عرض کیا تھا کہ عقل کبھی تنہا نہیں ہوتی۔ پاگل کردینے والی آرزو سے مغلوب ہوجاتی ہے اور کبھی جذبہ انتقام سے۔ ہر کمزور حکمت عملی کی بنا ناقص تجزیے پر ہوتی ہے اور تحریک انصاف کا تجزیہ یکسر غلط ہے۔ خواجہ آصف اور سعد رفیق اپنا مشن مکمل کرنے میں کامیاب رہے ۔
شریف خاندان کے اقتدار کا آخری باب لکھا جا رہا ہے ۔ لیکن کیا ایک جارحانہ کارروائی کے ذریعے انہیں اکھاڑ پھینکنا زیبا ہے ؟ نعیم الحق کے بیان پر تعجب تمام نہ ہوا تھا کہ اسد عمر مشتعل نظر آئے ۔ اپنے کارکنوں کے برعکس دونوں محتاط آدمی ہیں اور اسد عمر تو پورے مہذب ۔ ایسے لوگ بھی مشتعل ہو جائیں تو چنگاری کو شعلہ بننے سے کون روک سکتا ہے ۔ الائو بھڑکنے والا ہے ۔ اللہ ہی جانتا ہے کہ کیا کچھ اس میں جل مرے گا۔
اس طرز عمل کی تائید نہیں کی جاسکتی ۔ اگر اس مزاج اور منطق کے لوگ یہ لب و لہجہ اختیار کریں گے تو کارکن کیسی قیامت نہ ڈھائیں گے ؎
دل میں پھر گریہ نے اک شور اٹھایا غالبؔ!
آہ !جو قطرہ نہ نکلا تھا‘ سو طوفاں نکلا
صوفیا کہتے ہیں کہ غصہ جانور کی مانند ہوتا ہے ۔ سوچ سمجھ کر اسے شکار پر چھوڑنا چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ شکاری جانور آدمی کو گھسیٹتا ہوا لے جائے ۔برہمی کے جواب میں برہمی ، ردعمل پہ ردعمل ؎
مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی
ہیولیٰ برقِ خرمن کا ہے خونِ گرم دہقاں کا
خوف ایک ہتھیار ہے جو بہت ہی سوچ سمجھ کر برتنا چاہیے ۔ ورنہ وہ آسٹریلوی ہتھیار بوم رنگ کی طرح وہیں لوٹ آتا ہے ۔ صف بندی پہلے سے برپا ہے ۔ جون کے مہینے میں بغض و عناد کی زہریلی فصل آب پاش ہوئی تو سیاسی پارٹیوں کے لیے کچھ باقی نہ بچے گا۔
فرض کیجیے وزیر اعظم دبائو میں آجائیں ۔ فرض کیجیے وہ اسمبلیاں توڑ کر الیکشن کا اعلان کر دیں تو کپتان کو کیا ملے گا۔ خوش فہمی کی بات دوسری ہے ۔ واقعہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی حالت اب بھی وہی ہے جو 2013ء کے الیکشن سے عین پہلے تھی ۔ تنظیمی حالت خستہ ہے۔ دھڑے بندی عروج پر۔ کم از کم دو بڑے میڈیا گروپ نواز شریف کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ایک گروپ کا عالم تو یہ ہے کہ کپتان کا پائوں اگر پھسل جائے تو خبر یہ چھپے گی ''عمران خان کی ٹانگ ٹوٹ گئی ۔ محب وطن ڈاکٹروں نے جوڑنے سے انکار کر دیا ‘‘ دوسرا گروپ اپنی بقا کی جنگ لڑتا ہے ، نخچیر اور قابل رحم ۔
عمران خان تو رہے ایک طرف ایسے اخبار نویس اور لیڈر بھی ہیں ، شریف خاندان کی خاطر جو دہشت گردی سے جنگ آزما پاک فوج پر حملہ کرنے میں بھی تامل نہیںکرتے۔ نواز شریف کا پسندیدہ اخبار نویس یہ کہتا ہے کہ ''را‘‘ بیرون ملک کارروائی کرتی ہی نہیں ۔ پھر اسی سانس میں وہ یہ ارشاد فرماتا ہے کہ پٹھان کوٹ پر حملہ پاکستانیوں نے کیا۔ کس چیز نے کرائے کے ایک اخبار نویس کو تیموری لشکر کا جنرل بنا دیا ہے ؟
پختون خوا اور بلوچستان میں ایسے لیڈر بھی پائے جاتے ہیں ، بھارت سے جو نقد داد وصول کرتے ہیں۔ ایسے ہی ایک لیڈر کا بھائی تین سال ادھر دبئی میں ''را ‘‘ کے ایک ایجنٹ سے تین لاکھ ڈالر وصول کرتے پایا گیا ۔ بلوچستان کا ایک ''نجیب الطرفین ‘‘لیڈر افغانستان سے دس ہزار ڈالر ماہانہ وصول کر تا رہا ہے ۔ اس کا نسخہ کمال ہے ۔ چہرے پہ ہمیشہ مظلومیت سجائے رکھنا ۔ لہجے میں رقت کو جگائے رکھنا ۔ حال ہی میں اس نے قوم کو مطلع کیا کہ اس کا وطن پاکستان ، بھارت اور افغانستان میں دہشتگردی کا مرتکب ہے ۔ پاکستان مرتکب ہے یا بھارت اور افغانستان؟ وہ خود بھی جانتا ہے اور خوب جانتا ہے ۔ پنجابی کا محاورہ یہ ہے کہ سوتے آدمی کو جگایا جاسکتا ہے ، جاگتے کو نہیں۔
کل بھوشن یادو کی گرفتاری کے باوجود تجزیے اس تیور کے ہیں تو اس کا مطلب کیا ہے ۔ سچائی سامنے کی دیوار پہ لکھی ہے ۔ اپنے خلاف ایسے لوگوں کو کارروائی کا کوئی اندیشہ نہیں ۔ اسلام آباد کی سرکار ان کی پردہ پوشی پہ تلی رہے گی۔ سبب آشکار ہے ، وہ پاکستانی ریاست کے دشمن ضرور ہیں حکومت کے ہرگز نہیں ۔ حکمت عملی ان کی یہ ہے کہ اقتدار میں شامل رہ کر ملک کو تباہ کرنے کی کوشش کی جائے۔ صرف ان پہ نہیں یہ ان کے اجداد کا ایجنڈا بھی تھا ۔ اب تو دام بھی زیادہ ملتے ہیں ۔ پرانے کمیونسٹ، جو کبھی سوویت یونین کے فرزند تھے ۔ اب امریکہ اور بھارت نے انہیں گود میں اٹھا رکھا ہے ۔ ملا بھی ہیں اور ان کا عناد کسی سے کم نہیں ۔ نام نہاد نظریاتی اور انقلابی لوگ ضدی بہت ہوتے ہیں ۔ وہ نفرت پالتے ، نفرت کھاتے ، نفرت بیچتے اور نفرت بانٹا کرتے ہیں۔
پھر ایم کیو ایم ہے ۔ ہر میدان میں ہار سکتی ہے مگر پراپیگنڈا میں ہرگز نہیں۔ ہڑتال اس کی ناکام رہی۔ اس کے باوجود کہ اب بھی کراچی اور حیدرآباد میں وہ سب سے بڑی پارٹی ہے ۔ ناکام تو بلوچستان کے علیحدگی پسند بھی ہیں ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ، کم ہوتے ہوتے ان کی طاقت ایک تہائی سے بھی نیچے اتر گئی۔ ان کے پشت پناہ مگر مستقل مزاج ہیں اور پوری منصوبہ بندی سے بروئے کار ہیں۔ بھارت نے پاکستان کو کبھی دل سے تسلیم نہیں کیا ۔ بین الاقوامی سیاست کی فضا اب اس کے لیے سازگار ہے ۔ بیس ہزار ارب ڈالر کی امریکی معیشت کو سات فیصد سالانہ کی شرح سے ترقی کرتے چین کا سامنا ہے ۔تازہ ترین تجزیوں کے مطابق جس کی معیشت تیرہ ہزار ارب ڈالر کو چھو رہی ہے ۔ امریکی غلبہ اگر برقرار رکھنا ہے تو چین کے گرد گھیرا ڈالنا ہوگا ۔ بھارتی امداد کے بغیر یہ ممکن نہیں ۔ ہوسکے تو افغانستان اور ایران کو بھی اس میں شامل کیا جائے گا۔ جنگ اور محبت میں ہر چیز جائز ہوتی ہے ۔ صدر اوباما بھارت کو نیوکلیئر سپلائی گروپ کا حصہ بنانے پر بضد ہیں ۔ امریکی کمپنیاں بھارت میں چھبیس عدد جوہری ادارے تعمیر کریں گی۔
پاکستانی میڈیا کو ادراک ہی نہیں کہ ملا اختر منصور کے قتل کا سیاق و سباق کیا ہے۔ کل جس آدمی سے کوہ مری میں امریکی وفد بات کر رہا تھا ، آج اس پر ڈرون حملے کی بے تابی کیوں تھی ۔ پاکستان کو جتلانے کے لیے ایک خطہ میں بھارتی غلبہ اگر اسے قبول نہیں تو سنبھلنے کا موقع ہر گز نہ دیا جائیگا۔ استحکام کے خواب سے وہ دست بردار ہو جائے۔ بیرون ملک پاکستانیوں کے تین سو بلین ڈالر بینکوں میں پڑے ہیں۔ کاروبار میں کھپیں ہیں ۔ پاکستان کی حدود میں امن قائم ہو جائے تو اس سرمائے کا ایک حصہ واپس آسکتا ہے ۔ فرض کیجیے 10 فیصد بھی آجائے تو ہر سال 10لاکھ نوکریاں پیدا ہو سکیں گی۔ بھارت یہ کیوں گوارا کرے اور اس کا مربی انکل سام ۔ این جی اوز اس کا ہتھیار ہیں اور کارگر ہتھیار۔ انسانی حقوق کے بعض ادارے بھی ۔ جو جس کا کھائے گا ، ظاہر ہے کہ گائے گا بھی اسی کا ۔
بعض میڈیا گروپ بھارت کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں اور انکل سام کا ان پر سایہ ہے ۔ ریاست کمزور ہے اور تمام تر ثبوت حتی کہ دستاویزی شہادتوں کے باوجود ایجنٹوں کے خلاف کارروائی نہیں ہوسکتی۔ عدالت لاچار ہے ۔ جج کو شہادت درکار ہوتی ہے ۔ پولیس اپاہج ہے اور ایف آئی اے بھی ۔ حکمرانوں کی ترجیحات اور ہیں ۔ آزاد پولیس اور آزاد عدالت کو گوارہ نہیں کرسکتے ۔ حال ہی میں آئی بی کے کچھ افسر تربیت کے لیے امریکہ گئے ۔ وہ لوٹ آئے ہیں اور خبر یہ ہے کہ آئی ایس آئی کے خلاف کام کرنے کی انہیں ترغیب دی گئی ۔ایک آدھ مان بھی گیا مگر اس کے خلاف اقدام نہ ہوگا۔
میاں محمد نواز شریف محترم و مکرم کی موجودگی میں پاک فوج اور سیاسی حکومت کے درمیان مکمل مفاہمت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ تو مگر ممکن تھا کہ ایک محدود مفاہمت ہو جائے ۔ ہر ایک کا دائرہ کار کا تعین اور تعلقات کار ۔اس عمل میں امریکہ اور بھارت جتنی بڑی رکاوٹ ہیں ، پاکستان میں سرگرم ان کے کارندے اس سے کہیں زیادہ ۔ معاوضے کا انحصار کارکردگی پر ہوتا ہے ۔ مفاہمت لازم ہے ۔ ملک کے مفاد میں یہی ہے اگر یہ مطلوب ہے تو اپوزیشن پارٹیوں کی مدد بھی درکار ہوگی ۔ فضا ورنہ آلودہ رہے گی ۔ شکوک و شبہات پیدا ہوتے اور پھلتے پھولتے رہیں گے ۔
سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ پاناما لیکس پر تحقیقات کے لیے اپوزیشن کی شرائط مان لی جائیں۔ اگر ایسا ہو تو نواز شریف قصور وار قرار پائیں گے۔ مذاکرات ناکام رہے اور ناکام ہی رہیں گے تو پیپلز پارٹی سڑکوں پر نہیں نکلے گی ۔ ایان علی سمندر پار جا چکی ۔ عزیر بلوچ اور ڈاکٹر عاصم کی مدد بھی اگر ممکن ہوئی تو کوتاہی کا ارتکاب نہ ہوگا۔
تحریک انصاف کا مفروضہ غلط ہے کہ خواجہ آصف کا تندوتیز لہجہ ان کے مزاج کا آئینہ دار ہے۔ دیوانہ بکار خویش بہت ہوشیار ہے ۔ 2برس سے عسکری قیادت کے معاملے میں کیسا اچھا بچہ وہ بنا ہوا ہے ۔ پرویز رشید اور خواجہ سعد رفیق بھی ۔ کبھی کبھی تو دادیوں اور نانیوں کی طرح ، خاکی وردیوں والوں کی وہ بلائیں بھی لیتے ہیں ۔ جی نہیں ، ن لیگ کا اشتعال انگیز رویہ ، سوچا سمجھا ایک منصوبہ ہے ۔ وہ تحریک انصاف کے ناتراشیدہ کارکن نہیں ، اقتدار کی جنگ کے منجھے ہوئے کھلاڑی ہیں۔
آج اگر الیکشن ہو تو پیپلز پارٹی مزید پسپا ہو گی ۔ تحریک انصاف کچھ مزید سیٹیں جیت لے گی ، اگرچہ سیف اللہ نیازیوں اور شاہ محمودوں کے ہوتے ہوئے کچھ زیادہ نہیں ۔ ٹیپو سلطان جیسا جنرل مارا گیا تھا ، عمران خان بیچارہ کیا بیچتا ہے ۔ پانامہ لیکس پر دبائو برقرار رکھنے کی حکمت عملی تو قابل فہم ہے مگر نئے الیکشن ؟ آدمی حیرت زدہ رہ جاتا ہے کہ اچھے بھلے ، پڑھے لکھے لوگ اتنے سادہ لوح بھی ہو سکتے ہیں۔
عرض کیا تھا کہ عقل کبھی تنہا نہیں ہوتی۔ پاگل کردینے والی آرزو سے مغلوب ہوجاتی ہے اور کبھی جذبہ انتقام سے۔ ہر کمزور حکمت عملی کی بنا ناقص تجزیے پر ہوتی ہے اور تحریک انصاف کا تجزیہ یکسر غلط ہے۔ خواجہ آصف اور سعد رفیق اپنا مشن مکمل کرنے میں کامیاب رہے ۔