سب سے اہم یہ جناب کپتان! انتقام نہیں قصاص، استعفیٰ نہیں احتساب، جوش و جنون نہیں، حکمت و تدبیر، حکمت و تدبیر جناب والا! فیصلہ کن مرحلہ آ پہنچا۔
اپوزیشن نے بائیکاٹ کیوں کیا؟ سوچا، شاید کوئی حکمتِ عملی ہو۔ ممکن ہے کہ وہ پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کر دیں اور عوام کے سامنے جانے کا فیصلہ کریں۔ ایسا تو کچھ نہیں ہوا۔ کوئی گھٹا نہیں اُٹھی کہ ابر برسے۔ اجلاس میں شریک لوگوں سے پوچھا تو کوئی معقول جواب نہ ملا۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ تحریک انصاف، شیخ رشید اور چوہدری پرویز الٰہی سمیت سب لوگ اس اقدام میں شریک تھے۔ تنہا پیپلز پارٹی ذمہ دار نہیں۔ ذہنی افلاس کا مظاہرہ یا بے دلی کا؟ کیا ان کا خیال یہ تھا کہ اگر عمران خان کو موقع ملا تو وہ لیڈر بن کر ابھرے گا؟ اعتزاز احسن کے ہاں اپوزیشن کے اجلاسوں میں امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے تجویز کیا کہ میزبان اخبار نویسوں سے بات کرے۔ اعتزاز احسن بجا مگر خورشید شاہ اور عمران خان کیوں نہیں؟ 1977ء میں بھٹو کے خلاف احتجاجی تحریک میں ایئرمارشل اصغر خان کا راستہ روک دیا گیا تھا، جن کی سنی جاتی تھی، ایک دن کراچی میں آٹھ لاکھ افراد جن کا استقبال کرنے جمع ہوئے تھے۔کیا آج بھی اپوزیشن کے کچھ لوگ عمران خان سے خوف زدہ ہیں؟ آنے والا وقت ہی جواب دے گا۔
یہ تو واضح ہے کہ بعض پارٹیاں دبائو کے تحت اس تحریک کا حصہ ہیں۔ سب سے بڑھ کر پیپلزپارٹی کہ وہ ایک مکمل احتساب کی متحمل ہی نہیں۔ نواز شریف جب یہ کہتے ہیں کہ بینکوں کے قرضے لُوٹ کھانے اور دوسرے جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کا بھی محاسبہ ہو گا تو زرداری اینڈ کمپنی کے دلوں پر کیا گزرتی ہو گی۔ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے کسی افلاطون کی ضرورت نہیں۔ خورشید
شاہ کا لہجہ روز بروز شیریں سے شیریں تر ہوتا جا رہا ہے۔ بلاول بھٹو نے وزیر اعظم کے استعفے کا مطالبہ کیا تو فوراً ہی انہوں نے تردید کر دی اور بالکل واضح الفاظ میں۔ ان کا کہنا یہ تھا: ''وزیر اعظم سے کسی نے استعفیٰ مانگا ہی نہیں‘‘۔ آزاد کشمیر کے جلسے میں ان کی بجائے کوئی ہمزاد تھا، جیسا کہ فلموں میں ہوتا ہے۔ اس کے بعد رحمن ملک نمودار ہوئے اور یہی بات کہی۔ اس آدمی نے کہ اس ملک میں اگر قانون نافذ ہوتا تو وہ کال کوٹھڑی میں پڑا ہوتا۔ بالکل اچانک ایم کیو ایم نے متحدہ اپوزیشن کو خیرباد کہنے کا فیصلہ کیا۔ وزیر اعظم کے خطاب کے ایک دن بعد جن اعتراضات کا اظہار کیا، وہ تو ایک دن پہلے بھی واجب تھے۔ کیا یہ کوئی راز ہے کہ الطاف حسین کی ڈوری بعض اوقات سرحد پار سے ہلائی جاتی ہے۔ آخر انہیں کس دن کے لیے بچا رکھا گیا ہے۔
اطلاع یہ تھی کہ لندن میں آصف علی زرداری نے نواز شریف کے ساتھ بات کرنے سے گریز کیا۔ تازہ ترین یہ ہے کہ دونوں بھائیوں میں بات چیت ہوئی مگر جناب رحمن ملک کے توسط سے۔ بتایا گیا ہے کہ زرداری صاحب نے تین عدد فرمائشیں کیں۔ اوّل یہ کہ ان کے دستِ راست ڈاکٹر عاصم کی ضمانت اور رہائی کا بندوبست کیا جائے۔ ثانیاً عزیر بلوچ کی ضمانت کہ ایک کے بعد دوسرا راز وہ اگلتا جا رہا ہے۔ پہلے چند دن عزیر بلوچ خاموش رہا تھا۔ پھر اسے ٹی وی پروگراموں کے وہ حصے دکھائے گئے، جن میں اس کا ذکر تحقیر کے ساتھ کیا گیا تھا۔۔۔۔'' ہاں، وہ ایک بلوچ ‘‘۔۔۔۔ ''ہمارا اس سے کیا واسطہ‘‘۔ اس پر وہ ٹوٹ گیا، رویا اور فرفر بولنے لگا۔ اصلاً وہ کمزور آدمی ہے۔ اپنے حالات کا اسیر ہو کر وہ جرم کی راہ پر چل نکلا اور دلدل میں دھنستا گیا۔ زرداری صاحب کی تیسری فرمائش یہ ہے کہ ماڈل ایان علی کی مدد کی جائے۔ پہلے بھی اس کی مدد کی گئی۔ جیل میں اس نے شاہانہ بسر کی۔ اس مقدمے کی تفتیش کرنے والوں میں سے ایک کو قتل کر دیا گیا اور اس قتل کا سراغ لگانے کی بظاہر کوئی کوشش نہیں۔ بات صرف اتنی سی نہیں کہ ع
کریم اپنے غلاموں کو کبھی رسوا نہیں کرتے
اس سے کچھ بڑھ کر ہے۔ میرا خیال ہے کہ بہت بڑھ کر۔ میرا قیاس ہے کہ اپوزیشن کو خیر باد کہنے والی دوسری پارٹی اے این پی ہو سکتی ہے۔ ایک قیاس یہ بھی ہے کہ جناب زرداری اور خورشید شاہ اسی ریاکارانہ پالیسی پر گامزن رہے تو پیپلز پارٹی سے سینیٹر اعتزاز احسن کی راہ الگ ہو سکتی ہے۔
وزیر اعظم نے سرحد پار سے بھی مدد مانگی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ہی اس کی تفصیلات سامنے آ سکیں گی۔ دور دراز تک ایک ایک دروازہ کھٹکھٹا رہے ہیں۔ ایک اطلاع کے مطابق، جس کی تصدیق کرنا ممکن نہیں، اپریل میں چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے اردن کے شاہ عبداللہ سے ملاقات کی تو انہوں نے وزیر اعظم پاکستان کی سفارش کی۔ اس سفارش کی ضرورت انہیں کیوں پیش آئی؟ کیا یہ ان کا اپنا فیصلہ ہے یا کسی اور نے یہ ذمہ داری انہیں سونپی؟ اب تک ایسی کوئی اطلاع نہیں کہ امریکیوں نے براہِ راست کوئی مداخلت کی ہو۔ اسی طرح ایک اور غیر مصدقہ اطلاع یہ ہے کہ جنرل راحیل شریف کو سبکدوشی کے بعد، سعودی عرب کی قیادت میں کار فرما فوجی اتحاد کا سربراہ بننے کی پیش کش کی گئی ہے۔ یہ کہا گیا ہے کہ اپنی شرائط کار کا تعین وہ خود کر سکتے ہیں۔ اگر پسند کریں تو جنرل صاحب خود اس اطلاع کی تصدیق یا تردید کر سکتے ہیں۔
میاں محمد نواز شریف ایوان سے خطاب کرنے گئے تو دبائو کا شکار تھے، اعتماد سے محروم۔ اب وہ قدرے آسودہ ہیں۔ چینی لیڈروں سے بھی سلسلہ جبنانی ہے۔ انہیں وہ سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ بحران بڑھا تو تجارتی راہداری اور پاکستان میں سرمایہ کاری کا منصوبہ کھٹائی میں پڑ سکتا ہے۔ ہوا کے رُخ اور سرکاری پارٹی کے تیوروں کا اندازہ لگانے کے لیے اسحق ڈار شاید سب سے موزوں آدمی ہیں۔ وہ اتھلے ہیں۔ کامیابی کی امید پا کر بہت جلد چمک اٹھتے ہیں۔ جلد چہکتے اور جلد خوفزدہ ہو جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ آخر میں دھرنے والے تنہا رہ جائیں گے تو اس کا مطلب کیا ہے؟ امید کی چنگاری اس قدر روشن کیسے ہو گئی کہ بجٹ کے ہنگام دبائو کا شکار، غیر ملکیوں کی نگرانی میں میزانیہ بناتا وزیر گیت گانے لگا۔ کوئی معشوق ہے اس پردۂ زرنگاری میں؟
عمران خان اور انہیں بھڑکانے والے شیخ رشید کی بنیادی غلطی یہ ہے کہ وہ جلد از جلد وزیر اعظم سے نجات چاہتے ہیں؛ حالانکہ اصرار احتساب پہ ہونا چاہیے۔ پوٹھوہار کی ضرب المثل یہ ہے: جلد باز تین بار غسل خانے جاتا ہے۔ فوراً نواز شریف نہیں جا سکتے۔ ابھی تو فقط ان پر الزامات ہیں، خدانخواستہ پورا ملک ڈوب رہا ہو تب بھی وہ اقتدار سے چمٹے رہنے کی کوشش کریں گے، الّا یہ کہ مجبورکر دیئے جائیں۔ امریکہ، برطانیہ، بھارت، عرب ممالک، دو میڈیا گروپ اور کاروباری طبقہ یہ کیسے گوارا کرے گا۔ شریف خاندان اور ان کے حواریوں کا سب کچھ دائو پر لگا ہے۔ شکست کے وہ متحمل ہی نہیں۔ اپنا سب کچھ نون لیگ جھونک دے گی۔ اس بات میں وہ یکسو ہے۔ اپوزیشن نہیں ہے۔
عمران خان کے لیے ایک راہ اب بھی کھلی ہے۔ وہ عوام کے پاس چلے جائیں، جلسے اور رمضان المبارک کی راتوں میں ہر تیسرے دن ایک مشعل بردار جلوس۔ حکومت ہی نہیں اپوزیشن پر بھی دبائو بڑھے گا۔ اگر وہ انتظار کرتے رہے تو وقت ان کے ہاتھ سے پھسل جائے گا۔ اچھے موسم کا جو لوگ انتظار کرتے ہیں، اچھے دن ان کی زندگی میں کبھی نہیں آتے۔ عمر شیخ مرزا دنیا سے اٹھے تو گرما کے یہی دن تھے۔ تین طرف سے دشمن ان کے بارہ سالہ فرزند ظہیر الدین بابر پہ ٹوٹ پڑے۔ وہ ان سازشیوں سے زیادہ بڑے سازشیوں میں گھرا تھا، جو عمران خان کے ارگرد ہیں اور ان میں اس کا بڑا بھائی جہانگیر شامل تھا۔ جہانگیر کی والدہ ماجدہ فاطمہ سلطان بھی، بابر کی سوتیلی ماں۔
خدا کی یہ دنیا بزدلوں اور متذبذب لوگوں کے لیے نہیں بنی ہے۔ غداروں کو اگر مہلت دی جائے تو ٹیپو سلطان ایسے عظیم سپہ سالار کے لیے شکست لکھ دی جاتی ہے، وہ کہ جس نے نپولین کو ہرانے والے انگریز جنرل کو خاک چاٹنے پر مجبور کر دیا تھا۔ سب سے اہم یہ جناب کپتان! انتقام نہیں قصاص، استعفیٰ نہیں احتساب، جوش و جنون نہیں، حکمت و تدبیر، حکمت و تدبیر جناب والا! فیصلہ کن مرحلہ آ پہنچا۔