"HRC" (space) message & send to 7575

زمیں کا بوجھ اٹھانے والے کیا ہوئے ؟

معاشرے کے اخلاقی افلاس کا ماتم ہے ۔بادشاہوں کا اور درباریوں کا۔ ناصرؔ کاظمی کی غزل کا ایک شعر یہ ہے ۔ 
یہ آپ ہم تو بوجھ ہیں زمین کا
زمیں کا بوجھ اٹھانے والے کیا ہوئے ؟
میاں محمد نواز شریف کی اگلی نسل کو اقتدار منتقل کرنے کا سپنا تو بھاپ بن کر اڑ گیا ۔عمر بھر بچّے وضاحتیں پیش کرتے رہیں گے ۔ خاندان روبہ زوال ہے اور روبہ اختلاف بھی ۔ ایک مظہر تہمینہ درّانی کا بیان ہے ۔ چودہ برس پہلے ان کی شادی جناب شہباز شریف سے ہوئی تھی ۔ خاندان نے انہیں قبول نہ کیا ۔ اس پر بظاہر انہوں نے صبر کر لیا مگر کہاں تک اور کتنا صبر؟ دس مرلے کا ایک مکان ان کی مِلک ہے جو غالباً ان کے شوہر نے عطا کیا تھا ۔ 
پانامہ لیکس میں محترمہ درانی کا نام آیا۔ اخبارات میں کھنگال نہیں سکتا ۔ بیمار ہوں اور بقول غالبؔ اتنی دیر میں بستر سے اٹھتا ہوں جتنی دیر میں قد آدم دیوار اٹھتی ہے ۔ آج کچھ قرار ہے مگر زیادہ نہیں ۔ جو کچھ پڑھا اس سے یہ اخذ کیا کہ شاید وہ ان کی والدہ رہی ہوں ۔ بیرونِ ملک جائیدادو ں اور کمپنیوں میں میاں محمد شہباز شریف اور ان کے خاندان کا نام کبھی نہیں آیا۔ ایک ٹی وی رپورٹ میں مونس الٰہی کا ذکر ہوا۔ قیاس آرائی لگتی ہے ۔ سالِ گز شتہ چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی نے شام کے کھانے پر یاد کیا۔ عزیزم بلال الرشید بھی ہمراہ تھے جو برسوں سے انسانی ذہن کی ساخت اور اس میں پیدا ہونے والے عوارض پر تحقیق کر رہے ہیں ۔ چوہدری صاحب سے تادیر وہ پارکنسن کی بیماری اور علاج پر بات کرتے رہے ۔ برسبیلِ تذکرہ بات ہوئی تو چوہدری شجاعت حسین نے حلفاً کہاکہ بیرونِ ملک ان کی ایک روپے کی سرمایہ کاری بھی نہیں ۔ پھر یہ چونکا دینے والا انکشاف کیا کہ بینکوں 
سے لین دین انہوں نے بند کر دیاہے ۔ اندازہ ہے کہ اس کا سبب چوہدری خاندان کی خواتین ہیں ۔ کاروبار تو چوہدریوں نے اسی طرح کیا، جیسے اس ملک میں ہوتا ہے ، سیاست بھی ۔ ایسا لگتاہے کہ خواتین پر بیگم چوہدری ظہور الٰہی مرحوم کا اثر گہرا ہو تا گیاجو ایک پارسا خاتون تھیں ۔ یتیم بچیوں کو پالتیں اور اپنی بیٹیوں کی طرح رخصت کرتیں ۔ بیگم پرویز الٰہی نے ، جو شجاعت حسین کی بہن ہیں، نواحِ لاہور میں درجنوں بیوہ خواتین کے لیے مکانات تعمیر کیے ہیں۔ لگ بھگ ایک پوری بستی ۔ ذاتی طور پر وہ ان کی نگہداشت کرتی ہیں ۔ چوہدری خاندان کے کسی فرد نے یہ معلومات فراہم نہیں کیں۔ اتفاق سے ایک آدمی ملا ، جو عینی شاہد تھا۔ 1981ء میں بیگم پرویز الٰہی سے ایک ملاقات ہوئی تھی ۔ جب الذوالفقار نے چوہدری ظہور الٰہی کو شہید کر دیا تھا ۔ تب بھی وہ ایک باوقار اور حوصلہ مند خاتون نظر آتی تھیں ۔ 
شریف خاندان کی ایک خاتون سے بھی ملاقات ہوئی ، ان کے والدِ گرامی کے توسط سے ۔ خصوصی بچوں کے لیے ایک بے مثال ادارہ انہوں نے بنایا ہے ۔ اس بچی کی سادگی اور خلوص نے متاثر کیا۔ ایک گھریلو معاملے میں وہ مشورے کی خواہش مند تھیں۔ اپنی سوجھ بوجھ کے مطابق میں نے انہیں بتایا کہ پیچیدگی کہاں ہے ؛تاہم معذرت کی کہ یہ میرے بس کا نہیں ۔ راستہ انہیں دکھا دیا ۔ آدمی ایک پیچیدہ مخلوق ہے ۔ انسانی جبلتوں کے تعامل کو سمجھنا سہل نہیں ہوتا۔ عصرِ رواں کے عارف کے سوا ، زندگی بھر کوئی شخص نہیں دیکھا ، جو گھریلو امور کی پیچیدگیوں پر، جو اکثر 
خاندانوں کوپیش آتی ہیں ، قطعیت سے حکم لگا سکتاہو۔ گرہ کھول سکتا اور علاج بتا سکتا ہو ۔ ہزاروں گھرانے سنور گئے ۔ بے شک مومن اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔ سرکار ﷺنے سچ کہا تھا: علیکم مجالس بالابرار۔ تم پر لازم ہے کہ اہلِ تقویٰ کی خدمت میں جایا کرو۔ اہلِ علم ہی اہلِ تقویٰ ہوتے ہیں ۔ انسان ، زندگی ، کائنات اور اس کے خالق کو سمجھنے والے ۔ 
پنجاب کی اپوزیشن پارٹیوں نے تہمینہ درانی کو مبارک باد پیش کی ہے ۔ ایک اعتبار سے انہوں نے علمِ بغاوت بلند کیا ہے ۔ شہباز شریف کو ظاہر ہے کہ ان کی وجہ سے پریشانی ہوگی مگر وہ ایسی ہی ہیں ۔ ہزار غلطیاں انہوں نے کی ہوں گی مگر وہ ہمیشہ سے خوابوں کی بستیاں بسانے والی خاتون ہیں ۔ زندگی کے مادی پہلو سے ان کی دلچسپی کم ہے ۔ 1988ء میں جب انہیں سیاست کے لیے گھسیٹا جا رہا تھا تو میں نے ان سے کہا تھا کہ سیاست چھوڑیے ، کتاب لکھیے ، کتاب ...اور کیا معرکے کی کتاب انہوں نے لکھی۔ دوسروں کو نہیں ، خود کو بھی واشگاف کر دیا۔ جاگیردار گھرانوں میں رینگتی ، روتی بسورتی زندگی کو ؎ 
اس کا کیا فائدہ رنگین لبادوں کے تلے 
روح جلتی رہے ‘گھلتی رہے‘ پژمردہ رہے 
محلّات میں زندگی اکثر ایسی ہی ہوتی ہے ۔ کوڑھ کی ماری ، ریشم و اطلس و کم خواب میں چنوائی ہوئی ۔ حیات اپنے حسن کے لیے آہنگ چاہتی ہے ۔ امانت داری ، صداقت شعاری ، ایثار ، تہذیبِ نفس ، حصولِ علم اورسادگی میں جمال ۔ دولت او راقتدار کے بھوکوں کو کیا خبر کہ زندگی ہوتی کیا ہے ۔ 
امام محمد الغزالیؒ دنیا سے اٹھے تو لوگ ان کے بھائی احمد الغزالی کے پاس گئے ۔ پوچھا :کیا ہوا ؟ کہا : کچھ بھی نہیں ۔ صبح کی نماز پڑھی ، کفن منگوایا ، اسے بوسہ دیا اور کہا : اچھا ! میرے مالک ، جیسی تیری مرضی۔ 
ناصر کاظمی ہسپتال کے بستر پر پڑے تھے کہ انتظار حسین ان سے ملنے گئے ، انٹر ویو کرنے ۔ ناصر نے اپنے دونوں قدیم دوستوں احمد مشتاق اور انتظار حسین سے گلہ کیا کہ اب وہ سوٹ پہننے لگے ہیں، سادگی سے رشتہ توڑ دیا ۔ان کی فرمائش پر تازہ غزل سنائی : 
وہ ساحلوں پہ گانے والے کیا ہوئے 
وہ کشتیاں چلانے والے کیا ہوئے 
وہ صبح آتے آتے رہ گئی کہاں 
جو قافلے تھے آنے والے کیا ہوئے 
عمارتیں تو جل کے راکھ ہو گئیں 
عمارتیں بنانے والے کیا ہوئے 
اکیلے گھر سے پوچھتی ہے بے کسی 
ترا دیا جلانے والے کیا ہوئے 
تضادات واضح ہو گئے ۔ لارڈ نذیر گواہ ہیں ، لندن کے فلیٹ 1993ء میں خریدے گئے ۔ صدیق الفاروق فرماتے ہیں ، 1996ء میں انہوں نے وہاں قیام کیا تھا۔ حسین نواز کا کہناہے کہ 2005ء میں انہوں نے خریدے ، سعودی عرب کی سٹیل مل بیچ کر۔ کیا یہ لاہور اسلام آباد موٹر وے سے حاصل ہونے والی آمدن تھی ؟ محترمہ مریم نواز نے اعلان کیا تھاکہ بیرونِ ملک ان کی کوئی جائیداد نہیں ۔ اب وہ ایک اور توجیہہ پیش کر رہی ہیں ۔ یکایک حسین نواز کو کیاسوجھی کہ ایک ٹی وی پروگرام میں سمندر پار کمپنیوں کا اعتراف کر لیا۔ ٹی وی میزبان سینہ کوبی کر رہا ہے کہ یہ کوئی طے شدہ منصوبہ نہ تھا ۔ ممکن ہے ،اب کی بار وہ بے قصور ہو ۔ ممکن ہے ، حسین نواز ہی نے موزوں وقت چنا ہو۔ 
ایک بات طے ہے ۔ شریف خاندان کا دامن داغدار ہے۔ زیادہ تر دولت انہوں نے اقتدار کے بل پر کمائی ۔ سیاست میں نہ ہوتے تو اتفاق فائونڈری پہ لیا گیا قرض لوٹانے کے قابل بھی نہ تھے ۔ عدلیہ نے شریفوں کا ساتھ دیا۔ سترہ برس قرض ادانہ کیا ۔ پانچ برس حکمِ امتناعی پر پنجاب کی حکومت چلائی ۔ دیکھیے ، اب کیاکرتی ہے ۔ 
پرسوں ایک درباری نے کہا: عمران خان اپنی بدزبانی کی قیمت چکا رہے ہیں۔ اسی لئے سمندر پار کمپنیوں میں ان کا نام بھی آیا۔ کل وضاحت آگئی کہ تین ملین ڈالر کی جو سرمایہ کاری شوکت خانم ہسپتال نے کی تھی ، وہ واپس آچکی ۔ 2015ء کے گوشوارے میں درج ہے ۔ اب وہ کیا ارشاد فرماتے ہیں ؟
معاشرے کے اخلاقی افلاس کا ماتم ہے ۔بادشاہوں کا اور درباریوں کا۔ ناصرؔ کاظمی کی غزل کا ایک شعر یہ ہے ؎
یہ آپ ہم تو بوجھ ہیں زمین کا 
زمیں کا بوجھ اٹھانے والے کیا ہوئے ؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں