اقبال لاہوری کا شعر اردو زبان میں ہے مگر امید ہے کہ اسلام آباد کے ایرانی سفارت خانے کے لیے کوئی اس کا ترجمہ کر دے گا ؎
ذرا سی بات تھی اندیشۂ عجم نے اُسے
بڑھا دیا ہے فقط زیبِ داستاں کے لیے
ایران اور بھارت کا معاملہ مختلف ہے۔ ایرانیوں سے ہم محبت کرتے ہیں ان کی چھوٹی موٹی کیا ان کی بعض بڑی زیادتیاں برداشت کرتے رہے ہیں جیسے بھارت سے محبت کی پینگیں۔ مصوّر پاکستان نے یہ کہا تھا ؎
تہران ہوگر عالمِ مشرق کا جنیوا
شائد کرّہ ارض کی تقدیر بدل جائے
دوسری طرف عدمِ تحفظ اور مستقل مرعوبیت کا شکار، ہمارا شیوہ یہ بھی ہے کہ جیسے ہی کوئی صدمہ پہنچا، ہمیں سے بعض بھڑک اٹھتے ہیں۔انہی میں سے بعض ایران پر گرجے برسے ہیں۔ 2013ء کے اوائل سے جب ایران سے لوٹ کر آیا، بعض سوالات ناچیز اٹھا رہا تھا۔ مثلاً یہ کہ ایرانی میڈیا میں پاکستان کے حق میں ایک لفظ بھی کیوں نہیں چھپتا؟
مشہد میں یہ بات فارسی کے سب سے بڑے اخبار ''خراسان‘‘ کے جواں سال مدیر سے کہی۔ اس کا جواب یہ تھا: کچھ مسائل ہیں، مثلاً عبدالمالک ریگی کا معاملہ۔ حیرت زدہ میں نے کہا: ریگی کو پکڑا ایران کے حوالے کر دیا۔ پریشان کچھ دیر وہ سوچتا رہا اور پھر یہ کہا: مترجم میری بات کو سمجھ نہ سکا۔ اس سے قبل موصوف کہہ چکے تھے کہ ان کا اخبار آزاد ہے۔ پوچھا: آپ کا تقرر کس نے کیا ؟ فرمایا: ولایت فقیہہ نے۔
ایرانی معاشرہ مختلف ہے۔ اپنے تضادات کی دھیمی آگ میں جلتا ہوا، مرجھایا ہوا۔ پورے ایران میں گھوم جائیے۔ کسی چہرے پر مسکراہٹ آپ کو دکھائی نہ دے گی۔ اگر اخبار کا ایڈیٹر ولایت فقیہہ مقرر فرماتے ہیں تو باقی کیا؟ ایران کبھی سنی تھا۔ بتدریج شیعہ ہو گیا۔
قرۃ العین طاہرہ کی اس زمین میں سینکڑوں شاعر طبع آزمائی کر چکے۔
در دلِ خویش طاہرہ گشت وندید جُز تو را
صفحہ بہ صفحہ‘ لا بہ لا‘ پردہ بہ پردہ‘ تُوبہ تُو
جو کیفیت جس جان پر گزرتی ہے وہی اسے بیان کر سکتا ہے۔ طاہرہ نئے مذہب کے بانی کی محبت میں مبتلا تھی۔خیرہ کن جمال۔ گرفتار ہوئی۔ مقدمہ چلا اور ملائوں نے موت کی سزا سنا دی۔ بادشاہ بولا: ''بگزارید کہ ایں صورتِ زیبا داری‘‘ مگر ملا کے دل میں رحم کہاں۔
حسن روحانی کے دورے کو جو لوگ غیر معمولی اہمیت دے رہے ہیں‘ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اختیار ولایت فقیہہ اور ان کے حواری علماء کے ہاتھ میں ہے۔ایرانی علماء فیصلہ کرتے ہیں کہ صدارتی انتخاب میںکون کون حصہ لے سکے گا۔ خواتین قطعاً نہیں‘ غیر شیعہ بھی نہیں۔ کوئی ایساشخص نہیں جو انقلاب ایران کا پرجوش حامی نہ ہو۔بالآخر جو بچ رہتے ہیں‘ ان میں ان کاپسندیدہ ہی نمایاں ہوتا ہے ۔ جب وہ ایٹم بم بنانے کے خواہش مند تھے‘ ایک لوہار کا درویش منش اور سخت گیر فرزند ان کا انتخاب تھا۔عراق اور افغانستان میں امریکہ سے تعاون‘ اسرائیل سے خفیہ مراسم‘ عربوں اور ترکوں سے آویزش اور اب ایٹمی پروگرام سمیٹ کر مغرب کی ہم نفسی کے تقاضے اور ہیں۔ اب اپنے رسوخ کا دائرہ بڑھانا اور مشرق وسطیٰ پر غلبہ حاصل کرنا مقصود ہے۔اسی لئے قاتل بشار الاسد کی پشت پناہی ۔ اسی لیے یمن میں مداخلت ہے‘ بحرین اور لبنان میں بھی ۔گوادر بھی اسی لیے گوارا نہیں۔ بھارت اسی لیے ہم نفس ہے۔
اعتقاد ذاتی ہوتا ہے۔ یوں بھی دوسرے مکاتب فکر میں کون سا اعتدال ہے۔ وہ بھی تو ہیں جو خلافت معاویہ و یزید کی ایسی کتابیں لکھتے اور سپاہ صحابہ ایسی تنظیمیں بناتے ہیں۔ جو بھول جاتے ہیں کہ حبِّ اہل بیت ‘ایمان کا تقاضا ہے۔ لہٰذا ایران شوق سے شیعہ رہے مگر امت کا حصہ بن کر کیوں نہیں‘ اس سے متصادم کیوں،؟
تہران میں ایک سوال میں نے وزارت اطلاعات کے جادوگر ترجمان سے پوچھا جو وضاحت و بلاغت کے دریا بہاتا‘ ثابت کر رہا تھا کہ اس کی نگرانی میں ایرانی ٹی وی اور اخبارات معجزات برپا کر رہے ہیں۔ جوشِ خطابت میں اس نے کہا ''مسلمان اور سنی‘‘ پھرپاکستانیوں کو سامنے پا کر برق رفتاری سے تصحیح کی ''شیعہ مسلمان اور سنی مسلمان‘‘ پڑوسی مسلمان ممالک کی وہ شکایت کر رہا تھا ۔ عرض کیا۔ کس دن آپ نے اپنا مقدمہ استنبول میں پیش کیا۔ اسلام آباد میں۔ اور قاہرہ میںپیش کیا؛محاذ آرائی اور شکوہ و شکایات کے انبار لگانے کی بجائے ایرانی نفسیات کا ادراک کرنا چاہیے۔ دلدل سے نکلنے کے لیے ہمیں اس کی مدد کرنی چاہیے۔ چند ماہ ہوئے ہیں‘ بیرون ملک یونیورسٹی میں زیر تعلیم ایک ایرانی لڑکی شدید ڈیپریشن کا شکار ہو گئی۔ کسی نے مجھ سے رابطہ کیا کہ پروفیسر احمد رفیق اختر سے بات کروں۔ خاتون کے اس جملے پر زمین میرے پائوں تلے سے نکل گئی۔ ''اچھّا بھلا زرتشت کا مذہب ہم رکھتے تھے ۔ ہم پر اسلام مسلط کر دیا گیا۔‘‘
خدانخواستہ یہ ایک عام ایرانی کا انداز فکر نہیں۔ سیکولر ایرانیوں میں قوم پرستی کا جذبہ جوش مارتا ہے تو ان میں سے بعض ایسی احمقانہ گفتگو کرتے ہیں۔مگر مذہبی طبقہ بھی قوم پرستی سے خالی نہیں۔ کسی نے کبھی ان پر جبر نہ کیا تھا‘نہ مصریوں اور شامیوں پر‘ اِصحابِ رسول ایک اور طرح کے لوگ تھے۔ اپنی کامیابی نہیں‘ وہ اسے اللہ کی رحمت کا نتیجہ سمجھتے تھے‘ ساد ہ اطوار‘ انصاف پسند۔ مرکز طاقتور تھا اور کسی گورنر کی مجال نہ تھی کہ ظلم کا ارتکاب کرے۔ حالت جنگ میں بھی عورتیں‘ بچے اور بوڑھے‘ کھیت اور باغات محفوظ تھے۔ ایران کا المیہ یہ ہے کہ اپنی عظمت کا خواب کبھی فراموش نہ کر سکا۔ نوشیرواں عادل کا زمانہ۔ عرب بھی قصور وار تھے کہ ان کی آنے والی نسلوں نے اپنی عظمت کے گیت گائے۔ اس کے باوجود کہ خطبہ حجتہ الوداع میں رحمتہ للعالمین ﷺ نے ارشاد کیا تھا: کسی گورے کو کالے پر اور کسی عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقویٰ سے۔ تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدمی مٹی سے پیدا کئے گئے۔ امام حسنؓ ایک ایرانی شہزادی سے بہائے گئے تو اہل ایران نے اپنا ''رشتہ شاہی خاندان ‘‘سے جوڑا‘ جو ہرگز شاہی خاندان نہ تھا۔ اپنی فضیلت میں انہوں نے ایک اور پہلو کا اضافہ کر لیا۔ بتدریج وہ ایک خاص مکتب فکر سے وابستہ ہو گئے ۔امت سے دور ہوتے گئے؛۔ دوسرے فرقوںپر بھی یہی بیتی۔
پندرہویں صدی میں شاہ اسماعیل صفوی مذہبی جنون کے ساتھ اٹھا۔ ظہیر الدین بابر کو سمر قند سے بھگانے والے شیبانی خاں کو اس نے قتل کر دیا اور فاتح عالم کے جلال سے حکومت کرنے لگا۔ بابر کا فرزند ہمایوں ایران میں پناہ گزین ہوا تو صفوی سریر آرائے سلطنت تھے۔ آٹھویں صدی میں عراق اور ایران میں عربوں کے خلاف جس عجمی تحریک کا آغاز ہوا تھا‘اب وہ ثمر بار تھی۔ پانچ سو برس پہلے فارسی زبان نے غلبہ باپا تھا‘ جب امام غزالی نے اپنی تاریخی تصنیف احیاء العلوم کے لیے اسے اختیار کیا۔ وسطی ایشیا کو وہ تسخیر کر چکی تھی۔ شیر شاہ سوری کی موت کے بعد ہمایوں واپس آیا تو ایرانی امرا اس کے ہم رکاب تھے۔ اکبر کے عہد میں طویل بحث ہوئی کہ مسلمان برصغیر کی پہلی مقامی زبان گوجری اور فارسی میں سے کس کو اختیار کیا جائے۔ زبان پہلوی کو دربار کی سرپرستی مل گئی۔ نور جہاں سے جہانگیر کے معاشقے اور شادی کے بعد ایرانی رسوخ بڑھنے لگا۔ شیعہ امرا اور سنی فوج میں تصادم کا آغاز ہوا۔ اسی اثناء میں مجدد الف ثانی نے قتل کا وہ فتویٰ جاری کیا، جو بعد میں واپس لے لیا گیا۔ شاہ عبدالرحیم اور ان کے جانشین شاہ ولی اللہ، سید احمد شہید اور سید اسمٰعیل شہید کے بعد دیوبند نے نزاع کو آگے بڑھایا۔ برصغیر کی شیعہ سنی کشمکش میں عرب اب فرقہ پرست سنیّوں اور ایرانی شیعوں کے ساتھ ہیں۔ ایران کے ولایت فقیہ نے حال ہی میں اعلان کیا کہ جہاں کہیں شیعوں کے ساتھ زیادتی ہو گی ایران بروئے کار آئے گا۔
یہ ایک تباہ کن انداز فکر ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ پاکستان میں سرکاری اور عوامی سطح پر شیعہ سنی کشمکش کا وجود نہیں۔ افراد متعصب ہو سکتے ہیں مگر پاکستانی حکومت‘ فوج اور افسر شاہی بڑی حد تک اس سے پاک رہی۔ سکندر مرزا اور یحییٰ خان‘ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری مقتدر رہے۔ ان پر کوئی بھی دوسرا اعتراض کیا گیا مگر مکتب فکر کا کبھی نہیں۔ ایرانی آئین میں لکھا ہے: حکمران کے لیے شیعہ ہونا لازم ہے۔ مکاتبِ فکر اپنی عبادت گاہیں تعمیر نہیں کر سکتے، اجتماع نہیں کر سکتے ۔ امام خمینی نے تھوڑی سی کوشش ضرور کی کہ ایرانیوں کو سنی طریقے سے حج کرنے کا مشورہ دیا۔ ملا کے زیر اثر ایران کا مذہبی طبقہ مختلف ہے۔ بارہ برس ہوتے ہیں، میرے ساتھ کھڑے ایرانی نے مسجد نبوی میں مجھ سے کہا، ہاتھ باندھ کر نماز پڑھنا کیااللہ کے رسولؐ کا طریقہ ہے؟۔
پاکستان اور ایران دونوں کا دیرپا اور دائمی مفاد مفاہمت سے وابستہ ہے۔ ایران کو جب بھی پاکستان سے شکایت ہوئی، پاکستانی حکومت، عوام اور میڈیا نے سنجیدگی سے اس پر غور کیا۔ امریکیوں نے ''جنداللہ‘‘ کی پشت پناہی کر کے پاکستان کی سرزمین ایران کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کی تو عبدالمالک ریگی کو تہران کے حوالے کر دیا گیا۔ امام خمینی کے انقلاب پر پاکستانی عوام نے فخر کیا۔ اب ایک مسئلہ ہمیں درپیش ہے۔ ایران کی سرزمین پاکستان میں قتل و غارت کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔ ایرانی سفارت خانے کا دعویٰ بے جاہے ۔ یہ کہ ایرانی صدر کے دورے سے حاصل ثمرات تباہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایسی کوئی کوشش نہیں، ہو گی بھی تو ناکام رہے گی۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا ایران کی سرزمین پاکستان کے خلاف برتی جا رہی ہے۔ اگر ہے تو کیونکر سدّباب ہو گا؟ اقبال لاہوری کا شعر اردو زبان میں ہے مگر امید ہے کہ اسلام آباد کے ایرانی سفارت خانے کے لیے کوئی اس کا ترجمہ کر دے گا ۔
ذرا سی بات تھی اندیشۂ عجم نے اُسے
بڑھا دیا ہے فقط زیبِ داستاں کے لیے