فرمایا: کوئی اس دنیا سے اٹھے گانہیں ، جب تک اس کا باطن آشکار نہ ہو جائے ۔ کوئی دن جاتاہے کہ ایک ایک کر کے سب آشکار ہو جائیں گے ۔ کھوٹا کھرا الگ ہوتا جا رہا ہے ۔ صبحِ کاذب کے بطن سے صبحِ صادق کا نور آخر پھوٹ بہے گا۔ تاریخ یہی ہے ،اقوام کا مقدر یہی ۔
تازہ ترین واقعہ ماروی سرمد کے ساتھ پیش آیا۔ وہ اپنے ہی خیالات اور نظریات کی خاتون ہیں ۔ یہ بہرحال ان کا ذاتی معاملہ ہے ۔ بہت اعتماد اور اصرار کے ساتھ بات کرتی ہیں ۔ یہ افتادِ طبع ہے اور کوئی بھی مہذب آدمی اسے گوارا کرے گا۔جسے اختلاف ہو ، اسی ولولے کے ساتھ وہ جواب دے سکتاہے۔
ناقابلِ فہم ہے کہ جمعیت علمائِ اسلام کے سینیٹر حمد اللہ ان سے اس قدر کیوں بگڑے کہ گالم گلوچ پر اتر آئے۔ گالم گلوچ بھی ایسی کہ ایک پورا جملہ تو کجا، آدھا بھی نقل نہیں کیا جا سکتا، ایک لفظ بھی نہیں ۔ یہ کہنے کی دیر تھی کہ فلاں صاحب سے وہ اتفاق کرتی ہیں کہ مولانا بگڑے اور اس قدر بگڑے کہ خواجہ آصف ان کے مقابلے میں سکول کے اچھے بچّے دکھائی دیئے ۔ مولوی صاحب بے لچک تو ہمیشہ سے ہیں ۔ طالبان کے پرجوش حامی ۔ جس زمانے میں پاکستانی طالبان نے قتلِ عام کا بازار گرم کر رکھا تھا، وہ قرار دیتے کہ اصل میں یہ آئی ایس آئی اور سی آئی اے کا منصوبہ ہے ۔ بموں کے دھماکے وہ خود کرتے ہیں ۔ بے گناہ بچّوں ، عورتوں اور بوڑھوں کو قتل کرتے اور ذمہ دار دینِ متین کے امانت داروں کو ٹھہراتے ہیں ۔ یہ اندیشہ مگر ان سے کبھی نہ تھا کہ ایک خاتون کے درپے ہوں گے اور ایسی گالیاں بکیں گے ، بازاری آدمی بھی جس سے پرہیز کرے ۔حضرت مولانا حسین احمد مدنی کے قبیلے سے ان کا تعلق ہے ،جو اپنی زبان دل کی طرح تھامے رکھتے۔
مولانا فضل الرحمٰن ہی سے سیکھا ہوتا۔ سیاست اور اقتدار کے سائے میں آسودہ رہنے کی دائمی للک دوسری بات ہے ، بات ڈھنگ سے کرتے ہیں ۔ اس کے سوا کہ عمران خان کا ذکر ہو ۔ خیر، جواب میں وہ بھی نقد ادائیگی کرتے اور تفریح کا سامان مہیا کرتے ہیں ۔ مولانا کی دلیل کو کمزور کہا جا سکتا او رمسترد کیا جا سکتاہے مگر میڈیا اور سیاست میں سب لوگ ان کی ظاہری معقولیت کے قائل ہیں۔ بجا طور پر۔حافظ حمد اللہ کے لیے انہیں ایک اتالیق مقرر کرنا چاہیے ۔
صدر آصف علی زرداری کا ایوانِ صدر تھا یا وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کا عشائیہ۔ عمران خان نے ذکر کیا : برطانوی وزیرِ اعظم ٹونی بلیئر کے ساتھ مولانا کے مکالمے نے شرکا کو ششدر کر دیا۔ ایسی فصاحت کے ساتھ پاکستان اور علما کا مقدمہ پیش کیا کہ سننے والے عش عش کر اٹھے۔
سینیٹر حمد اللہ نے بدزبانی پہ اکتفا نہ کی، برہم ہو کر خاتون کو زدو کوب کرنے اٹھے ۔ خیر گزری کہ فیاض الحسن چوہان نے تھام لیا ۔پھر ٹی وی کے حفاظتی عملے نے رخصت کیا۔ ویسا ہی ورنہ ہنگامہ درپیش ہوتا ، جیسا کہ خواجہ آصف کے حسنِ بیان اور جناب ایاز صادق کی بے نیازی سے پھوٹا۔ اس سے بھی بہت بڑا۔
خواجہ صاحب کی بہت مذمت ہوئی ۔ جنابِ ایاز صادق کا کارنامہ کسی طرح بھی ان سے کم نہیں ۔ کوئی اور ایوان ، کوئی اور اپوزیشن ہوتی تو سپیکر کے استعفے تک اسمبلی کا بائیکاٹ کر دیتی ۔ایاز صادق کا انتخاب ہی مشکوک ہے ۔اکثر کا خیال ہے کہ بیس ہزار ووٹ جعلی ہیں ، دوسرے حلقوں سے لائے گئے۔عدالتی نظام متحرک ہوتا تو اب تک شاید گھر پہنچ چکے ہوتے مگر یہ نکمی اپوزیشن۔ تحریکِ انصاف والے اکثر انڈر19۔ ان کی تربیت ہی نہیں ۔ سیکھنے کی ان میں تمنّا بھی نہیں۔ لیڈر ان کا شاہ محمود ہے ،کسی دوسری پارٹی سے وابستہ ہونے کا امکان جو ہمیشہ ملحوظ رکھتاہے ۔ عمران خان کبھی مردم شناس نہ تھے اور کبھی نہ ہوں گے ۔ پیپلز پارٹی نے اپوزیشن کا کردار مجبوراً اختیار کیا ہے ۔ کبھی کسی بھی موڑ پر اپنی راہ وہ الگ کر سکتے ہیں ۔ سرے محل کا مالک ، مے فیئر کے مکین کا دشمن کیسے ہو سکتاہے ۔ دونوں کا پیشہ ایک ، دونوں کے مشاغل ایک ۔
2007ء میں امریکی حکومت کے ایما پر ، برطانوی سفارت کاری سے ظہور پذیر پانے والے میثاقِ جمہوریت کی سترھویں شق یہ ہے : کسی تعصب کے بغیر، افغانستان اور بھارت سے خوشگوار مراسم استوار رکھے جائیں گے ۔ سادہ الفاظ میں اس کا ترجمہ یہ ہے : بھارت اور افغانستان پاکستان کو کتنے ہی زخم لگائیں، رسمی احتجاج پہ اکتفا کی جائے گی ۔ ان کے منصوبوں کو بے نقاب کرنے اور کسی بھی سطح پر انہیں ناکام بنانے کی عملی کوشش ہرگز نہ کی جائے گی ۔
کسی ملک کی سیاسی قیادت نے اپنی قوم کے مفادات اور سلامتی کے تقاضوں سے دستبردار ی کا ایسا تحریری اعلان کبھی نہ کیا ہوگا۔ بے سبب نہیں کہ مولانا فضل الرحمٰن زرداری صاحب کے ساتھ جتنے آسودہ تھے، میاں محمد نواز شریف کے ساتھ اس سے زیادہ ہیں ۔ لاہو رکی تقریب میں میاں محمد نواز شریف نے بھارتی شہریوں سے کہا تھا: آپ کا او رہمارا کلچر ایک ہے ۔ آپ بھی آلو گوشت کھاتے ہیں ، ہم بھی ۔ لطیفہ یہ ہے کہ ہندو گوشت کھاتا ہی نہیں ،نظر بچا کرآلو کھالے تو دوسری بات ہے ۔
میڈیا پر نون لیگ کی گرفت گہری اور مضبوط ہے ۔ میاں صاحب کا جملہ قوم فراموش کر چکی، جو 2011ء کے مظفر آباد میں انہوں نے ارشاد کیا تھا: پاکستانی فوج نے کشمیریوں پر بھارتیوں سے زیادہ مظالم ڈھائے ہیں ۔ ایسی قوم میثاقِ جمہوریت کے بین السطور پر کیوں غور فرمائے گی ۔ پیپلز پارٹی، نون لیگ اور جمعیت علمائِ اسلام کی قیادت امریکی ایجنڈے سے اتفاق کر چکی کہ پاکستان کو بھارت کاباجگزار بنادیا جائے ۔مشکل ان کی یہ ہے کہ اپنے نظریات کا علانیہ پرچار نہیں کر سکتے ۔ عوام اٹھ کھڑے ہوں گے اور مستقل طور پر لندن میں پناہ لینی پڑے گی۔ بعض تو بندوبست کر بھی چکے ۔کچھ معاملات میں آدمی کا لاشعور اس کے شعور سے زیادہ متحرک ہوتاہے ۔
پاکستانی معاشرہ باہم متصادم ہے ۔ امریکی اور یورپی یونین کی سرپرستی میں سرگرم این جی اوز والے ہی نہیں ، بعض سیاسی لیڈر بھی خوفِ فسادِ خلق سے دل کی بات زبان پر نہیں لاتے ۔ سیاسی قیادت ہر روز اگر ایک قدم پیچھے ہٹـ جاتی اور عسکری قیادت ایک قدم آگے بڑھ آتی ہے تو اس کی وجوہات ہیں ۔ سیاسی پارٹیوں کااخلاقی کھوکھلا پن معاملے کا صرف ایک پہلو ہے ۔ دوسرا یہ ہے کہ مختلف گروپ چاہتے دراصل کچھ اور ہیں ، کہتے بالکل کچھ اور ہیں ۔ اردو نہیں ، انگریزی اخبارات سے ایک حد تک انہیں سمجھا جا سکتاہے ۔ مثلاً ایک معزز دانشور کا یہ ارشاد کہ مسلمان اوّل دن سے علم دشمن ہیں (حضرت عمرؓ کے دور میں )سکندریہ کی لائبریری انہوں نے جلا دی تھی ۔ اس مفکر کے فکری عزیز اور رشتہ دار میاں صاحب محترم کو عزیز ہیں ۔ انہی میں سے ایک کو انہوں نے وزارت بخش رکھی ہے ۔ ایک ان کے ایما پر بھارت میں سفارت کاری کرتاہے ۔ تیسرے کو برطانیہ میں سفیر مقرر فرمانے کی کوشش کی تھی ۔ بعض گروہوں کے اور مسائل بھی ہیں مثلاً وہ مولوی صاحبان ، جو ملک کو قبائلی انداز میں چلانے کے آرزومند ہیں۔ قائدِ اعظمؒ کے لیے جو نفرت اور حقارت رکھتے ہیں ۔ ملّا عمر جن کے امیر المومنین تھے اور اب ملّا ہیبت اللہ۔اس مقدس نام پر ذرا غور فرمائیے ۔
عظیم تضادات کو تھامے رکھنا مشکل ہوتاہے ۔ چڑچڑا پن بے بسی سے پیدا ہوتاہے ، جب آدمی کو بساط سے زیادہ صبر کرنا پڑے۔ حافظ حمد اللہ کے بھڑک اٹھنے کا سبب غالباً یہی ہے ۔ماہرینِ نفسیات یہ کہتے ہیں کہ ریاکار صابر کا غصہ ہمیشہ کمزور پہ نکلتا ہے ۔جدید ریسرچ کے مطابق تقریباً90فیصد مواقع پر ۔
فرمایا: کوئی اس دنیا سے اٹھے گانہیں ، جب تک اس کا باطن آشکار نہ ہو جائے ۔ کوئی دن جاتاہے کہ ایک ایک کر کے سب آشکار ہو جائیں گے ۔ کھوٹا کھرا الگ ہوتا جا رہا ہے ۔ صبحِ کاذب کے بطن سے صبحِ صادق کا نور آخر پھوٹ بہے گا۔ تاریخ یہی ہے ،اقوام کا مقدر یہی ۔