اللہ ہم پہ رحم کرے۔ حکمرانوں کو ہدایت دے یا اگر یہ ان کے نصیب میں نہیں تو ان سے نجات دے۔ جہاں تک قوم کا تعلق ہے، وہ ابھی محوِ خواب ہے ؎
نیند سے گو نماز بہتر ہے
اثرِ خواب ہے اذاں میں بھی
یہ سطور بجٹ سے پہلے لکھی گئیں۔ سن بھی لیا جائے تو اس دستاویز کو سمجھنے کے لیے دو تین دن درکار ہوتے ہیں۔ ایک عام اخبار نویس ماہر معاشیات تو ہوتا نہیں۔ اسے متنوع آرا کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ پھر یہ بجٹ جناب اسحاق ڈار مدظلہ العالی کا ہے، جو اعداد و شمار کی صحت کو کچھ زیادہ اہمیت دینے کے قائل نہیں۔
کچھ سنگین سوالات بجٹ سے پہلے ہی اٹھ کھڑے ہوئے۔ اندازہ ہے کہ حسبِ عادت ڈار صاحب انہیں کچھ زیادہ درخور اعتنا نہ سمجھیں گے۔ مصروف آدمی ہیں۔ داتا دربار لاہور سمیت درجنوں کمیٹیوں کے سربراہ ہیں۔ ایف بی آر اور درآمد و برآمد تک کے معاملات دیکھا کرتے ہیں۔ شریف خاندان کا کاروبار اس کے سوا۔ اب وزیر اعظم کی کچھ ذمہ داریاں بھی انہوں نے سنبھال رکھی ہیں۔ تجارت کے وفاقی وزیر خرم دستگیر تک کو شکایت رہتی ہے کہ آنجناب کے دربار میں رسائی سہل نہیں۔ کاروباری لوگ گریہ کرنے خرم صاحب کے ہاں جاتے ہیں تو وہ اس گریہ میں شامل ہو جاتے ہیں۔ پھر دونوں فریق ایک دوسرے کو دلاسا دیا کرتے ہیں۔
صنعتی پیداوار میں 6.1 فیصد ترقی کے دعوے پر بھروسہ کیسے کر لیا جائے کہ امسال برآمدات میں دو بلین ڈالر کی کمی ہو گئی۔ ٹیکسٹائل سیکٹر میں یہ کمی اور بھی زیادہ ہے، 17فیصد؛ اگرچہ آل پاکستان ٹیکسٹائل ایسوسی ایشن کے ذرائع اس سے بھی اتفاق نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ دراصل یہ 30 فیصد سے زیادہ واقع ہوئی ہے۔ کارِوبار سرکار میں صداقت شعاری کا سکّہ کبھی رائج نہیں تھا۔ اب تو اس کی قیمت اور بھی گر گئی ہے۔ اس کی جگہ اب میڈیا سیل نے لے لی ہے۔ اسلام آباد کے معتبر اخبار نویسوں کا دعویٰ ہے کہ اس سیل نے آزاد صحافیوں کی کردار کشی کا منصوبہ تیار کر لیا ہے۔ یہ حال اس وقت ہے، جب آزاد میڈیا اور دوسری طاقتوں کی طرف سے دبائو کا سامنا ہے، عمران خان اگر نہ ہوتے، پس پردہ قوتوں کا دبائو اگر نہ ہوتا، عدالتوں کی مداخلت کا ڈر نہ ہوتا تو معلوم نہیں صحافت پر کیا بیت جاتی۔
خیر‘ اخبار نویسوں سے، کب، کون شاد رہا ہے۔ یہ جو کچھ آزادی ہے، یہ ایک فوجی آمر کی عطا کردہ ہے۔ خالص جمہوریت جب تک کارفرما رہی، ایک ہی سرکاری چینل تھا‘ اس میں کسی اپوزیشن جماعت کا ذکر اس سے زیادہ مکروہ تھا، جتنا ایک ہندوعورت کی زبان پر شوہرکا نام۔
آدھی برآمدات پارچہ بافی کی صنعت سے وابستہ ہیں۔ دو سال قبل یورپی یونین کی طرف سے درآمدی ٹیکسوں میں کمی کے بعد، جسے جی ایچ پی کہا جاتا ہے، خرم دستگیر نے دو بلین ڈالر سالانہ اضافے کی نوید دی تھی۔ یہ بھی ارشاد کیا تھا کہ سال بہ سال یہ سلسلہ فروغ پذیر رہے گا۔ یاد ہے کہ حکومت پاکستان یا اس کے ناتجربہ کار وزیر سے زیادہ چوہدری سرور نے کامیابی کے لیے ریاضت کی تھی۔ تب وہ پنجاب کے گورنر تھے۔ اضافے کی بجائے الٹا کمی کیوں ہو گئی اور وہ بھی کم از کم سترہ فیصد؟
1981ء میں میاں محمد نواز شریف پنجاب کے وزیر خزانہ ہوئے۔ پینتیس برس بیت چکے ہیں کہ ملک کے اہم ترین لیڈر اور ایک بسیط کاروباری پس منظر کے ساتھ وہ قومی معیشت سے وابستہ ہیں۔ اس کے باوجود کیا یہ حیرت انگیز نہیں کہ تیل کی قیمتوں میں 60 فیصد کمی اور یورپی یونین کی طرف سے 13 فیصد ٹیکس رعایات کے باوجود، ملک کی اہم ترین صنعت پسپا ہے۔ کیوں؟ آخر کیوں؟
ٹیکسٹائل انڈسٹری کی ممتاز ترین شخصیات میں سے ایک نے جو جواب اس سوال کا عنایت کیا، وہ حیرت انگیز تھا۔ جس قدر تعجب خیز اتنا ہی مختصر ''بے حسی، جناب بے حسی‘‘۔ پھر جو تفصیل بیان کی اس پہ اور بھی ناقابل یقین تھی۔ اگر یہ معلوم نہ ہوتا کہ وہ ایک سنجیدہ اور قابل اعتماد شخص ہیں تو ذہن سنی ان سنی کر دینے کی طرف مائل ہوتا۔
کپاس کی فصل کامل تباہی سے دوچار ہے، ٹیکسٹائل انڈسٹری کی جو بنیاد اور اصل ہے۔ ایک آدھ دن نہیں یہ برسوں کا قصّہ ہے۔ آٹھ برس سے برسر اقتدار شریف خاندان تماشا دیکھنے میں محو ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ وہ اس سے انبساط کشید کرتے ہیں، اس لیے کہ ان کے بقول صنعتِ پارچہ بافی ان کی پسندیدہ نہیں۔ بتایا گیا کہ ان کے پسندیدہ لوگ سیمنٹ، سریا، کھاد اور بنکاری کے قہرمان ہیں یا بیس لاکھ سے زیادہ وہ تاجر جو ٹیکس ادا کر سکتے ہیں مگر نہیں کرتے۔ بینک والوں کے لیے حکمران کاروباری خاندان کا نرم گوشہ قابل فہم ہے مگر یہ دوسرے شعبے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ جس بنا پر سرمایے کی دنیا کے برہمن عزیز ہیں، اسی وجہ سے کھشتری بھی۔ اس دعوے پر اخبار نویس نے شک کا اظہار کیا تو جواب ملا: آپ نے غور نہیں کیا۔ سال رواں کے آغاز میں ٹیکس کی رعایتی سکیم کے تحت، گزشتہ کی عام معافی کے باوجود دس لاکھ ممکنہ ٹیکس گزاروں میں سے فقط نو ہزار نے گوشوارے داخل کرانے کی زحمت گوارا کی۔ ہر طرح کی تسلی، تشفّی اور تمام مطالبات تسلیم کر لینے کے باوجود افلاطون‘ کنفیوشس اور سیدنا علی ابن طالب کرم اللہ وجہہ پھر سے یاد آئے۔ کاروبار حکومت سے تاجروں کو الگ رکھنا چاہیے۔کیا مولانا فضل الرحمن کے حصہ دار حضرت مولانا محمد خان شیرانی اور دوسرے جلیل القدر علماء نے کبھی اس موضوع پر اجتہاد کے بارے میں سوچا ہو گا؟ استغفراللہ، کیسے کیسے شیطانی خیالات گاہے انسانی ذہنوں میں جنم لیتے ہیں۔ ان مقدس ہستیوں کو معیشت سے کیا واسطہ! کاروبار دنیا کی آلودگیوں سے انہیں کیا تعلق؟
ٹیکسٹائل انڈسٹری چلانے کے مرتکب ہر کاروباری کا کم از کم پینتیس فیصد زائد سرمایہ پھنسا ہے۔ یہ سیلز ٹیکس اور دوسرے ہیں جو قابل واپسی ہوتے ہیں۔ گزشتہ آٹھ ماہ سے ایف بی آر نے ادائیگی بند کر رکھی ہے۔ التجا کرنے والوں کو بتایا جاتا ہے کہ سرکاری خزانہ دبائو کا شکار ہے۔ ایف بی آر والے سنتے ہی نہیں۔ ڈار صاحب کے پاس وقت ہی نہیں۔ باریاب ہو بھی جائیں تو دربار سے انتظار کا حکم صادر ہوتا ہے۔ ''ہمارے ووٹ تھوڑے سے ہیں اور نون لیگ کے لیے سرمایہ کاری کرنے والوں میں ہم بہت پیچھے ہیں‘‘ صنعت کی ایک اہم شخصیت نے بتایا۔ مصنوعی ریشہ بنانے والے زیادہ سرگرم اور فعال ہیں۔ پاکستان کو جی ایس پی سٹیٹس ملا تو بھارت نے اپنے برآمد کنندگان کے لیے دس فیصد زرِاعانت کا فرمان جاری کر دیا۔ بجلی اور کھاد ان کے ہاں سستی ہے۔ کاشتکار کے لیے کھاد بھی۔ بیج بہت بہتر، تین گنا تک پیداوار ہے۔ امسال کپاس کی پیداوار 28 فیصد کم ہو گئی، اگلے برس بھی اندیشہ یہی ہے۔ تین برس میں بہترین بیج تیار کیا جا سکتا تھا۔ کسی کو پروا ہوتی تو کاشتکار تباہی سے بچ گیا ہوتا اور صنعت بھی۔
ٹیکسٹائل کی صنعت کے زوال سے کم از کم چار لاکھ افراد بے روزگار ہو چکے۔ فیصل آباد میں جرائم کی سطح بڑھتی جا رہی ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد زرعی تحقیق بنیادی طور پر صوبوں کی ذمہ داری ہے۔ خادم پنجاب کو مگر مسائل حل کرنے سے زیادہ کارنامے انجام دینے سے شغف ہے۔ اچھا بیج کون سا بڑا کارنامہ ہے۔ اتنا ذرا سا دانا۔ آزادی پل، میٹرو اور اورنج لائن سے کیا مقابلہ، جیسے کائنات کے مقابل کرۂ خاک، جیسے کرۂ خاک کے مقابل ایک انگوٹھی۔
اللہ ہم پہ رحم کرے۔ حکمرانوں کو ہدایت دے یا اگر یہ ان کے نصیب میں نہیں تو ان سے نجات دے۔ جہاں تک قوم کا تعلق ہے، وہ ابھی محوِ خواب ہے ؎
نیند سے گو نماز بہتر ہے
اثرِ خواب ہے اذاں میں بھی
پس تحریر: 2007ء کو جنرل پرویز مشرف کے پاکستان میں عالمی سرمایہ کاری 8 بلین ڈالر تھی، امسال ایک ارب ڈالر۔ اس کے باوجود سال رواں میں معاشی فروغ آمرانہ دور سے زیادہ ہے۔ مولانا ظفر علی خان نے کہا تھا، قدم جرمن کا بڑھتا ہے، فتح انگلش کی ہوتی ہے۔ غیر ملکی قرضے 69 ارب ڈالر ہو گئے، سالانہ قومی آمدن کا 250 فیصد۔ بھارت کے مقابلے میں تین گنا سے زیادہ بجلی چوری بیس فیصد سے بڑھ گئی۔ اس کے باوجود معیشت ترقی پذیر ہے، سبحان اللہ، سبحان اللہ۔ اسحاق ڈار زندہ باد!