روسیوں کی واپسی کے بعد افغانستان میں خانہ جنگی اور پھر طالبان کے طویل دور کا آغاز کبھی نہ ہوتا‘ اگر وزیرِ اعظم نواز شریف نے امریکیوں کی خواہش پر صبغت اللہ مجدّدی کو افغانستان کا صدر نہ بنا دیا ہوتا۔ افغانستان میں استحکام ہوتا تو پاکستان دہشت گردی سے محفوظ رہتا، جس نے 60 ہزار شہریوں اور عساکر کو خاک و خون میں نہلا دیا۔ جنرل محمد ضیاء الحق کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ سامنے کا سوال یہ ہے کہ روسی شکست کے بعد جب المناک فیصلوں نے افغان سرزمین پہ خونیں تصادم کا دروازہ کھولا تو جنرل کہاں تھا؟ وہ اپنے خدا کے پاس جا چکا تھا اور ظاہر ہے کہ امریکیوں نے اسے قتل کیا تھا۔ 17 اگست 1988ء کو پیش آنے والے المناک حادثے کے بعد ایک امریکی عدالت میں پاکستان میں امریکی سفیر سے پوچھا گیا کہ اس نے تحقیقات کا آغاز کیوں نہ کیا؟ قانون کے مطابق تو یہ لازم تھا۔ اس کا جواب یہ تھا: "It did not occur to me" مجھے اس بات کا خیال ہی نہ آیا۔ صاف صاف دکھائی دے رہا تھا کہ امریکی پردہ پوشی پر تلے ہیں، ایک تاریک سیاہ راز۔ حکومتِ پاکستان پر ان کا دبائو تھا کہ وہ اس بھید کو آشکار کرنے کی کوشش نہ کرے۔ ضیاء الحق عہد کے وزیرِ داخلہ اسلم خٹک سے جب اس اخبار نویس نے پوچھا کہ معاملے کو الم نشرح کرنے کے لیے کتنا وقت درکار ہو گا‘ تو ان کا جواب یہ تھا: ایک اچھا تھانیدار دو ہفتے میں تفتیش مکمل کر سکتا ہے۔ نواز شریف نے ایک ڈی ایس پی کو یہ ذمہ داری سونپی۔ وہ بیچارا چیختا رہا کہ کوئی اس کے ساتھ تعاون نہیں کرتا‘ کوئی اس کی نہیں سنتا۔ وزیرِ اعلیٰ طفل تسلیاں دیتے رہے۔ ضیاء الحق لاکھ ان کے محسن سہی لیکن قبر میں سوئے پڑے جنرل کی نسبت امریکی خوشنودی زیادہ اہم تھی۔
جنرل محمد ضیاء الحق زندہ ہوتے تو افغان گروہوں میں مصالحت
کی کوشش کرتے۔ جنرل ان سب کے لیے قابلِ قبول تھا۔ جولائی 1992ء کے کابل میں ہر کہیں اس کی تصاویر آویزاں تھیں۔ اکثر پارٹیوں کے دفاتر میں بھی۔ وہی ان کے درمیان مصالحت کا کرشمہ دکھا سکتا تھا۔ ان کے لیے وہ ایک مشفق باپ کی طرح تھا۔ اگرچہ باہم وہ الجھتے رہے مگر کسی نہ کسی طرح وہ اپنی بات منوا لیا کرتا۔ مثال کے طور پر 1984ء میں روایت کے مطابق اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقعے پر کسی افغان لیڈر کو نیو یارک بھیجنے کا مرحلہ آیا‘ تو سرخ داڑھی والے یونس خالص کا انتخاب کیا گیا۔ ایوانِ صدر میں برپا افغان لیڈروں کے اجلاس میں ایجنڈے کے نکات پر اتفاقِ رائے میں دشواری کا سامنا تھا۔ جنرل ایک زبردست سامع تھا۔ جب کوئی تنازعہ درپیش ہو تو اور بھی زیادہ تحمل کا مظاہرہ کرتا۔ پھر یہ کہ افغانستان کی آزادی، اس کے عظیم ترین سپنوں میں سے ایک تھا۔ وہ افغانستان، ایران اور ترکی پر مشتمل ایک نئے بلاک کی تعمیر کا آرزومند تھا۔ رات بھیگنے لگی اور اختلاف باقی رہا۔ افغان لیڈروں نے تب اچانک وہ منظر دیکھا، جس نے فولاد کے پیکروں کو پگھلا دیا۔ انہوں نے جنرل کی آنکھوں میں آنسو دیکھے اور اس نے یہ کہا: اگر ہم اپنے اختلافات طے نہ کر سکے تو انجام کیا ہو گا؟ بہت تیزی سے انہوں نے اتفاقِ رائے کر لیا۔ جیسا کہ ہمیشہ عرض کرتا ہوں‘ نام نہاد بائیں بازو کے دانشوروں کا بس نہیں چلتا‘ ورنہ وہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر اب تک تمام حادثات اور سب خرابیوں کی ذمہ داری جنرل پر ڈال دیں، جس نے سوویت یونین کو پسپائی پر مجبور کر دیا۔ 17 اگست کو ہوا
میں اسے قتل کیا گیا تو 18 اگست کے ٹائمز لندن میں قومی سلامتی کے امریکی مشیر زبگینو برزنسکی کا ایک مضمون شائع ہوا۔ ایک جملہ یہ تھا:"Zia ul Haq was the only architect of Soviet military and political defeat in Afghanistan" ضیاء الحق افغانستان میں سوویت یونین کی عسکری اور سیاسی شکست کے تنہا معمار تھے۔
امریکیوں کے لیے انہیں قتل کرنا لازم تھا۔ اس لیے کہ اس نے ان کی بات ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ کابل میں ان کی ترجیحات قبول کرنے پر وہ آمادہ نہ تھا۔ وزیرِ اعظم محمد خان جونیجو کو انہوں نے گانٹھا، جو ایک نجیب آدمی تھے‘ مگر عالمی سیاست کے رموز سے ناآشنا اور افغانستان سے بے خبر۔ ضیاء الحق روسیوں کی واپسی سے قبل کابل میں اتفاقِ رائے سے ایک مضبوط حکومت قائم کرنے کے خواہاں تھے۔ اسی زمانے میں کابل انتظامیہ کے سربراہ ڈاکٹر نجیب نے انہیں پیغام بھیجا کہ اسے وہ اقتدار سے محروم کرنے پر تلے ہیں‘ مگر خود حکومت سے چمٹے ہوئے ہیں۔ ضیاء الحق کا جواب یہ تھا کہ ایک مقررہ دن پر وہ مستعفی ہونے پر آمادہ ہیں، اگر نجیب بھی ان کے ساتھ ہی مستعفی ہو جائیں۔ نجیب کے پیغام کا مقصد غالباً سلسلہ جنبانی کا آغاز کرنا تھا۔ ممکن ہے، وہ اس کے ساتھ کسی طرح کی مفاہمت کر لیں، جس طرح 1980ء میں انہوں نے ترکئی کے ساتھ کر لی تھی۔ ضیاء الحق کا جواب موصول ہونے کے بعد وہ چپکا ہو رہا؛ تا آنکہ موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
افغانستان کے مصائب کی ذمہ داری سب سے زیادہ افغان دھڑوں پر عائد ہوتی ہے۔ اقتدار کی بھوک میں جو نوشتہء دیوار نہ پڑھ سکے‘ مگر امریکی عزائم‘ مگر پے در پے پاکستان کی پہاڑ سی غلطیاں، اب تک ہم جن کی قیمت چکا رہے ہیں۔ یقینا ضیاء الحق نے بھی غلطیاں کی تھیں؛ اگرچہ اس کی کامیابی اس کی کوتاہیوں سے بہت بڑی تھی۔ بعد میں آنے والوں نے تو کمال ذہنی افلاس کا مظاہرہ کیا۔ ان میں بے نظیر بھٹو سب سے نمایاں تھیں، جنرل نصیراللہ بابر کے مشورے پر جنہوں نے طالبان کی حمایت کا فیصلہ کیا۔ امریکہ اور بے نظیر بھٹو کی حکمتِ عملی کا ایک بنیادی نکتہ گلبدین حکمت یار سے نجات تھا۔ وہ آدمی، جسے پاکستانیوں سے زیادہ پاکستانی کہا جاتا تھا۔ جو کشمیر کی آزادی کا خواب دیکھنے والوں میں شامل تھا۔
مارچ 1992ء میں دور دراز کے ایک ملک سے، وقفے وقفے سے جہاں مسلمان اقلیت کا قتلِ عام ہوا کرتا اور اب تک جاری ہے، چھپتا چھپاتا ایک وفد پاکستان آ پہنچا۔ حکمت یار سے ان کی ملاقات پاک افغان سرحد پر ہوئی۔ یہ اخبار نویس اس ملاقات میں موجود تھا۔ انہوں نے کہا کہ انہیں کچھ روپے چاہئیں۔ وہ ایک خط لکھنے میں مصروف ہو گیا۔ یہ ایک عرب لیڈر کے نام تھا۔ میں جانتا تھا کہ اس کی مالی حالت بھی خستہ ہے۔ ہاں! مگر اس کا دل دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے دھڑکتا تھا۔ یہی اس کا سب سے بڑا وصف تھا اور یہی سب سے بڑا عیب۔ دنیا بھر میں اس سے محبت کرنے والے موجود تھے۔ 1983ء میں جب صدر ریگن کے ساتھ ملاقات سے اس نے انکار کیا‘ اور امریکی برہم ہوئے تو خطرہ تھا کہ نیو یارک ہی میں اسے ہدف بنایا جا سکتا ہے۔ نصف شب بیت چکی تھی اور تین دن سے وہ جاگ رہا تھا۔ راہداری میں اس کے فدائین کا ایک گروہ موجود تھا۔ امریکہ مقیم افغان، جو اسے دیکھنے اور اس سے ملنے آئے تھے۔ ''کتنے لوگ ہیں؟‘‘ اپنے مترجم نواب سلیم سے اس نے پوچھا‘ اور کیا ان میں سے کسی کے پاس کوئی اسلحہ ہے؟ اسلحہ کہاں سے آتا۔ ایک افغان کے پاس البتہ پیتل کا وہ ''مکّا‘‘ موجود تھا، دست بدست لڑائی میں جو کام آتا ہے۔ ان میں سے بعض کو نگرانی کی ذمہ داری سونپی گئی، جو وہ بخوشی ادا کرنے پر آمادہ تھے۔ اتنے میں سلیم تکان سے نڈھال ہو گیا۔ کمرے کے دروازے سے پشت لگا کر وہ بیٹھ رہا کہ حملہ ہو تو وہ اپنے جسم کی دیوار سے حفاظت کرنے کی کوشش کرے۔ بہت بعد میں سلیم نے مجھے بتایا: ''معلوم نہیں کب نیند نے مجھے آ لیا‘‘۔ جاگا تو دوپہر کا وقت تھا۔ خفیف، اپنے لیڈر سے اس نے پوچھا: ''آپ کب سوئے؟‘‘ ''فجر کی نماز پڑھنے کے بعد‘‘ اس نے بتایا۔ پھر پوچھا کہ آج کے دن اسے کن لوگوں سے ملنا ہے۔ ان ملاقاتوں کے اوقات کیا ہیں؟
پھر اس نے وہ حکم جا ری کیا، جو سلیم کے سان گمان میں بھی نہ تھا۔ سامان سمیٹ لیا گیا اور وہ نیو یارک کے ہوائی اڈے کی طرف روانہ ہوئے۔ کیا وہ پاکستان واپس جا رہے تھے؟ ایئرپورٹ پر انکشاف یہ ہوا کہ اس نے مغربی جرمنی کے شہر برلن کا قصد کیا ہے۔ برلن میں اس کے لیے کیا رکھا تھا؟ (جاری)