ملاّ منصور والے واقعہ کے بعد افغانستان ایک بار گرداب میں ہے۔ یہ ایبٹ آباد پر حملے ایسی اہمیت رکھتا تھا۔ تب بھی اس کی کشتی بھنور میں تھی۔۔۔۔ اور 1974ء کے بعد کب نہ تھی۔ عراق اور افغانستان ہمیشہ شورش زدہ رہے۔ برطانوی مورخ نے انہیں Turn abouts of Historyکہا تھا۔ دنیا کے وہ خطے جہاں قوموں کی قسمت کے ستارے ڈوب جاتے ہیں۔ غیر ملکی مداخلت کے علاوہ ان کے معاشروں کے قبائلی مزاج کا عمل دخل بھی ہے۔ افغان شکی ہیں، غیر ملکیوں کے باب میں اور بھی زیادہ سخت گیر ‘
بے لچک‘ مذہبی اور منتقم مزاج ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ٹینک کے سامنے ایک افغان ڈٹ کر کھڑا ہو سکتا ہے، ڈالر کے سامنے پگھل جاتا ہے۔ 1992ء کے موسم سرما کی اس سویر جب مارگلہ کی پہاڑیوں پر سورج طلوع ہو رہا تھا، حکمت یار نے اپنے ملاقاتی سے یہ کہا: میں نے اپنے ہر مخالف کو معاف کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پھر اضافہ کیا: دوسروں کے بارے میں، میں کچھ نہیں کہہ سکتا مگرمیں کسی سے انتقام نہیں لوں گا۔ دو افغان لیڈروں کے بارے میں اسے تشویش تھی۔ عبدالرب رسول سیاف اور احمد شاہ مسعود۔ ''میرے لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ کیا رویہ اختیار کریں گے‘‘ اس نے کہا ''مگر میں اپنی سی کوشش ضرور کروں گا‘‘۔
اس شاندار نظام کی بدولت جو برسوں کی ریاضت سے اس نے تشکیل دیا تھا، دروازہ رسان سے کھلا اور بہت سہولت کے ساتھ ملاقات کے کمرے میں لے جایا گیا۔ اب مگر ایک ایک کر کے مجلس عاملہ کے ارکان لائونج میں جمع ہونے لگے۔ وہ اس پر حیران تھے کہ اس تاریخی موقع پر، اتنے اہم اجلاس میں تاخیر ہوئی جاتی ہے اور ان کا لیڈر ایک اخبار نویس سے گپ شپ میں مصروف ہے۔ تفصیل کے ساتھ نوٹس لکھنے سے میں نے گریز کیا کہ وقت ضائع نہ ہو۔ ذہن واضح تھا اور یادداشت بھی تب اچھی تھی۔ گفتگو دراز ہوتی گئی ۔ان اجلاسوں کے بارے میں بعض جزئیات پر اس نے روشنی ڈالی، اسی دھیمے لہجے میں، جو اس کی شناخت ہے۔ ایک ایک لفظ کا احتیاط سے انتخاب کرتے ہوئے، اپنے عزائم اس نے بیان کر دیئے۔ برسوں بعد ایک دن عمران خان سے میں نے کہا: آپ بالکل دو مختلف طرح کے آدمی ہیں۔ حکمت یار سے ایک زائد لفظ بھی آدمی اگلوا نہیں سکتا اور آپ کچھ چھپا نہیں سکتے۔ اس پر وہ جھینپ سا گیا اور یہ کہا: کاش میں اس کی طرح ہوتا۔ عمران خان حکمت یار سے متاثر تھا۔ایک بار قاضی حسین احمد سے اس نے کہا تھا کہ وہ دوسروں سے مختلف ہے۔ یہ اس زمانے کا قصہ ہے جب وہ سیاست میں نہیں آیا تھا۔ وہ اس خطے میں پشتونوں کا سب سے بڑا لیڈر بن کے ابھر رہا تھا۔ اسی زمانے میں عبدالولی خان نے جو خود کو افغانستان کی داخلی سیاست کا ایک کردار سمجھتے تھے‘ اور ہمیشہ کابل کے حکمران سے قوت حاصل کرنے کی کوشش کرتے( جیسا کہ ان کے بعد اسفند یار اور محمود اچکزئی) حکمت یار سے ملاقات کی کوشش کی مگر اس نے انکار کردیا۔''اسلام اور انسانیت تو کجا آپ نے پشتون روایات کو بھی فراموش کر دیا‘‘ اس نے کہا تھا۔ دوسرے دو مواقع پر اس نے یاسر عرفات کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا تھا۔ ''میں اس کی عزت کرتا تھا‘‘ ملاقاتی کو اس نے بتایا۔ نظریات الگ مگر میں یہ سمجھتا تھا کہ بہر حال وہ ایک حرّیت پسند ہے۔ پھر جب میں نے اسے بے نظیر بھٹو کی منت سماجت کرتے دیکھا کہ امریکیوں سے اس کی مصالحت کرا دے تو مجھے صدمہ پہنچا۔''بیرون ملک ایک بار اچانک وہ میرے ہوٹل آ پہنچا اور دستک دی۔ میں نے مگر معذرت کر لی‘‘۔ ان لوگوں کو وہ سخت ناپسند کرتا تھا جو اپنے قدموں پر کھڑے نہ رہ سکیں۔ امریکی صدر رونالڈ ریگن کے ساتھ ملاقات سے انکار اس کے مزاج کا شاخسانہ تھا، جس کے بعد امریکی اس کے اور بھی دشمن ہو گئے۔ گلبدین کا اعتراض یہ تھا کہ وہ اس کی جماعت کے خلاف سازشوں میں لگے رہتے ہیں۔
ایک کے بعد دوسرے عرب سفیر، ایک کے بعد افغانوں کی امداد کرنے والے ممالک کی کسی دوسری اہم شخصیت، آئی ایس آئی اے کے افسروں حتیٰ کہ دوسرے ممتاز افغان لیڈروں اور حزب اسلامی کے ہر قابل ذکر لیڈرنے اس سے بات کی۔ جنرل محمد ضیاء الحق صدر ریگن سے وعدہ کر چکے تھے اور اب پریشان تھے۔ ریگن کی 45 سالہ صاحبزادی نے حکمت یار کے کمرے میں پڑا ٹیلی ویژن کھول دیا جس میں ممکنہ ملاقات کا وقت بتایا جا رہا تھا۔ امریکی اخبارات تبصروں سے بھرے تھے۔ حکمت یار کے انکار کی کسی کو خبر نہ تھی کہ وہ خاموش تھا۔ صدر امریکہ کی کیاعزت رہے گی، اگر آخری وقت پر انکشاف ہو کہ ایک افغان لیڈر نے وائٹ ہائوس میں داخل ہونے سے انکار کر دیا ہے؟ روز ویلٹ ہوٹل میں تین دن اور تین راتیں وہ جاگتا رہا۔ مس ریگن نے کہا: ایک عدد ہیلی کاپٹر آپ کو واشنگٹن لے جانے کے لیے تیار کھڑا ہے۔ ''میں پیدل چل کر جانے کے لیے تیار ہوں‘‘ اس نے جواب دیا '' اگر میری شرائط مان لی جائیں‘‘۔ ان میں سے ایک یہ تھی کہ امریکہ جلاوطن افغان حکومت کو تسلیم کرے۔ حکمت یار کا اندیشہ یہ تھا کہ روسیوں کی واپسی کے بعد امریکی اس کے خلاف سازش کریں گے۔ اپنی مرضی کی حکومت وہ کابل پر مسلط کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس کے اندیشے بعد میں درست ثابت ہوئے۔ نواز شریف کی مدد سے انہوں نے صبغت اللہ مجددی کو مسلط کر دیا اور اس کے بعد برہان الدین ربانی کو۔ ربّانی کو جنرل اختر عبدالرحمن ''میسنا‘‘ کہا کرتے۔ دلچسپ واقعہ وہ سنایا کرتے۔ فارسی بان لیڈر کو ایک بار آئی ایس آئی کے صدر دفتر مدعو کیا گیا۔ وہ پاک افغان سرحد پر تھے۔ اپنی چارپائی چند فٹ وہ پرے لے گئے اور جواب بھیجا کہ وہ افغانستان جا چکے۔
ہر ماہ ایک پورا دن جنرل ضیاء الحق آئی ایس آئی کے صدر دفتر میں گزارا کرتے یا ایوان صدر میں متعلقہ لوگوں سے دن بھر بات کیا کرتے۔ پیہم تبادلۂ خیال سے چند نکات اصولی طور پر طے پا چکے تھے۔ صدارتی نظام، شرعی قوانین، غیر ملکی قرضوں سے گریز اور ایک مختصر سی مضبوط پیشہ ورانہ فوج۔ جنرل کا منصوبہ یہ تھا کہ بڑی جماعتوں حزب اسلامی اور برہان الدین ربانی کی جمعیت اسلامی پر مشتمل حکومت قائم کی جائے ۔ ہر اس پارٹی کو اقتدار میں شامل کیا جائے گا، جو شامل ہونے کے لیے تیار ہو۔ ظاہر ہے کہ حکمت یار کو صدر بننا تھا۔ نہ صرف اس لیے کہ پشتو بولنے والے افغانستان کی آبادی کا سب سے بڑا حصہ ہیں، بلکہ اس لیے بھی کہ شمال میں حکمت یار کے اثرات تھے، فارسی بولنے والے جہاں اکثریت میں ہیں۔ حزب اسلامی ہی واحد ملک گیر پارٹی تھی۔ خود حکمت یار کا تعلق شمال کے صوبے قندوز سے تھا۔ دریائے آمو کی بندر گاہ شیر خان بندر سے ادھر سرائے نازک میر سے آگے، ایک چھوٹے سے گائوں امام صاحب سے، جہاں بیسویں صدی کے اوائل میں اس کا خاندان جا بسا تھا۔ ایک بار یہ پوچھا گیا کہ کیا اس کی کوئی حسرت ہے۔ اس نے کہا قندوز کے خربوزے۔ ایک پرندہ، جس کا گوشت بہت لذیذ ہوتا ہے اور جس کا وہ شکار کیا کرتا۔ قندوزکے خربوزے اب پاکستان میں دستیاب ہیں، اگرچہ اگانے والوں کو شاید معلوم نہیں کہ ان کا بیج اوّل اوّل کہاں سے لایا گیا تھا۔ کوئٹہ کی سبزی منڈی میں انہیں چاغی کے خربوزے کہا جاتا ہے۔ بارشوں سے زمین گیلی ہو جائے تو بیج بو دیئے جاتے ہیں۔ چند ہفتوں کی بے رحم دھوپ میں بڑے سائز کا پھل پک کے تیار ہو جاتا ہے۔ بلوچستان کے شفتالو کا ذکر صدیوں سے سننے میں آ رہا ہے،حتیٰ کہ بادشاہ جہانگیر کی خود نوشت میں بلوچستان کا پھل شاید دنیا میں سب سے زیادہ لذیذ ہوتا ہے۔ گوشت کے پکوان بھی رفتہ رفتہ جو سارے ملک میں پھیلتے جا رہے ہیں۔ شفتالو اور نہ چیری، چاغی کے خربوزوں سے کسی پھل کا موازنہ ممکن نہیں۔ انور رٹورل آم کی طرح شیریں اور اسی کی طرح خوشبو دار۔ جب بھی گرما میں کوئٹہ جانا ہوا‘ جب بھی بلوچستان سے یہ تحفہ موصول ہوا، حکمت یار مجھے یاد آئے، خاص طور پہ جب تک جنرل جنجوعہ شمالی کمان کے سربراہ رہے اور ہر موسم میں کئی بار بھجوایا کرتے۔ چاغی کے خربوزے اب بازار میں ہیں، جی چاہتا ہے کہ اپنے محترم دوست کو بھجوائوں مگر کس طرح؟
قندوز کا ذکر کرتے ہوئے وہ یادوں میں کھو گیا۔ اس کے ویرانوں تک سے ایسی محبت اسے تھی کہ یہ محاورہ سناتے ہوئے بے ساختہ مسکرا ٹھا ''مرگ می خواہی، قندوزبرو؟‘‘ موت چاہتے ہو تو قندوز چلے جائو ۔ اس خطے پردوسرا محاورہ یہ ہے ''غضبِ افغاں رحمِ ازبک‘‘۔ غضب ناک افغان رحم دل ازبک کے برابر ہوتا ہے۔
حکمت یار سے ملاقات کے بعد میں اپنے اخبار کے اسلام آباد دفتر پہنچا تو خبر لکھ دی، کسی دوسرے کو نامزد کرنے کی بجائے حکمت یار خود وزیر اعظم بنیں گے۔ دفتر میں تو کسی نے مجھ سے سوال نہ کیا۔ ساتھیوں کو خیال ہو گا کہ خود گلبدین ہی نے یہ بات مجھے بتائی ہو گی۔ دوسروں نے مگر تعجب کا اظہار کیا۔ واقعہ یہ تھا کہ اس موضوع پر ایک جملے تک کا بھی تبادلہ نہ ہوا تھا۔ سوال تک نہ پوچھا گیا۔ بارہ برس سے میں اسے جانتا تھا۔ اس کا لہجہ کہہ رہا تھا کہ وہ کچھ فیصلے کر چکا اور نافذ کرنے کی پوری کوشش کرے گا۔ ظاہر ہے کہ بالواسطہ طور پر یہ ممکن نہ تھا۔ چند گھنٹے بعد ہی تصدیق ہو گئی، جب حزب اسلامی نے پریس ریلیز جاری کر دی۔
حکمت یار سے البتہ یہ سوال ضرور کیا کہ افغانستان میں قیام امن کے امکانات کتنے ہیں۔ بہت تھے مگر امریکہ ہی نہیں، فرانس اور برطانیہ کی خفیہ ایجنسیاں بھی سرگرم تھیں۔ حیرت انگیز طور پر فرانسیسیوں کا انتخاب احمد شاہ مسعود تھے۔ حکمت یار نے بتایا کہ پاکستانی حکومت کے اہتمام سے برپا افغانوں کے مذاکرات میں اس نے تین فارمولے پیش کیے جب کہ استاد ربانی نے ایک بھی نہیں۔ اس پر ملاقاتی نے تبصرہ نہ کیا۔ وہ جانتا تھا کہ تیسرا فارمولا ہی مقصود تھا۔فرشتہ نہیں مگر بعض اعتبار سے حکمت یار ایک عظیم حکمت کار ہے۔ یاد رہے کہ یہ اس کا تخلص ہے۔ جو افغانستان میں ایک عام رواج ہے۔ شاعر ہی نہیں سبھی اس کا اہتمام کرتے ہیں۔ اس کے جدّامجد کا نام حکمت بایا تھا۔(جاری)