آدمی عجیب ہے ۔ خرابی اکثر اس کے اندر ہوتی ہے ۔ وہ اسے باہر ڈھونڈتا اور دوسروں کو مطعون کرتا رہتاہے ۔
کپتان کیا کرے ؟ یہ ایک سوال ہے ۔ دوسرا یہ ہے کہ فی الواقع وہ کیا کر سکتاہے ؟ آدمی کی افتادِ طبع ہی اس کی تقدیر ہے ۔ اپنے ساتھیوں پر انحصار کرنا اور اپنے ماحول سے نمٹنا پڑتاہے ۔ زمینی حقائق کو ملحوظ رکھنا اور کارفرما قوتوں کے رجحانات کا جائزہ لینا ہوتاہے ۔
میرے پسندیدہ ،عامر خاکوانی کی تحریر نے یہ کالم لکھنے پر آمادہ کیا ۔سوشل میڈیا کے ایک بلاگ سے کچھ نکات انہوں نے نقل کیے ۔کچھ اچھے مگر معاف کیجیے ، ایک دیرپا کامیابی کی قندیل بہرحال نہیں ۔ مقبولیت کے نسخے ہیں مگر ملک کو درپیش مسائل کا ذکر تک نہیں ۔
مقبولیت ہی سب کچھ ہوتی تو30اکتوبر 2011ء کو مل گئی تھی۔ چند ماہ تک تحریکِ انصاف مقبول ترین پارٹی تھی مگر اس کا بھلا نہ ہوا۔ بے قت پارٹی الیکشن کا ڈول ڈالا۔ تنظیم پر توجہ نہ دی ۔ پولنگ ایجنٹ تیار نہ کیے اور سب سے بڑھ کر امیدواروں کے انتخاب کا کوئی معقول نظام نہ بنایا گیا۔ نتیجہ اس کے سوا کیا نکلتا۔ دھاندلی ضرور ہوئی ۔ اگر نہ ہوتی تو زیادہ سے زیادہ بیس پچیس سیٹیں اور لے مرتے مگر ان کی حکومت نہ بن سکتی تھی ۔ الیکشن سے تین ہفتے قبل انہیں بتا دیا گیا تھاکہ گوجر خان سے گوجرانوالہ تک ایک سیٹ بھی وہ جیت نہ سکیں گے ۔ خیر خواہوں کی بات سننے سے انہوں نے انکا رکر دیا۔ ایک ایک کرکے وہ انہیں چھوڑ گئے ۔ ہارون خواجہ اور ان سے بڑھ کر پروفیسر احمد رفیق اختر نے ہاتھ اٹھا لیا۔ مذمت اور مخالفت سے انہوں نے گریز کیامگر کھیل بگڑ چکا تھا۔
2012ء اور 2013ء میں ،پیہم ان سے کہتا رہا کہ کاروباری طبقے کو نظر انداز نہ کرو۔ تمام بڑے شہروں میں ان کے کنونشن ہونے چاہئیں ۔ تاجر رہنمائوں سے رابطہ چاہیے ۔ برائے نام ہی خان نے توجہ دی ۔ اکتوبر کے تاریخی جلسے کی شب وہ چین روانہ ہو گئے ، تیاری کے بغیر ۔ بعد میں معلوم ہواکہ چینی قیادت کو ان سے مایوسی ہوئی ۔ اس کا تجزیہ یہ تھا کہ ملک کے اصل مسائل کا خان صاحب کو ادراک نہیں ۔ ترجیحات ان کے ذہن میں واضح نہیں ۔ الیکشن سے قبل تاجر لیڈروں نے نواز شریف کی حمایت کا فیصلہ کیا۔ بجا طور پر ان سے وہ مراعات کی امید رکھتے تھے ۔
ایک واقعہ الیکشن سے چھ ماہ قبل رونما ہوچکا تھا۔ جب اپنے ساتھیوں کے ہمراہ وہ ایک عرب ملک کے سفارت خانے میں گئے ، جو پاکستان کو بہت زیادہ اہمیت دیتا ہے ۔ جیسا کہ عربوں کا مزاج ہے ۔سفیر صاحب نے صاف صاف کپتان سے کہہ دیا کہ نواز شریف کی حمایت کا انہوں نے فیصلہ کیا ہے ۔ اسے بھی ان کی تائید کرنی چاہیے ۔ وہ خاموش رہا۔ اس کا خیال تھا کہ وہ ایک طوفان لے کرآئے گا۔ اس کی راہ کون روک سکتا ہے۔ محتاط ترین الفاظ میں بھی عسکری قیادت کے بارے میں اس کارویہ غیر ذمہ دارانہ تھا۔ مداخلت کرنا ہوتی تو سپہ سالار کرتے۔ اسے گر بتائے جاتے۔وہ اس کی پشت پر کھڑے ہوتے مگر وہ غیر جانبدار تھے بلکہ لاتعلق ۔ بعد ازاں انہوں نے مجھ سے کہا کہ انہیںفوج کی عزت بچانا تھی۔ امریکہ کوعمران خان رگیدتے رہے اور نواز شریف نے ان سے سمجھوتہ کر لیا۔ ہمایوں اختر کے مشورے پر میاں صاحب نے ملک بھر میں سروے کرائے۔ مزید یہ کہ بدلتے ہوئے حالات کی بو پا کر ہر اس امیدوار کو قبول کر لیا جو جیت سکتا تھا۔
2014ء کے دھرنے پر کچھ عرض کرنے کی ضرورت نہیں ۔ تین ہفتے قبل محمود شام کی موجودگی میں ، بھرے مجمع میں ، میں نے اس سے کہاتھا'' لونڈوں لپاڑوں کی بات نہ ماننا، وہ تمہیں مروا دیں گے ۔‘‘ ایک قہقہہ....اور وہ اپنی راہ چلتا رہا۔
پختون خوا میں پولیس کو اس نے سیاسی اثرات سے پاک کرنے کی کوشش کی ۔ پٹوار پہ گرفت کی ۔ ہسپتالوں اور سکولوں کو بہتر بنایا ۔ صوبے میں اس کی انڈر 19ٹیم کی کارکردگی بدرجہا بہتر ہوتی ، توجہ اگر بھرپور ہوتی ۔ عرض کیا تھا : ڈاکٹر سڈل کو لے جانا۔ محنتی اور جہاں دیدہ ہیں ۔ وہ سول سروس ، پولیس، انٹلی جنس اور احتساب کے ادارے سنوار دیتا۔ وہ انہیں محتسب بننے پر بھی آمادہ نہ کرسکا۔ڈاکٹر صاحب کا خیال تھاکہ قانون کمزور ہے ۔ بہتر بنانے کا اس نے وعدہ کیا اور پورا نہ کر سکا۔صوبے پر اس کی گرفت نہ تھی ، جس کا بہترین راستہ کارکنوں سے موثر رابطے کے سوا کچھ نہ تھا۔
سوال جوڑ توڑ اور مقبولیت کا ہے ہی نہیں ۔ نواز شریف گرے تو اپنی غلطیوں سے گریں گے ۔ سوا ل یہ ہے کہ ملک کے مسائل کیا ہیں او ر کیونکر حل ہو سکتے ہیں ۔ دہشت گردی ، امن و امان ، کرپشن ، عدلیہ ، ٹیکس وصولی۔ سول سروس اور پولیس کی اصلاح ، سرکاری دفاتر میں تحرک۔ ازکار رفتہ ٹھیکیداری نظام۔ سرکاری کارپوریشنوں میں برباد ہوتا روپیہ۔ اہم ترین، عام انتخاب لڑنے کی مہارت ۔
نسخہ یہ ہے کہ پارٹی کو بہترین انداز میں منظم کیا جائے ۔ ماہرین کی قیادت میں جواں سال پیشہ ور نوجوانوں کے گروپ بنائے جائیں ۔ ریلوے کوئی عجوبہ ہے ، نہ پی آئی اے اور سٹیل مل۔ جدید سول سروس کیسی ہو۔سکول اور ہسپتال کیونکر بہتر ہوں گے ۔ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے سول اداروں کی تشکیلِ نو ۔ کرپشن کے بنیادی عوامل کیا ہیں اور اندمال کس طرح ممکن ہے ۔ انٹلی جنس کیونکر بہتر بنائی جا ئے کہ چین اور ایران کی طرح موثر ہو جائے ۔ عدالتی اصلاحات اور ظاہر ہے کہ عدلیہ کے تعاون سے ، جیسا کہ بہار کے وزیرِ اعلیٰ نتیش کمار نے اسے بتا یا تھا۔ ایف بی آر کی تشکیلِ نو کہ اس میں بدعنوانی کا خاتمہ ہو۔ تاجروں کو ہراساں کیے بغیر ٹیکس وصول کیاجائے مگر چوری کی اجازت نہ ہو۔ عسکری قیادت سے صحت مندانہ تعلقات ۔ فوج سے مل کر سیاست کا نام سازش ہو تا ہے اور نتیجہ تباہی۔ مگر اسے ملحوظ رکھنا ہوتاہے ۔ اسی طرح کاروباری لوگوں سمیت فعال طبقات مثلاً میڈیا کو۔ عربوں سے رہ و رسم۔ ان کے لیے نہیں، اپنے قومی مقاصد کے لیے ۔ آزاد خارجہ پالیسی اور امریکہ سے آزادی کا راستہ اقتصادی تعمیر ہے ۔ نعروں اور دھمکیوں سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔ اصرار کے ساتھ عرض ہے کہ سب سے اہم تعلیم ہے ۔ بجٹ کچھ بڑھ جائے ۔ اساتذہ کی تربیت ہو ۔ ان کی عزت کی جائے ۔ نگرانی کا موثر نظام قائم کیا جائے ۔ جیسا کبھی تھا۔ تعلیمی ایمر جنسی اس کا آئیڈیا ہے اور بہت اچھا۔ رضا کاروں کی مدد سے تعلیمِ بالغاں کی مہم کا منصوبہ پہلے سے مرتب ہونا چاہیے ۔ نواز شریف کا سا حال نہ ہو کہ 1996ء میں اقتدار سنبھالا تو اگلی صبح ساتھیوں سے پوچھا '' ہن کیہہ کریے‘‘۔ 2013ء میں تیسری بار وزیرِ اعظم بنے تو مہینوں تک قوم سے خطاب کرنا اور مسکرانا تک بھول گئے ۔
عمران خان نواز شریف پہ ذاتی تنقید بہت کرتے ہیں ۔ اس سے کیا حاصل؟ ہدف ان کی پالیسیاں اور اقدامات ہونے چاہئیں۔ قائدِ اعظم مخالفین پہ کم ہی تنقید کرتے ۔کمال اعتماد سے لائحۂ عمل پیش کرتے۔دوسروں کی خامیوں پر نہیں ، اپنی خوبیوں پہ زندگی بسر کی جاتی ہے ۔ پانامہ لیکس پہ بات ہونی چاہیے مگر اس میں چیخنے کی ضرورت کیاہے ؟ احتجاجی مہم کا یہ مطلب کیسے ہو اکہ پارٹی کی تنظیم اور پختون خوا میں حکومت پر توجہ نہ دی جائے ۔ ساتھیوں پہ ان کی گرفت نہیں ۔ اترسوں جہانگیر ترین کے عشائیے میں شاہ محمود اور چوہدری سرور باہم الجھتے رہے ۔ بدمزہ ہو کر وہ اٹھا اور چلا گیا۔ سندھ یاتراکا منصوبہ شاہ محمود نے بنایا اور چل نکلا۔ عجیب آدمی ہے ۔ گروپ کا سرپرست بناتو ان سے کہا : تم سب ڈبّے ہو ۔ تمہیں انجن کی ضرورت تھی اور وہ میں ہو ں ۔ اب اسے شاہ محمود گروپ کہا جاتاہے ، شکست خوردہ!
جن خطوط پر خان کی سیاست سرگرم ہے ، مجھے اندیشہ ہے کہ نواز شریف سے مایوسی اور اس کی مقبولیت کے باوجود وہ کامیاب نہ ہوگی ۔ الیکشن 2013ء اور دھرنے کی طرح ۔ شوکت خانم ہسپتال اور نمل یونیورسٹی کیسے تعمیر ہوئے ؟ ماہرین کی مدد سے ۔ جس کاکام اسی کو ساجے ۔عرب کہتے ہیں ''لکل فن رجال‘‘ ہر کام کے الگ آدمی ہوتے ہیں ۔ آدمی عجیب ہے ۔ خرابی اکثر اس کے اندر ہوتی ہے ۔ وہ اسے باہر ڈھونڈتا اوردوسروں کوٓ مطعون کرتا رہتاہے ۔