مفکر نے یہ کہا تھا: اگر اپنی محبت پہ تم فخر نہیں کرتے تو تم ایک مردہ آدم ہو۔
کل بھوشن یادیو اگر بھارتی حکومت کا آدمی نہیں تو حسین مبارک پٹیل کے نام سے جعلی پاسپورٹ اُسے کیونکر جاری ہو گیا‘ 2024ء تک جو مؤثر ہو گا۔ دنیا بھر میں طے شدہ طریق یہ ہے کہ دوسرے ملکوں میں متعین ایجنٹ کو سرکاری ملازمت سے سبکدوش دکھایا جاتا ہے۔پھر بھارتی حکومت کے دعوے کا کیامطلب ہے کہ وہ چاہ بہار میں متعین تھا؟ سرکاری ملازم ہی نہیں تو متعین کیوں تھا؟ اس ایرانی بندرگاہ میں اسے کیا کرنا تھا؟ بھارت کو وہاں جاسوسی نیٹ ورک قائم کرنے کی ضرورت کیا ہے؟ وہ بلوچستان میں سرگرم تھا اور خود اس نے اپنے جرائم کا اعتراف کیا ہے۔ علیحدگی کے لیے قتل و غارت کا بازار گرم کرنے والے اللہ نذر کا کیمپ وہ چلا رہا تھا۔بر سبیل تذکرہ‘ انکشاف یہ ہوا کہ بلوچستان کے سولہ سو ہندوئوں میں سے اکثر کا تعلق سرائیکی پٹی سے تھا۔
مشرقی پاکستان کی طرح بھارت نے پختون خوا، بلوچستان اور سندھ میں علیحدگی پسندی کے بیج بوئے۔ پاکستان کے وجود پر یقین نہ رکھنے والے عناصر ان کے آلہ کار رہے، بیشتر بائیں بازو کے قوم پرست۔ہر چند سوشلزم ان کے لیے نعرے کے سوا کچھ نہیںتھا۔ بھارتی وزیر اعظم کے سکیورٹی مشیر اجیت دوول کا بیان فلم کے فیتے پر محفوظ ہے کہ بھارت بلوچستان کو الگ کرنے کی کوشش کرے گا۔ الطاف حسین کی پشت پر ''را‘‘ اسی لیے ڈٹ کر کھڑی رہی۔پاکستان کے بارے میں بھارتی عزائم کے باب میں کوئی ابہام نہیں۔ اگر ہے تو فقط ان لوگوں میں جو جان بوجھ کر حقائق کو نظرانداز کرنے پر تلے ہیں۔
پونا سے ممبئی تک پھیلے کیمپوں میں جئے سندھ کے حامیوں کو بھارت میں تربیت دی گئی۔ ایم کیو ایم کے کارکنوں کو، ارکان اسمبلی اور سیاسی شعبے کے رہنما جن سے لاتعلق رکھے گئے۔ 80ء کے عشرے میں جئے سندھ کے ان لوگوں نے دادو کی پہاڑیوں میںایم کیو ایم کے ''دلاوروں‘‘ کو ٹریننگ دی۔ 1974ء میں عبدالولی خان نے صوبہ سرحد کو الگ کرنے کا خواب دیکھا تو بھارت ان کا مددگار تھا۔ جمعہ خان صوفی کی کتاب ''فریب ناتمام‘‘ میں تفصیلات دیکھی جا سکتی ہیں۔ نجم سیٹھی سمیت جو لوگ کل بھوشن یادیو کے معاملے کی سنگینی کم کر کے پیش کرتے ہیں، ان کی ہمدردیاں کس کے ساتھ ہیں؟ نجم سیٹھی کے اثاثے بیرون ملک ہیں اور معلوم نہیں کہ وہ روپیہ انہوں نے کہاں سے حاصل کیا۔ بلوچ گوریلوں سے مل کر وہ صوبے کی علیحدگی کے لیے جنگ میں شریک رہے، درآں حالیکہ ان کے پسندیدہ لیڈروں میں سے ایک ذوالفقار علی بھٹو سریر آرائے سلطنت تھے۔ مان لیجیے انہوں نے سجدہ سہو کر لیا ہے۔ مان لیجیے کہ انہیں معاف کر دینا چاہیے۔ تب ان کے طرز عمل کی بنیاد کیا ہو گی؟ حسن ظن سے کام لیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے تصادم میں وہ غیر جانبدار ہیں‘ اس بھارت کے باب میں جو پاکستان توڑنے پر تلا ہے۔ جب سے بھوشن کا معاملہ طشت ازبام ہوا ہے‘ کچھ دوسرے اخبار نویس بھی زیادہ احتیاط سے وہی کام کر رہے ہیں۔ اس طرح کے تبصرے وہ کرتے ہیں'' مگر بھارت یہ کہتا ہے کہ پاکستان بھی یہی کرتا ہے‘‘۔یہ حقائق کو مسخ کرنے کا رویّہ ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں
آزادی کی تحریک مقامی ہے۔ اقوام متحدہ کے نزدیک وہ ایک متنازعہ علاقہ ہے۔ دنیا بھر کے ممالک اس پوزیشن کو تسلیم کرتے ہیں۔ آزاد کشمیر کے لوگ اس میں شریک ہونے کا قانونی استحقاق رکھتے ہیں۔ بھارت اگر اعتراض کر سکتا ہے تو علیحدگی کی باقی تحریکوں کو ممکنہ اعانت فراہم کرنے پر۔ فرض کیجیے کہ ایسا ہو، پھر بھی وہ بنیادی سوال اپنی جگہ باقی رہتا ہے کہ کوئی شہری اپنے ملک کے معاملے میں یکسر غیر جانبدار کیسے ہو سکتا ہے۔ اگر ایسا ہوتو پہلا کام اسے یہ کرنا چاہیے کہ وہ کسی دوسرے ملک میں جا بسے۔ نجم سیٹھی کے لیے یہ اور بھی آسان ہے۔ ایف بی آر کے مطابق واشنگٹن میں وہ دس کروڑ روپے کی جائیداد کے مالک ہیں، جس پر سوا کروڑ روپے کا ٹیکس واجب الادا ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف ان کے سرپرست نہ ہوتے تو قانون ان کے خلاف حرکت میں آتا۔ وزیر اعظم نجم سیٹھی سے حسن ظن کیوں رکھتے ہیں؟ دھاندلی کے الزامات کو الگ رکھیے۔ الزامات کی گرد بیٹھ چکی تو واضح ہوا کہ 35پنکچروں والی کہانی اختراع کردہ تھی۔ مجھ ناچیز نے ان سے تحریری معافی مانگی۔ یہ موضوع جب بھی زیر بحث آئے گا، یہی عرض کیا جائے گا کہ اس الزام پر یقین کرنے والے خود فریبی کا شکار ہوئے۔ ان میں سے ہر ایک کو اس کا اعتراف کرنا چاہیے، با یں ہمہ الیکشن کمیشن کی تشکیل سے واضح تھا کہ پیپلز پارٹی اور نون لیگ دھاندلی کا ارادہ رکھتی تھیں۔ نجم سیٹھی کے ہم نفس کامران شفیع پر کوئی الزام نہیں۔ ہاں مگر جب بھی کوئی تنازعہ ہو‘ وہ ہر معاملے میں فوج کو قصوروار سمجھتے ہیں۔ میاں صاحب نے انہیں برطانیہ میں سفیر مقرر کرنے کا فیصلہ اسی بنیاد پر کیا تھا۔ بھارت نواز ان کے گرد جمع ہیں۔ اسی کا نتیجہ بھارتی شہریوں کی موجودگی میں ان کا مؤقف تھا کہ دونوں ملکوں کی ثقافت ایک ہے۔ تحریکِ پاکستان میں قائد اعظمؒ کا بنیادی مؤقف ہی یہ تھا کہ ثقافتی اعتبار سے ہم یکسر مختلف ہیں۔ ہمارے ہیرو ان کے ولن اور ان کے ہیرو ہمارے ولن ہیں۔ اس پر لطیفہ یہ کہ نواز شریف قائد اعظم ثانی کہلانا پسند کرتے ہیں۔ آزاد کشمیر کے گزشتہ الیکشن میں انہوں نے ارشاد کیا تھا کہ پاکستانی فوج نے کشمیریوں پر بھارتی فوج سے زیادہ ظلم ڈھائے، اسلام آباد میں بھارتی سفیر نے اس پر سید مشاہد حسین سے کہا تھا:
"Pleasently we are surprised that Mian sahib didn`t mention India or Indian army in election campaign"
ہمیں خوشگوار حیرت ہوئی کہ (2009ء کی) انتخابی مہم میں میاں صاحب نے بھارت یا بھارتی فوج کا ذکر نہ کیا۔جی نہیں‘ ذکر تو کیا مگر اسے پاکستانی فوج سے بہتر کہا۔
اپنے واحد دورے میں تمام آداب بالائے طاق رکھتے ہوئے وہ بھارتی بزنس مین جندال کے گھر گئے، اپنے صاحبزادے حسین نوازکے ہمراہ۔ جدّہ میں ان کی سٹیل مل میںبھارتی زیادہ تھے۔ یہی نہیں بھارتی میڈیا کی ایسی شخصیات سے انہوں نے ملاقاتیں کیں، جو پاکستان دشمن گردانی جاتی ہیں۔
میں نہیں سمجھتا کہ میاں صاحب پاکستان سے بے وفائی کے مرتکب ہیں۔ ہاں مگر حب وطن کے تقاضوں کا انہیں کوئی ادراک نہیں۔ کیا اپنے خاندان کی تباہی کا منصوبہ بنانے اور اس پر ڈٹے رہنے والے کسی شخص کووہ معاف کر سکتے ہیں؟
نئی اقوام کو اپنی شناخت پر اصرار کی ضرورت زیادہ ہوا کرتی ہے۔ امریکہ ایسے ملک نے اس باب میں ناقص اندازِ فکر کی قیمت ادا کی تھی۔ آزادی کے 83 برس بعد 1859ء میں، کالوں کی آزادی کے سوال پر جب وہ شمال اور جنوب میں بٹے۔ جب ایک دوسرے کے خلاف میدان جنگ میں اترے تو 15 لاکھ شہری کھیت رہے۔ تب انہیں احساس ہوا کہ وہ خود کو تباہ کر لیں گے۔ابرہام لنکن کے عزم نے ان کا زخم سی دیا۔ پاکستان دولخت ہوا اور اسی لیے ہوا کہ شیخ مجیب الرحمن، جنرل محمد یحییٰ خان اور ذوالفقار علی بھٹو نے حبِّ وطن کے تقاضے بھلا دیئے تھے۔
ایک بالکل غلط مؤقف کے باوجود بھارتی میڈیا اپنی حکومت کے ساتھ ہے اور مکمّل طور پر۔ ہمارے بعض لیڈر اور دانشور کنفیوژن کا شکار ہیں۔ہسٹیریا کا شکار ہمیں نہ ہونا چاہیے۔ امن کے خواب سے دستبرداربھی نہ ہونا چاہیے مگر ہم غیر جانبدار کیسے ہو سکتے ہیں؟آئندہ ایّام میں پاکستان کی ہر جماعت، ہر لیڈر اور ہر دانشور کا طرزِ عمل طے کرے گا کہ ملک سے اس کی وابستگی کتنی ہے۔دنیا کے ہر ملک اور قوم کا بھی۔
مفکر نے یہ کہا تھا: اگر اپنی محبّت پہ تم فخر نہیں کرتے تو تم ایک مردہ آدم ہو۔