"HRC" (space) message & send to 7575

جنگل کا جنگل ہرا ہو گیا!

شب ایک بجے وہاں سے نکلا تو میرا خیال یہ تھا کہ تاریخ کا ایک نیا باب رقم ہونے والا ہے۔ مزار قائد کی رفعت پہ چاند چمکتا اور اس منظر کو دیکھتا رہا جو شاید کبھی کتابوں کا حصہ بنے۔
پانچ چھ سال کا وہ بچہ ایک فرشتہ لگا۔ معصومیت کا پیکر‘ جسے دیکھ کر ہمہ وقت معجزے برپا کرنے والا مالک یاد آتا ہے۔ سر اٹھا کر اس نے مصطفی کمال کی طرف دیکھا‘ اور یہ کہا: ''اماں نے مجھے بھیجا ہے کہ آپ کے ساتھ رہوں‘‘۔ مصطفی اس پر جھکے اور شفقت نے ان کی آنکھوں میں ایک جنت سی جگا دی۔ ''میرا بیٹا ہے‘‘۔ انہوں نے کہا‘ اور اسے ایک باپ کے فخر کے ساتھ تھپتھپایا۔ سینکڑوں ایسے بچے وہاں تھے۔ اپنے ہیرو سے ہاتھ ملانے اور ہو سکے تو ان کے ساتھ تصویر بنوانے کے لیے۔
نصف شب بیت گئی‘ اور چودھویں کا چاند سفید اجلے مزار قائد اعظم کی رفعت پر دمک رہا تھا۔ یہ جمعہ کی رات کا ذکر ہے۔ مصطفی کے ساتھ گیارہ بجے کا وقت طے تھا۔ تاخیر ہو گئی۔ فون کیا تو بولے: میں جلسہ گاہ میں ہوں اور طلوع فجر تک اپنے ساتھیوں کے ہمراہ وہیں پر موجود رہوں گا۔ خوشی کا جذبہ برحق، یا رب کیا ان پر خبط سوار ہے، میں نے سوچا۔ حدِ نظر تک آدم زاد۔ اجتماعِ عام میں تو ابھی دو دن باقی ہیں۔ قافلے چلے آتے ہیں اور قافلے لوٹ رہے ہیں۔ ایک میلے کا سماں۔ عوامی جلسے کیا ایسے بھی ہوتے ہیں۔ جمعہ جمعہ آٹھ دن کی پارٹی ہے۔ یا الٰہی یہ قصہ کیا ہے؎
یہ دو دن میں کیا ماجرا ہو گیا 
کہ جنگل کا جنگل ہرا ہو گیا
مصطفی کمال نے کہا: جناح گرائونڈ کے قریب پہنچو تو فون کر دینا، کسی کو بھیج دوں گا۔ وہ مختصر سی بات کرتے ہیں، ضائع کرنے کے لیے ایک لمحہ بھی نہیں۔ فون کھلا رہتا ہے۔ فوراً نہ سن سکیں تو تھوڑی دیر میں خود رابطہ کرتے ہیں۔ زندگی میں ایسا بیدار مغز، بیدار بدن آدمی کم ہی دیکھا۔ الطاف حسین نے اسے کھو دیا ہے اور اسی طرح کے بہت سے دوسرے لوگ، مثلاً ٹھنڈے ٹھار منتظم انیس قائم خانی۔ عکہ کے میدانِ جنگ سے ایک سردار رخصت ہوا تو سلطان صلاح الدین ایوبی نے ایک شعر اسے لکھ بھیجا ''میں نہیں جانتا، اس شخص نے کیا حاصل کیا، جس نے میرے جیسے دوست کو کھو دیا‘‘۔ جو آزمائش جادوگر الطاف حسین پر اتری ہے، کہیں وہ قدرت کا عتاب تو نہیں؟ ایک ایک کر کے ان کے ساتھی انہیں چھوڑ رہے ہیں۔ فاروق ستار کے پاس تاویلیں کم پڑتی جا رہی ہیں۔ اِس پر ستم یہ کہ مصطفی کمال اور ان کے ساتھی جواب تک نہیں دیتے۔ بولے تو کس پہ بولے کہ وہ ایک شریف آدمی ہیں مگر مجذوب ہیں۔ ایم کیو ایم ایک دیوار ہے، ضخیم اور طویل مگر بارش ہے کہ پیہم برستی جا رہی ہے۔ کیا وہ ٹھہری رہے گی، اسی طرح ٹھہری رہے گی ؎
اے مرے دیدۂ تر یہ تو مِرا چہرہ ہے
سنگ کٹ جاتے ہیں پانی کی جہاں دھار گرے
خوش الحانی سے گایا گیا ترانہ گونج رہا ہے: ''یہ مصطفی کمال ہے، یہ مصطفی کمال ہے‘‘ وہ کہتے ہیں، آئیے آپ کو جلسہ گاہ کا ایک چکر لگوا دوں۔ چکر وہ کیا لگوائیں گے۔ چند قدم چلنا مشکل ہے۔ ایک کے بعد دوسرا آدمی راہ روکتا ہے۔ کوئی نوجوان، کوئی بچہ، کوئی بوڑھا۔ خواتین کی ٹولیاں ہیں۔ حیران کن یہ ہے کہ سب کی سب نچلے درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والی عام گھریلو عورتیں‘ جن کے چہروں پر سادگی، حیرت اور تجسس ہے۔ خواتین تو قدرے فاصلے سے سلام کرتی ہیں۔ باقی سب ہاتھ ملانا چاہتے ہیں، تصویر بنوانا چاہتے ہیں۔ کتنے ہی نوجوان موبائل سے فلم بنا رہے ہیں، جو ابھی کچھ دیر میں سینکڑوں، ہزاروں لوگوں تک جا پہنچے گی۔ صرف کراچی شہر میں نہیں، پورے پاکستان میں، پوری دنیا میں۔
تیزی سے چلتے ہوئے، عاجزی اور انکسار کے ساتھ مصطفی کمال ان سے کہتے ہیں: دیکھئے، مہمان ہے میرے ساتھ۔ دیکھئے ہارون بھائی بہت دور سے آئے ہیں۔ براہ کرم راستہ چھوڑ دیجئے۔ ابھی میں پلٹ کر آئوں گا۔ آپ سے ملوں گا۔ آپ کے ساتھ تصویر بنوائوں گا۔ یہیں ہوں اور میں یہیں رہوں گا۔ آخرکار ایک نوجوان کو وہ حکم دیتے ہیں، آگے آگے چلو، ایک کے بعد دوسرے کو، ایسے انداز میں، جو اطاعت کا یقین رکھتا ہے۔ لیڈر کے حکم میں قوت ہے مگر درشتگی نہیں۔ وہ ایک خاندان کا سربراہ نظر آتا ہے۔ ایک بہت بڑے، بڑھتے پھلتے خاندان کا۔
مہاجر تو ہیں ہی اور ظاہر ہے کہ سب سے زیادہ۔ یو پی، سی پی اور حیدر آباد دکن کے قصبات اور دیہات کے مکین لیکن پھر وہ گروپ کے پاس رکتے ہیں۔ چوڑے سینوں والے توانا اور قد آور لوگ ہیں۔ ''یہ لیاری کے بلوچ ہیں‘‘ وہ کہتے ہیں۔ جیسا کہ بلوچوں کا مزاج ہے، وہ بازو نہیں لہراتے، نعرے نہیں لگاتے، سب جانتے ہیں کہ بلوچ جہاں کھڑے ہوں، ڈٹ کر وہیں کھڑے رہتے ہیں۔ وہ باوفا ہوتے ہیں۔ وعدے کم کرتے ہیں مگر جو کریں انہیں پورا کر ڈالتے ہیں۔ بھیک مانگنا اور مکر جانا، ان کی سماجی شریعت میں کفر ہے، وہ کہتے ہیں، لیاری والے ہمارے قاتل ہیں، مصطفی ہنستے ہوئے کہتے ہیں، ''قاتل یہ فرماتے ہیں۔ کیا میں بلوچوں کو روک دوں۔ کیا سندھیوں پر اپنا دروازہ بند کر دوں‘‘۔ آگے بڑھتے ہوئے وہ ادھیڑ عمر کے ایک آدمی سے میرا تعارف کراتے ہیں: ''یہ ہمارے دیہی سندھ کے انچارج ہیں‘‘۔ پھر کچھ اور سندھی نوجوان۔ آج کا دن حیرتوں کا دن ہے۔ ہر طبقے اور ہر لسانی گروپ کے لوگ۔ کیا پنجاب بھی ان کی طرف مائل ہوگا، چترالی، کوہستانی اور پشتون بھی۔ اگر ایسا ہو گیا تو پاک سرزمین پارٹی واقعی ایک قومی جماعت بن جائے گی۔ ایک صاحب سے تعارف کرایا گیا۔ یہ آج ہی ہماری پارٹی میں شامل ہوئے ہیں۔ تحریک انصاف کے ٹکٹ پر سندھ اسمبلی کے ممبر تھے۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ کراچی شہر نے عمران خان کی بجائے مصطفی کمال کو متبادل لیڈر چن لیا ہے۔ حکم لگانا قبل از وقت ہو گا۔ یہ تو مگر واضح ہے کہ ان کے ووٹ کم ہوئے۔ 2013ء کے الیکشن میں ساڑھے آٹھ لاکھ تھے، حالیہ بلدیاتی انتخاب میں دو اڑھائی لاکھ رہ گئے۔ کپتان کو دو کام کرنا ہوں گے۔ ایک تو خود کراچی کو وقت دینا ہو گا۔ ثانیاً دو کروڑ آبادی کے اس عظیم الشان شہر کے لیے ایک موزوں تر لیڈر کا انتخاب کرنا ہوگا۔ لگتا ہے کہ یہ علی زیدی کے بس کی بات نہیں۔ اسد عمر شاید کچھ بہتر ہوں۔ پچھلے دنوں یہ بات عمران خان سے کہی تو بولا: اللہ سے دعا کرو آسمان سے کوئی آدمی اتار دے۔ آسمانوں سے کبھی کوئی نہیں اترا۔ آدم کی ساری اولاد اسی زمین پر بستی ہے۔ کاش کہ مردم شناسی کا جوہر اس آدمی میں ہوتا، وہ تو مگر ایک ولی اللہ اور ڈاکو میں امتیاز نہیں کر سکتا۔ سب کو خود پر قیاس کرتا ہے۔ بہت سے معاملات اس نے تقدیر پر ہی چھوڑ دیئے ہیں۔ امید اس کی یہ ہے کہ ایک دن طوفان اٹھے گا اور وہ اسلام آباد کے تخت پر براجمان ہو جائے۔ 
دارا شکوہ کے اس لشکر کے ساتھ اگر وہ جیت بھی گیا تو ہار جائے گا۔ اول تو ایسے لشکروں کے ساتھ سالار جیتا نہیں کرتے۔ لوگوں کو کیا پڑی ہے کہ خواجہ آصف اور خواجہ سعد رفیق سے نجات پا کر شاہ محمودوں اور سیف اللہ نیازیوں کو اپنی گردن پر سوار کریں، سیف اللہ پر خود عمران کو اب اعتماد نہیں مگر یہ سکت بھی نہیں کہ اسے چلتا کرے۔ کراچی شہر میں تحریک انصاف کا زوال عبرت انگیز ہے۔ اندمال کی اس کے باوجود فکر نہیں۔
آخرِ کار ہم ایک کونے میں آ بیٹھے ہیں‘ تھوڑے سے وقت میں تبادلۂ خیال کے لیے۔ میں نے اس سے یہ کہا: پاکستان میں کوئی حقیقی سیاسی پارٹی نہیں۔ کوئی لیڈر نہیں۔ لیڈر وہ ہوتا ہے جس کا ہاتھ حالات کی نبض پر ہو۔ جو صاحب عزم مگر اپنے مقصد سے مخلص ہو۔ مقبولیت زعم پیدا کرتی اور لیڈر کو گھن کی طرح کھا جاتی ہے۔ انکسار اور اخلاص اگر باقی رہا تو کامیابی اس کے قدم چومے گی۔ ندی سمندر ہو جائے گی۔ مزید یہ کہ جلد بازی نہ کرنا۔ وہ تائید میں سر ہلاتا ہے، کوئی جلدی نہیں، اصل چیز تنظیم ہے۔ میں جانتا ہوں کہ کامیابی تو اللہ کی طرف سے ہوتی ہے۔ میں تو اس خیال سے آیا تھا کہ اپنی گواہی رقم کر کے لوٹ جائوں۔ دل کا بوجھ ہلکا کر لوں۔ لیکن پھر لوگ ٹوٹ پڑے۔ ہجوم در ہجوم وہ میرے پاس چلے آتے ہیں۔ ''اسلام آباد تشریف لائیے‘‘ میں کہتا ہوں ''کچھ لوگوں سے آپ کو ملوا دوں۔ لیڈر کی کھیتی خلق سے براہ راست رابطے میں پروان چڑھتی ہے‘ ٹیلی ویژن کے مناظروں سے نہیں۔ مقبولیت کے باوجود لوگ ناکام ہوتے ہیں جب وہ تکبر کا شکار ہوں۔ جب وہ مشورہ نہیں کرتے۔ خود کو عقلِ کل سمجھنے لگتے ہیں‘‘۔ یہ بھی عرض کیا: ''الطاف حسین کو اپنا دردِ سر نہ بنائیے گا۔ بڑی تصویر دیکھنے کی کوشش کیجئے۔ رہنما وہ ہوتا ہے جو مستقبل میں جھانک سکے اور جس کے دل میں عام آدمی کا درد ہو‘‘۔
شب ایک بجے وہاں سے نکلا تو میرا خیال یہ تھا کہ تاریخ کا ایک نیا باب رقم ہونے والا ہے۔ مزار قائد کی رفعت پہ چاند چمکتا اور اس منظر کو دیکھتا رہا جو شاید کبھی کتابوں کا حصہ بنے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں