان کے حق میں قراردادیں منظور کیں۔ یہ ناچیز بھی وزیر اعلیٰ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ایک بار انہوں نے وعدہ کر لیا لیکن دوسری بار یہ کہا: بڑا ہی مقبول آدمی ہے مگر میں مجبور ہوں۔
خاندان کی خواہش یہ تھی کہ اب کی بار ڈاکٹر نثار چیمہ انتخاب کے میدان میں اتریں۔ نون لیگ کی قیادت نے یہ مشورہ قبول نہ کیا۔ جناب افتخار چیمہ دبائو میں تھے۔ گھلنے ملنے والے آدمی وہ نہیں۔اب بھی وہ ایک جج ہی کامزاج رکھتے ہیں۔ اپنے ووٹروں سے باربار انہیں معافی مانگنا پڑی۔ حامد ناصر چٹھہ کے فرزند احمد چٹھہ پچھلی بار 40ہزار ووٹوں سے ہارے تھے۔ اب کی بار لیکن تحریک انصاف ان کی پشت پر تھی، وزیر آباد شہر میں صورت حال جس سے تبدیل ہو گئی، جہاں پہلی بار چیمہ صاحب نے لگ بھگ دو تہائی ووٹ لیے تھے۔ دیہی علاقوں میں چٹھہ کو برتری حاصل تھی۔ عمران خان کے تین جلسوں نے فضا بہت کچھ تبدیل کر دی۔
اس تصویر کو زیادہ اہمیت نہ دینی چاہیے، جس میں جناب چیمہ حمزہ شہباز کو چمچ پکڑاتے نظر آتے ہیں۔ کم آمیز ہونے کے باوجود وہ ایسے ہی میزبان ہیں۔ اپنے دیہی ملاقاتیوں کے لیے چائے وہ خود اٹھا کر لاتے۔ اس پر البتہ حیرت ہے کہ ایک جلسے میں حمزہ شہباز کو قائد محترم کہا یا شاید میرے قائد۔ کرپشن کو جائز قرار دینے والا نوجوان اس پاک باز اور بزرگ آدمی کا لیڈر کیسے ہو سکتا ہے۔ جب تک شواہد نہ مل جائیں، تسلیم نہیں کیا جا سکتا کہ خاندان دھاندلی میں ملوث ہے۔ مگر نون لیگ کی قیادت کے بارے میں حسنِ ظن کا امکان کتنا ہے؟ حامد ناصر چٹھہ سے ابھی ابھی میری بات ہوئی۔ حریف کے بارے میں ایک بھی ناروا لفظ ان کی زبان سے نہ نکلا۔ وہ سکھوں کے مقابل میدان میں اترنے والے شہسوار کی اولاد ہیں۔ خود نمائی اور ریاکاری سے انہیں گریز رہتا ہے۔ مگر یہ کہا کہ بتیس دیہات میں گیس کے پائپ پھینکے گئے۔ لگ بھگ پندرہ ہزار خواتین میں وزیر اعظم انکم سپورٹ پروگرام کے فارم تقسیم ہوئے، جو غالباً ایک جعلی ادارہ ہے۔ اب اس کے سوا چارہ کار کیا ہے کہ حلقۂ انتخاب میں جا کر جائزہ لیا جائے۔ الزامات اگر درست ہیں اور بظاہر درست ہیں توچیمہ خاندان کو اقتدار اورسچی توقیر میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہو گا۔
تلخ بات ہے مگر کیا کیجے۔ خیال آیا، سرکارؐ نے جان بوجھ کر حقیقت چھپانے والے کو گونگا شیطان قرار دیا تھا۔ اپنے آپ سے میں نے پوچھا‘اب بھی تمہارے پاس ایک ہی ترازو ہے ؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں