وثوق سے ایک بات کہی جا سکتی ہے ۔ پسِ گرد کوئی شہسوار نہیں ۔ شہسوار پسِ گرد ہوتے ہی نہیں ۔اللہ جنہیں توفیق دے، وہ پہاڑوں کی طرح نمایاں اور آفتا ب کی طرح واشگاف ہوتے ہیں ۔ پسِ گرد کوئی شہسوار نہیں ۔
''شہر افواہوں کی زد میں ہے ‘‘ ۔ 39برس ہوتے ہیں ، یہ عنوان نسبتاً ایک ناتجربہ کار اخبار نویس کے تجزیے پر سجایا گیا۔
اگروہ اپنی خودنوشت لکھ سکا، تو مدیرانِ گرامی کے بارے میں بھی اظہارِ خیال کی کوشش کرے گا، درجن بھر۔ عالی رضوی اور آغاز شورش مرحوم سے لے کر مجیب الرحمٰن شامی، عباس اطہر اور مجید نظامی مرحوم تک۔ پھر ایسے ہیں ، جو گمنامی کی گرد میں گم ہو گئے ۔ کچھ قابلِ ذکر ہی نہیں ۔ قلم کو بعض کے ذکر سے گریز ہے ۔ پروردگارِ عالم نے اس کی قسم کھائی '' والقلم وما یسطرون‘‘۔ قسم ہے قلم کی اور جو کچھ وہ لکھتے ہیں ۔
ایسے بھی تھے کہ قلم لگاتے توعبارت سنور جاتی ۔ گرم استری سے جیسے پیرہن شائستہ ہو جاتاہے ۔کچھ فقط اس لیے عبارت آنکتے کہ زبان کی سطح پر تیرتی غلطی کو نکال پھینکا جائے ۔بے احتیاطی سے سے لکھا گیا جملہ نظر انداز نہ ہو جائے ، جو فتنے کا باعث بنے ۔
ایڈیٹروں کی اقسام ہیں ۔ وہ جو اختیار استعمال کرتے ہیں ۔ اختیار نہ ہو تو ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کردیتے ہیں ۔ اس کے لیے اہلیت درکار ہوتی ہے اور حمیّت بھی۔وہ جو ادراک رکھتے اور الفاظ کے ظاہر و باطن سے آشنا ہوتے ہیں ۔ انسانی معاشرے دریا نہیں ہوتے، سمندر بھی نہیں ۔ زندگی دریائوں اور سمندروں سے زیادہ گہری اور بہت زیادہ متنوّع ہے۔ ایسے تو اب کہاں جو آدم زاد کی جبلتوں اور اس کے خالق کو جانتے ہوں ۔ زمین پر آدم زاد کی سرگزشت یعنی تاریخ سے آشنا ہوں ۔ ایسے لوگ ہر زمانے میں گنتی کے ہوتے ہیں ۔ علم کی نعمت سے اگر کوئی اس درجہ بہرہ ور ہو تو اسے اخبار کی کیا ضرورت... اور اخبار کو ا س کی کیا ضرورت۔ آخری تجزیے میں میڈیا ایک کاروباری ادارہ ہے ۔ ہر چند ، لازم نہیں کہ تاجر بددیانت ہو اور حبّ وطن سے بے نیاز بھی ہو۔ کھرے تاجر بھی ہوتے ہیں اور دوسروں سے کم منافع وہ نہیں کماتے ۔ انسانی دلوں میں ان کے لیے توقیر کی فصل اگائی جاتی ہے ۔ کوئی فصل اس سے زیادہ سبز اور لہلہانے والی نہیں ہوتی ۔کیا آپ نے مون سون کے فیاض ایام میں دھان کے کسی کھیت کو رقصاں دیکھا ہے ؟ ایسا لگتاہے کہ ہوائیں ان کے لیے سہانے گیت گا رہی ہیں ۔ سرشار اور سرمست ،پودے جھومتے ہیں ۔ کبھی تو ایسا لگتاہے کہ پوری دھرتی ان کے ساتھ ناچ رہی ہے... چاندنی کی جھانجھنیں پہنے ہوئے ۔ رات کی نیلم پری ناچی ہے دیوانوں کے ساتھ ۔
آدمی اگر یہ سمجھ سکے کہ دیانت کے ساتھ بسر کرنے میں نشاط کیا ہے تو کبھی وہ ادنیٰ سی خیانت کا مرتکب نہ ہو۔ علم ہی نہیں مگر اس کے لیے یقین بھی درکار ہوتاہے ۔ یقین پیدا اور محکم نہیں ہو سکتا، اگر احساس کو عمل میں ڈھالنے کی کوشش نہ کی جائے ۔یہ رفتہ رفتہ، بتدریج ہوتا ہے ۔جولاہے کی کھڈی پر جس طرح کپڑا بنایا جاتاہے ، انسانی کردار مرحلہ وار استوار ہوتاہے ۔ایک اینٹ پر دوسری اینٹ رکھ کر جیسے دیوار بنائی جاتی ہے ۔کرامات صرف کہانیوں میں ہوتی ہیں کہ قطبِ زماں کی ایک نگاہ سے عامی ،ولی ہو جائے ۔
کچھ فنون اور پیشے ہیں ، جن میں آدمی کا ظرف بے رحمی سے آزمایا جاتاہے ۔ ہر چیز واشگاف ہو جاتی ہے ، ظاہر کیا، باطن بھی ۔ صلاحیت کیا، نیت بھی۔ صحافت ان میدانوں میں سے ایک ہے ۔
مدیرِ گرامی نے سر اٹھا کر پر پرزے نکالتے اخبار نویس کو دیکھا اور یہ کہا : افواہیں تو خیر، شہر میں بحث کے موضوعات کیا ہیں ؟ ''افواہیں ‘‘ اس نے کہا ۔ جنرل محمد ضیاء الحق کو اقتدار سنبھالے 90دن نہ گزرے تھے ۔ انہیں فیصلہ یہ کرنا تھاکہ وہ الیکشن کرائیں یا نہ کرائیں ۔ ذوالفقار علی بھٹو اور ان کے جیالے انتخاب کے لیے بے تاب تھے ۔ بھٹو اور پیپلز پارٹی کے مخالفین اگر خوف نہیں تو کنفیوژن کا شکار۔ فوجی حکمران کی زندگی دائو پر لگی تھی۔ عبدالولی خاں کا جملہ صورتِ حال کابہترین عکاس تھا'' قبر ایک ہے اور آدمی دو ‘‘ ۔ بات کی من مانی تعبیر کرنے میں پشتون لیڈر جیسا کوئی اور نہ تھا۔گالی کو قصیدہ اور قصیدے کو وہ گالی ثابت کر سکتا تھا ۔ جنرل کے بدترین فیصلوں میں سے ایک یہ تھا کہ اس نے عبد الولی خان اور اس کے ساتھیوں کے خلاف غدّاری کا مقدمہ ختم کر ڈالا۔ ان میں سے اکثر معصوم تھے، جیسے کہ حبیب جالب مگر سب کے سب نہیں ، جیسا کہ جمعہ خان صوفی کی کتاب''فریبِ ناتمام‘‘ نے ثابت کر دیا ہے ۔ انصاف ہوتا تو اکثر کا داغ دھل جاتا ، دو تین البتہ پھانسی کے پھندے تک پہنچتے ۔ یہ مگر ایک دوسرا موضوع ہے ۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خوف زدہ مخالفین تاب نہ لا سکتے ۔ بھٹو کی برہمی کا اصل سبب بہرحال ،مبینہ غدّاری سے زیادہ اپنی مخالفت تھی۔نرگسیت کا مارا ہوا ہیرو۔
'' افواہوں کے سوا کیا؟‘‘ ایڈیٹر نے پھر پوچھا۔ '' بس افواہیں ‘‘۔ مدیر اب الجھن کا شکار تھا،جذبات پر قابو رکھنے والا آدمی ۔ ایڈیٹر نہیں ،بس وہ ایک مقبول لکھاری تھا ۔ اپنے خیالا ت کی دنیا میں گم کسی مصور کی طرح ۔ جو رنگوں ، روشنیوں کے امتزاج اور چہروں پر ابھرتے تاثرات پر سوچتا رہے ۔
ایک بار پھر اس نے سوال کیا'' کچھ اور ؟‘‘ اب کی بار بھی جواب وہی تھا ۔ اخبار نویس اب قدرے خفیف تھا اور مدیر پریشان ۔ مداوا، خاموشی کے ساتھ مفاہمت کے سوا کیا تھا، جس طرح جنرل نے بھٹو کے بزدل مخالفین سے کر لی تھی ۔ جو نہیں جانتے تھے کہ ؎
گریز کشمکشِ ہستی سے مردوں کا
شکست نہیں ہے تواور کیا ہے شکست؟
39برس کے بعد آج پھرشہر کی سب سے اہم خبر افواہوں کی ویسی ہی گرم بازاری ہے ،تمام موضوعات جس میں گم ہو گئے ہیں۔ افواہیں اخبار میں رقم نہیں ہو اکرتیں ۔بہت احتیاط کے ساتھ ان کے عنوانات ہی لکھے جا سکتے ہیں ۔
ایک یہ ہے کہ کیا وزیرِ اعظم کو الگ کر دیا جائے گا ؟ کر دیا جائے تو ٹیکنو کریٹس کی حکومت آئے گی یا نئے انتخابات ہوں گے ۔ فورا ًیا کچھ عرصے کے بعد۔ نومبر میں سپہ سالار کو سبکدوش ہونا ہے ۔ وزیرِ اعظم کیا قبل از وقت جانشین کااعلان کر سکتے ہیں کہ سرگوشیاں تمام ہوں ۔ تاکہ استحکام جنم لے ۔ ایک سوال یہ ہے کہ عسکری قیادت وزیرِ اعظم سے اور وزیرِ اعظم عسکری قیادت سے کس درجہ ناخوش ہیں ۔ ملک کی تاریخ میں پہلی بار یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے ‘کیا جنرل حضرات نا خوش ہیں یا نچلی سطح تک کے افسر بھی ؟ وزیرِ اعظم کی ملاقاتوں پر تبادلۂ خیال ہوتاہے ۔ملاقاتیوں نے اپنے ٹکٹ خود خریدے ؟ وہ خریدا کرتے ہیں ؟ عیادت کے لیے اتنی زحمت؟ کیا وہ کیا کرتے ہیں ؟ سطحی اور نوکری پیشہ پرویز رشید اور طارق فاطمی کی بجائے ،وہ کیوں نہ مدعو کیے گئے ، سیاست میں جو راسخ ہیں ۔ قبل از وقت اگر سپہ سالار کا اعلان کیا گیا تو خاکی وردی والے کس نگاہ سے دیکھیں گے ۔ کیا یہ ممکن بھی ہے ؟ کوئی غیر متوقع فیصلہ صادر ہوا تو دنیا کا ردعمل کیا ہوگا؟ سب سے اہم امریکہ ، پھر یورپی یونین اور عرب ۔ اب کے مگر چین بھی ۔ اس کا بہت کچھ دائو پر لگا ہے ۔ پاک فوج سے امریکہ ناراض ہے ۔ پھر کوئی دعویٰ کرتا ہے '' میاں صاحب سے بھی‘‘ ۔ ان سے کیوں ؟ اس پر ایک معنی خیز مسکراہٹ : اس لیے کہ وہ ناکردہ کار ہیں ۔ بیکارِ محض۔
رمضان المبارک میں افواہوں کے الائو پر ہاتھ تاپنے کی کھکھیڑ کون کرے ۔ کبھی کبھار کسی افطار پارٹی کے سوا‘ ہم کاہل ٹیلی فون پہ بسر کرتے ہیں ۔
وثوق سے ایک بات کہی جا سکتی ہے ۔ پسِ گرد کوئی شہسوار نہیں ۔ شہسوار پسِ گرد ہوتے ہی نہیں ۔اللہ جنہیں توفیق دے، وہ پہاڑوں کی طرح نمایاں اور آفتا ب کی طرح واشگاف ہوتے ہیں۔ پسِ گرد کوئی شہسوار نہیں ۔