پھر خیال میں بالیدگی اور گداز کہاں سے آئے؟
سرکارؐ کا فرمان یہ ہے: فصاحت مرد کا زیور ہے۔ مگر کیا کیجیے، یہ امّت خرافات میں کھو گئی۔
سیاست سے جی اکتا گیا۔ اکتاہٹ کیا بیزاری بلکہ کراہت ہونے لگی۔ علالت کے ایام ایک شاعر کے ساتھ گزرے، ناصر کاظمی کے ساتھ۔ نیشنل بک فائونڈیشن نے ان کا انتخاب شائع کیا ہے۔ ایسا شاندار کہ جی لہلہا اٹھتا ہے۔ کچھ اور مطبوعات بھی۔ جی خوش ہوا کہ کسی سرکاری ادارے نے ریاضت ہی نہیں، جمال کے تقاضے بھی ملحوظ رکھے۔ ناصر کاظمی ایک عجیب شاعر ہے۔ بارش اس کے ہاں بارش کی طرح برستی ہے، سحر اپنے گداز اور شام اپنی اداسی کے ساتھ نمودار ہوتی ہے۔ ستارے جب اس کے افق پر چمکتے ہیں تو واقعی لو دیتے ہیں۔ چاند جگمگاتا ہے تو دھرتی نُور سے بھر جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ناصر کاظمی پر میر تقی میرؔ کے اثرات بہت ہیں۔ ہوں گے صاحب، اس میں برائی کیا ہے۔ اس ناچیز کو تو وہ منفرد لگا۔ روانی ہے اور ایسی روانی جیسی دریا کے پانیوں میں ہوتی ہے، جب میدانوں میں وہ پھول کھلاتے ہیں۔ جب شجر ان پانیوں میں خود کو دیکھتے اور نہال ہوتے رہتے ہیں۔ درد کی ایک لہر ہے جو مستقل طور پر برقرار رہتی ہے۔ احساس کی مشعل لرزتی ہے اور زندگی کے ناتمام ہونے کا احساس اجاگر کرتی ہے۔ روز ازل کے پیمان کی بازگشت‘ مگر وہ نعرہ نہیں بنتی، فنا کا احساس جگاتی ہے... اور یہی تو زندگی کا بھید ہے۔
ناصر کاظمی کا مطالعہ کرتے ہوئے دو آدمی بہت یاد آئے، شعیب بن عزیز جس نے کہا تھا:
خوب ہو گی یہ سرا دہر کی لیکن اس کا
ہم سے کیا پوچھتے ہو ہم کوٹھہرنا کب ہے
اور جناب سلیم احمد، جن کا ہمیشہ زندہ رہنے والا شعر یہ ہے ؎
دلوں میں درد بوتا آنکھ میں گوہر اگاتا ہوں
جسے مائیں پہنتی ہیں میں وہ زیور بناتا ہوں
اپنے ہنر پر ناصر کاظمی کو ناز نہیں، درآں حالیکہ وہ بے حد و حساب ہے۔ خیال کی پاکیزگی اور احساس کی تازگی اس کے ہاں دائمی ہے۔ جس نے ناصر کاظمی کا مطالعہ نہ کیا، وہ اردو شاعری کے ایک چمن سے محروم رہا۔ یہ چند اشعار ہیں، کوئی باقاعدہ انتخاب نہیں۔ یوں تو ادب کے ہر قاری کو اس میں جی گرمانا چاہئے مگر اخبار نویسوں کو خاص طور پر، جن میں سے بعض المناک حد تک لسانی افلاس کا شکار ہیں۔ عصررواں کے کچھ شاعر بھی اس کے مستحق ہیں، ظفر اقبال، ڈاکٹر خورشید رضوی، افتخار عارف اور ہمارے اظہارالحق جنہیں بعض لوگ کالم نگار سمجھ بیٹھے ہیں۔ جی ہاں‘ وہ اس سے بہت بلند ہیں۔ ایک بالکل منفرد انداز‘جس میں بیتی ہوئی صدیوں کے ان گنت مناظرمتشکل ہو گئے ہیں... اس طرح متشکل کہ کہیں اور نہ ہوئے تھے۔
آئیے چند لمحے ناصر کاظمی کے ساتھ بسر کریں:
آج پھر وسعتِ صحرائے جنوں
پرسشِ آبلہ پا چاہتی ہے
دائم آباد رہے گی دنیا
ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہو گا
واقعہ یہ ہے کہ بدنام ہوئے
بات اتنی تھی کہ آنسو نکلا
ہر لفظ ایک شخص ہے، ہر مصرع آدمی
دیکھو مری غزل میں میرے دل کی روشنی
کچھ پھول برس پڑے زمیں پر
کچھ گیت ہوا میں لہلہائے
رونقیں تھیں جہاں میں کیا کیا کچھ
لوگ تھے رفتگاں میں کیا کیا کچھ
انہیں صدیوں نہ بھولے گا زمانہ
یہاں جو حادثے کل ہو گئے ہیں
گرفتہ دل ہیں بہت آج تیرے دیوانے
خدا کرے کوئی تیرے سوا نہ پہچانے
آنکھ کا تارا آنکھ میں ہے
اب نہ گنیں گے تارے ہم
وہ دل نواز ہے لیکن نظر شناس نہیں
مرا علاج مرے چارہ گر کے پاس نہیں
مجھے یہ ڈر ہے تری آرزو نہ مٹ جائے
بہت دنوں سے طبیعت مری اداس نہیں
یہ شب یہ خیال و خواب تیرے
کیا پھول کھلے ہیں منہ اندھیرے
زمیں لوگوں سے خالی ہو رہی ہے
یہ رنگِ آسماں دیکھا نہ جائے
پرانی صحبتیں یاد آ رہی ہیں
چراغوں کا دھواں دیکھا نہ جائے
ناصرؔ ہم کو رات ملا تھا تنہا اور اداس
وہی پرانی باتیں اس کی‘ وہی پرانا روگ
نصیبِ عشق دلِ بے قرار بھی تو نہیں
بہت دنوں سے ترا انتظار بھی تو نہیں
جو زندگی ہے تو بس تیرے درد مندوں کی
یہ جبر بھی تو نہیں‘ اختیار بھی تو نہیں
آتشِ غم کے سیل رواں میں نیندیں جل کر راکھ ہوئیں
پتھر بن کے دیکھ رہا ہوں آتی جاتی راتوں کو
سفرِ منزلِ شب یاد نہیں
لوگ رخصت ہوئے کب یاد نہیں
اولیں قرب کی سرشاری میں
کتنے ارماں تھے جو اب یاد نہیں
وہ ستارہ تھی کہ شبنم تھی کہ پھول
ایک صورت تھی عجب یاد نہیں
بھولتے جاتے ہیں ماضی کے دیار
یاد آئیں بھی تو سب یاد نہیں
یاد ہے سیرِ چراغاں ناصرؔ
دل کے بجھنے کا سبب یاد نہیں
لبِ جُو چھائوں میں درختوں کی
وہ ملاقات تھی عجب کوئی
نئے مضمون سجھاتی ہے صبا
کیا ادھر سے وہ سمن بُو نکلا
سرِ ایوانِ طرب نغمہ سرا تھا کوئی
رات بھر اس نے تری یاد دلائی مجھ کو
دھوپ اُدھر ڈھلتی تھی ؛دل ڈوبتا جاتا تھا اِدھر
آج تک یاد ہے وہ شامِ جدائی مجھ کو
یہ بے سبب نہیں شام و سحر کے ہنگامے
اٹھا رہا ہے کوئی پردہ ہائے رازو نیاز
دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا
وہ تری یاد تھی اب یاد آیا
تیرا بھولا ہوا پیمان وفا
مر رہیں گے اگر اب یاد آیا
بیٹھ کر سایۂ گل میں ناصرؔ
ہم بہت روئے وہ جب یاد آیا
میں سو رہا تھا کسی یاد کے شبستاں میں
جگا کے چھوڑ گئے قافلے سحر کے مجھے
میں ترے درد کی طغیانیوں میں ڈوب گیا
پکارتے رہے تارے ابھر ابھر کے مجھے
کہاں ممکن ہے ‘ارے صاحب ناصر کاظمی ایسے شاعر کا انتخاب کیسے ممکن ہے! پھر خیال آتا ہے: کیسا کیسا ستارہ‘ کیسے کیسے چاند اردو شاعری کے اُفق پر دمک رہے ہیں۔ ان سے اکتسابِ نُور کرنے کی بجائے سننے والے بھدے اور گھٹیا فلمی گیت سنتے ہیں۔ پھر ذوق اگر بازاری نہ ہو تو کیا ہو۔ پھر خیال میں بالیدگی اور گداز کہاں سے آئے؟
سرکارؐ کا فرمان یہ ہے: فصاحت مرد کا زیور ہے۔ مگر کیا کیجیے، یہ امّت خرافات میں کھو گئی۔