"HRC" (space) message & send to 7575

دیر ہے اندھیر نہیں

اللہ بے نیاز ہے مگر ایسا بھی بے نیاز نہیں۔
آسمان دور ہے، مگر ایسا بھی دور نہیں، اس کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔
خواجہ آصف کے چند جملوں نے اس حقیقت کو آشکار کر دیا، نون لیگ کی منجھی ہوئی اور طویل و عریض پروپیگنڈا مشینری نے عشروں سے جسے کچھ کیموفلاج کر رکھا تھا۔ یہ کارنامہ خواجہ صاحب ہی انجام دے سکتے تھے۔ اس لیے کہ خود پر انہیں قابو نہیں اور اعتماد ایسا ہے کہ اپنے محسنوں تک کو روندتے ہوئے گزر جاتے ہیں۔ یہی نہیں اس پہ فخر بھی کرتے ہیں۔ پنجابی کا محاورہ یہ ہے کہ ڈائن بھی سات پڑوسیوں پہ رحم کرتی ہے مگر بدلحاظ نہیں۔ برسوں پہلے ایک صاحب علم آدمی نے کہا تھا کہ ایک دن وہ خاک چاٹے گا۔ میں حیران تھا کہ اس آدمی کی پیش گوئی شاذ ہی غلط ہوتی ہے۔ آج وہ مجھے یاد آیا اور امام حسینؓ کا قول مبارک بھی: اس آدمی سے کبھی نہ لڑو، اللہ کے سوا جس کا کوئی نہ ہو۔ اس ارشاد کی ایک جہت یہ ہے کہ جسے تم کمزور سمجھتے ہو، قدرت اس کی مدد کرتی ہے۔ فرمایا: خدا کی مخلوق، خدا کا کنبہ ہے۔ فرمایا: کرم کرو تا کہ تم پر کرم کیا جائے۔ سلامتی دو تا کہ تمہیں سلامتی عطا ہو۔ ارشاد ہے کہ انسانوں میں سے بدترین وہ ہے، جس کے شر کی وجہ سے لوگ اس کی عزت کریں۔ 
اندیشہ ہے کہ خواجہ آصف مزید مشکلات سے دوچار ہوں گے اور سپیکر ایاز صادق بھی، جن کا ارشاد یہ ہے کہ میڈیا کی انہیں کوئی پروا نہیں۔ دو صدیوں کی تاریخ کا خلاصہ یہ ہے کہ میڈیا کبھی کسی کی پروا نہیں کیا کرتا اور ہر سیاستدان کو اسے اہمیت دینا ہوتی ہے۔ ایاز صادق صاحب کے لیے استثنیٰ کیسے پیدا ہو گا؟ مقدمات جاری ہیں۔ خواجہ آصف اور ایاز صادق اگر اپنی نشستوں سے محروم ہو گئے۔ ایسے چند حادثات رونما ہو گئے تو 2018ء کے الیکشن میں نون لیگ کیا کھیت نہ رہے گی؟
میرا مؤقف اب بھی یہی ہے کہ تحریک انصاف کو جوابی اشتعال سے گریز کرنا چاہیے تھا۔ خواجہ آصف اور ایاز صادق کا محاسبہ اگر ممکن ہو سکا تو اخبار نویسوں کے طفیل۔ عمران خان اور ان کے ساتھی اگر خاموش رہتے تب بھی یہی ہوتا بلکہ امکان تھا کہ ہمدردی کی لہر اور بھی تند ہوتی۔ روڈ رولر پتھروں سے معانقہ نہیں کیا کرتے۔
تحریک انصاف کے کارکن بھی ناتراشیدہ ہیں۔ خود شیریں مزاری گاہے خود پہ قابو نہیں رکھ سکتیں۔ جن دنوں عمران خان مجھ سے مشورہ کیا کرتے تھے، عرض کیا تھا کہ سیکرٹری اطلاعات کی ذمہ داریاں انہیں ہرگز نہ سونپیں۔ شایانِ شان کوئی اور منصب ان کے حوالے کریں جو ان کے مزاج سے مطابقت رکھتا ہو۔
ایک فرق البتہ ہے۔ تحریک انصاف کے کارکن جذباتی ہیں اور ان کی تربیت نہیں کی گئی۔ خود عمران خان بھی الفاظ کے انتخاب میں حد درجہ غیر محتاط ہیں۔ اچھے بھلے نیک نیت اخبار نویسوں سے پی ٹی آئی والے الجھتے اور اپنا مخالف بناتے ہیں۔ ہاں! مگر وہ پارٹی کی سطح پر کردار کشی کی منصوبہ بندی نہیں کرتے۔ 
نون لیگ کرتی ہے۔ اس کے میڈیا سیل کی ترجیحات میں سے ایک یہ ہے کہ آزاد اخبار نویسوں کو زچ کیا جائے۔ ایک وفاقی وزیر نے ایک نیک نام خاتون ٹی وی میزبان سے فرمائش کی کہ اس ناچیز کو بلایا جائے اور ان کے کارکنوں کو خواجہ آصف ایسا موقع مہیا کیا جائے۔ ایک دوسرا وزیر درجنوں اخبار نویسوں کے ساتھ رابطے میں رہتا ہے۔ ظاہر ہے کہ پارٹی کا اپنا مؤقف بیان کرنا اس کا حق ہے اور فریضہ بھی۔ مگر وہ انہیں موضوعات ہی نہیں، جملے بھی تجویز کرتے ہیں، جو اپنے ساتھیوں کے خلاف وہ استعمال کرتے ہیں۔ خود کئی ماہ سے میں بہت کچھ بھگت رہا ہوں۔ رفتہ رفتہ ان تماشوں کے ہم عادی ہو جاتے ہیں۔ گزشتہ عشرے میں ایک نہیں کئی پارٹیوں نے یلغار کی۔ ایم کیو ایم اور اے این پی نے تو وہ کیا کہ الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ ایک زمانے میں اسلامی جمعیت طلبہ والے ناراض ہوئے۔ ان کے تیور یہ تھے کہ تمہیں عبرت کا نشان بنا دیں گے۔
نون لیگ کے میڈیا سیل سے کچھ زیادہ اندیشہ نہ تھا، اس لیے کہ ایک معزز اور محترم خاتون اس کی سربراہ ہیں۔ 2013ء کی انتخابی مہم کے ہنگام ان کے بارے میں بد زبانی کا ارتکاب کرنے والوں کی ڈٹ کر حوصلہ شکنی کرنے والوں میں یہ خاکسار شامل تھا۔ ان کے بھائی نے مجھ سے کہا تھا کہ ایک دن جب تم میری بہن کا دفاع کر رہے تھے تو میری آنکھیں آنسوئوں سے بھر گئیں۔ 
وفاقی وزیر صاحب وفاداری ثابت کرنے کے لیے اگر غیر ضروری سرگرمی کا مظاہرہ کریں تو افسوس کیا‘ تعجب تک نہیں ہوتا۔ اس کے سوا کچھ کرنے کے وہ قابل ہی نہیں۔ ان کی تربیت ہی ایسی ہے۔ واحد ہنر ہی یہی۔ روٹی تو کسی طور پر کما کھائے مچھندر۔ محترمہ پہ البتہ حیرت ہے۔ سامنے کی یہ بات کوئی انہیں بتاتا کہ اگر ایک جواں سال سیاستدان اپنی سیاسی زندگی کا آغاز اخبار نویسوں کی کردار کشی سے کرے گا تو اس کی بنیاد بہت کمزور ہو گی۔ لوہے کا بت، جس کے پائوں مٹی کے ہوں گے۔
یہ رمضان المبارک کی سویر ہے۔ زیادہ تلخ بات کہنے کو جی نہیں چاہتا۔ ایک سوال مگر لازم ہے۔ حکمران پارٹی کے نصف درجن لیڈر اور ان کے حامی اخبار نویس جو کارنامے انجام دیا کرتے ہیں، کیا میاں محمد نواز شریف ان سے آگاہ نہیں؟ اب وہ عمرہ کرنے جاتے ہیں۔ اللہ توفیق دے تو غور فرمائیں کہ کیا یہ اس آدمی کے شایانِ شان ہے، جو تیسری بار ملک کا وزیر اعظم بنا ہے۔ یہ بھی کہ اب تک اس طرح کی مہمات سے کیا حاصل ہوا؟ ایک ناروا جملہ اس ناچیز سے سرزد ہو گیا تھا۔ وزیرِ اعظم نے شکایت کی تو عرض کیا: واقعی مجھ سے غلطی ہوئی‘ معافی کا خواستگار ہوں۔ حیرت ہے کہ ان کے گالی گلوچ کرنے والے نائب کی جواب طلبی نہ ہوئی، جس نے ایسا کرنے پر اخبار نویسوں کو اکسایا تھا۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
مکرّر عرض ہے کہ نون لیگ کی نازیبا حرکتیں، تحریک انصاف کے لیے جواز فراہم نہیں کرتیں۔ یہ البتہ ہے کہ بد سے بدنام برا۔ ایم کیو ایم کے بعد پروپیگنڈے کے میدان میں نون لیگ کا کوئی ثانی نہیں۔ تجربہ بھی ان کا بہت ہے۔ آخرکار لیکن اپنا بویا ہوا سبھی کاٹتے ہیں۔ ایم کیو ایم چکا رہی ہے۔ باقیوں کو چکانا ہو گا۔ پروپیگنڈا اگر فیصلہ کن ہتھیار ہوتا تو نون لیگ کی نہیں، پاکستان پر علامہ طاہرالقادری کی حکومت ہوتی۔ 
اکتیس برس ہوتے ہیں، میاں صاحب کی موجودگی میں موچی دروازے کے جلسۂ عام میں شیخ رشید دھاڑ رہے تھے۔ ایک اشتہاری کمپنی نے اس جلسے کی دستاویزی فلم کے لیے عبارت لکھنے کی فرمائش کی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے باب میں ایک جملہ ایسا تھا کہ میں کانپ گیا۔ گزارش کی: آپ لوگ یہ کیا کر رہے ہیں۔ 1993ء کی قومی اسمبلی کا اجلاس دیکھنے جایا کرتا۔ شیخ رشید اور خواجہ آصف کی وجہ سے ترک کر دیا۔ نواب زادہ نصراللہ خان پہ کتنے ہی اعتراضات ہوں، ادنیٰ لفظ کبھی ان کی زبان پر نہ آتا۔ نون لیگ کے اخبار نویس پیہم ان سے بدتمیزی کیا کرتے اور دائم وہ خاموش رہتے۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں بھی۔ چرب زبانی کوئی متاع نہیں۔ پروپیگنڈا کا ہتھیار آخرکار خود شکاری کو آ لیتا ہے۔ 1988ء اور 1990ء کی انتخابی مہم کے ہنگام میاں صاحب کے حامیوں نے تشہیر کے میدان میں جو گل کھلائے، طبیعت ان کے ذکر پر آمادہ نہیں۔ اللہ نہ کرے کہ کسی دن صبر جواب دے جائے۔ شیخ رشید بھگت رہے ہیں۔ باقی بھگت لیں گے۔ حافظ حسین احمد ان کی نسبت محتاط تھے مگر اپنے لیے کانٹوں کی فصل انہوں نے اپنی زبان ہی سے بوئی تھی۔ 
برصغیر کی تحریک آزادی کے ہنگام علماء کے ایک گروہ نے برسوں تک قائد اعظم کے بارے میں بد مزاجی اور تلخ گوئی کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے کبھی پلٹ کر بھی نہ دیکھا۔ عمران خان اگر خاموش رہتے تو اب تک نون لیگ پست ہو کر بے بس ہو گئی ہوتی۔ ان علما کے وارث بعد ازاں سید ابوالاعلیٰ مودودی کے درپے ہوئے اور اب عمران خان کے مقابل ہیں۔ عمران خان مگر قائد اعظم نہیں اور نہ کوثر و تسنیم میں دھلی زبان بولنے اور لکھنے والے سید ابوالاعلیٰ؛ اگرچہ تعلیمی اداروں میں سید صاحب کی کمائی ان کے معنوی فرزندوں نے برباد کر کے رکھ دی۔ کراچی یونیورسٹی میں الطاف حسین اور پنجاب یونیورسٹی میں عمران خان کے ساتھ جو سلوک انہوں نے کیا، جماعت آج اس کی قیمت ادا کر رہی ہے۔ کوئی ویرانی سی ویرانی ہے۔
اللہ بے نیاز ہے مگر ایسا بھی بے نیاز نہیں۔
آسمان دور ہے، مگر ایسا بھی دور نہیں، اس کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں