تو یہ ہیں وہ لوگ جو تزویراتی اعتبار سے دنیا کے اہم ترین ممالک میں سے ایک ملک کی قیادت کے مدّعی ہیں؟ دنیا کے تیسرے بہترین ایٹمی اور تیسرے بہترین میزائل پروگرام کی نگہبانی کے؟ سبحان اللہ!
ڈاکٹر عظمیٰ سے ایک غلطی ضرور سرزد ہوئی۔ رائفلیں جب تان لی گئی تھیں۔ ماں کو اپنے بچّوں کی زندگی خطرے میں نظر آئی۔ اس ہیجان میں غلط فہمی پیدا ہوئی۔ اگر وہ صبر سے کام لیتیں تو ایک بہت ہی مختلف نتیجہ نکلتا۔ دو ظالم گروہوں میں سے ایک بے نقاب ہو جاتا۔ میڈیا کا موضوع پروٹوکول ہوتا اور دونوں پارٹیاں اس کی زد میں!
ہاں، انہیں تصدیق کرنی چاہیے تھی۔ ایسی شدید جذباتی کیفیت میں مگر کم ہی کوئی زحمت اٹھاتا ہے۔ کپتان سے میں خود بھی نالاں رہتا ہوں۔ حضرت مولانا سمیع الحق کی خدمت میں تیس کروڑ روپے پیش کرنے کے بعد سے تو اور بھی۔ بہت سی غلطیاں اس نے کی ہیں۔ تنقید کا جواز وہ مہیا کرتا رہتا ہے۔ مگر ان اخبار نویسوں سے، شریف خاندان کے لیے جو فخریہ زیرِ استعمال ہیں، خاکسار کا ایک سوال ہے۔ اگر ان میں سے کسی کی والدہ، بیگم یا بیٹی کو خدانخواستہ ایسی اذیت ناک صورتِ حال کا سامنا ہوتا؟ اس عالم میں وہاں موجود لوگ اگر یہ قرار دیتے کہ بیہودگی کا مظاہرہ کرنے والے محافظ فلاں لیڈر کے ہیں تو کیا ان کے بھڑک اٹھنے کا قطعاً کوئی امکان نہ ہوتا؟
عمران خاں نے بہن کی بات کو من و عن تسلیم کر لیا۔ یہی قرینِ قیاس تھا کہ گلبرگ کی سڑک سے گزرنے والا قافلہ محترمہ مریم نواز ہی کا ہو سکتا ہے۔ اکتوبر 2012ء میں لاہور ہی کی بیکری میں پیش آنے والا واقعہ ابھی ذہنوں سے محو نہیں ہوا، جب شہباز شریف کے داماد نے گُل کھلایا تھا۔ شہرِ لاہور میں شریف خاندان کے سوا اور کون دندناتا پھرتا ہے؟ یہ گمان کیسے ممکن تھا کہ وہ صدرِ آزاد کشمیر کے محافظ ہوں گے۔ آزاد کشمیر کا کوئی صدر ایسے کرّ و فرّ کے ساتھ شہرِ لاہور میں کبھی داخل نہ ہوا۔ اب تو وہ تختِ لاہور ہے، فیلڈ مارشل ایوب خاں کے عہد کی طرح، دائیں اور بائیں بازو کے بعض دانشور جس کے بارے میں طے کر چکے کہ جاتی عمرہ کی آئندہ نسلیں بھی اس پہ حکمران ہوں گی... جیسے سلیمان ذی شان کے بعد اس کی اولاد۔ حمزہ شہباز کیا سلطان سلیم سے کم ہیں؟
اٹھارہ برس کی عمر میں سلیم کا باپ مرا اور وہ بادشاہ ہو گیا۔ اپنے یونانی رفیق ابراہیم سے اس نے کہا: کیوں نہ ایک نیا شہر بسایا جائے۔ ایک نیا محل تعمیر کیا جائے؟ اپنے لڑکپن میں بہت سا وقت نو مسلم ابراہیم نے مقدونیہ کے کھنڈرات میں بتایا تھا۔ ٹھوکریں کھانے والی رعایا کے فرزند گاہے شہزادوں سے زیادہ حقیقت پسند ہواکرتے ہیں۔ اس نے کہا: شہر اور محل بسانے کا کیا فائدہ، وہ اجڑ جاتے ہیں۔ ''کیا چیز باقی رہتی ہے؟‘‘ شہزادے نے پوچھا۔ ''دانش اور یہ لوک گیت جو میں ابھی گا رہا تھا‘‘۔
عثمانی ترک چھچھورے پن سے بہت کچھ بچے رہے؛ چنانچہ صدیوں تک انہوں نے حکومت کی۔ سختی کے ساتھ جن اصولوں کی پابندی کی جاتی، ان میں سے ایک یہ تھا کہ بادشاہ کے سوا شاہی خاندان کا کوئی فرد کارِ سرکار میں دخل نہ دے گا۔ تاریخ دان کہتے ہیں کہ عثمانی ترکوں کے زوال کا آغاز اس وقت ہوا، جب سلیم نے اس قاعدے کو نظر انداز کیا۔
ہمارے نودولتیوں کے کیا کہنے۔ انہیں تو مرنا ہی نہیں۔ وہ دن انہیں دیکھنا ہی نہیں، جس کا وعدہ ہے۔
''اور آپ کیا سمجھے کہ القارعہ کیا ہے؟
لوگ جس دن بکھرے ہوئے پتنگوں کی طرح ہو جائیں گے
پہاڑ دھنکی ہوئی روئی جیسے‘‘
ڈاکٹر عظمیٰ پڑھی لکھی، ذمہ دار اور باوقار خاتون ہیں۔ سیاست سے کوئی واسطہ ہی نہیں۔ کپتان کی دوسری شادی کے بعد، آزردہ بہنیں اس کی ذاتی زندگی سے دور ہو گئی تھیں۔ جان بوجھ کر وہ ایسا جھوٹ کیوں گھڑتیں، جو چند منٹ میں کُھل جاتا؟ ان کی جگہ کھڑا ہو کر کوئی سوچے۔ کوئی بھی آدمی اس طرح کا کذب تراشنے کا خطرہ کیوں مول لے؟ ایسا خطرہ تو ایک ناتجربہ کار نوجوان یا خاتون مول نہ لے۔ ڈاکٹر عظمیٰ کیونکر کہانی گھڑ سکتی تھیں۔ ایک ذمہ دار باپ، ایک نیک نام ماں کی بیٹی، شوکت خانم ہسپتال جس کے خاندان کی شناخت ہے۔ ایسا کیا، مقابلتاً دس فیصد درجے کا کوئی ادارہ بھی شریف خاندان تعمیر نہیں کر سکتا۔ پولٹری، ڈیری، سٹیل اور شوگر ملیں البتہ۔
ڈاکٹر عظمیٰ اور ان کے بھائی سے خطا سرزد ہوئی۔ بہت بڑی غلطی کی مگر بعد میں۔ جیسا کہ ہمیشہ عرض کیا جاتا ہے، غلطیوں سے نہیں، ان پر اصرار سے آدم کی اولاد تباہ ہوتی ہے۔
جب واضح ہو گیا کہ یہ مریم نواز کا قافلہ نہ تھا تو عمران خان اور ان کی بہن کو دو تین جملوں کا بیان جاری کرنا چاہیے تھا: افسوس کہ غلط فہمی کا ہم شکار ہوئے۔ میاں صاحب کی صاحبزادی سے ہم معافی کے خواست گار ہیں۔ زندگی کے تلخ و شیریں اور نشیب و فراز سے گزرنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ صدقِ دل سے خطا کا اعتراف معجزانہ طور پر ماحول کو بدل ڈالتا ہے۔ اکثر دوسرا فریق بھی موم ہو جاتا ہے۔ سخت دل بھی ہو تو خلقِ خدا کے سامنے عاجزی اور انکسار کی توہین مشکل ہوتی ہے، مہنگی پڑتی ہے۔
بیان جاری ہو چکا ہوتا تو شریف خاندان کے اخبار نویس کھل نہ کھیلتے۔ مریم نواز طعنہ دینے کے قابل نہ ہوتیں کہ رمضان المبارک میں جھوٹ تراشا گیا۔ رہے پرویز رشید اور طلال چوہدری تو ان کی کیا اہمیت؟ ان کا اعتبار دھل چکا۔
دو سبق ہیں۔ اوّل یہ کہ گہرے مضمرات کا اہم واقعہ جب رونما ہو تو ردّعمل کے اظہار میں عجلت نہ چاہیے۔ چھان بین کر لینی چاہیے۔ احتیاط چاہیے تھی۔ اس لیے بھی کہ پریس میں شریف خاندان کا رسوخ بہت گہرا ہے۔ دو تین ادارے اور دو تین درجن اخبار نویس تو ایسے ہیں کہ اشارۂ ابرو سے بھی پہلے بروئے کار آتے ہیں۔ ان میں سے ایک نے پچھلے دنوں کہا تھا: عمران خان اگال دان میں پڑے لقمے اٹھا کر چبا رہے ہیں۔ عمران خاں کس شمار قطار میں ہیں۔ دستر خوان کے لیے بعض نے سیدنا علی ابن ابی طالبؓ کو چھوڑ دیا تھا۔ شنید ہے کہ رمضان کے آخری عشرے میں ان صاحب نے مصیبت کے مارے ایک غریب مصنف کو لوٹنے والے جعل ساز کی مدد کی...غالباً اس پہ فخر بھی کیا ہو گا۔
ایک عام پاکستانی کے نقطہء نظر سے لاہور کا واقعہ اور بھی المناک ہے۔ سیاستدان باہم الجھتے ہیں۔ بعض اخبار نویس جلتی پہ تیل ڈالتے ہیں تو رفتہ رفتہ بتدریج کھیل ان کے ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔ پشتون پٹی کے بڑے حصے، سب سے بڑے صوبے کے علاوہ ملک کے سب سے بڑے شہر میں معاملات بہت کچھ فوج کے ہاتھ میں جا چکے۔ اس پر بھی حال یہ ہے۔ اس پر بھی عالم یہ ہے کہ برساتی نالوں کی صفائی کے لیے رقم تب جاری ہوئی، عملی طور پر جب یہ کام ناممکن ہو گیا۔
غالباً یہ 1742ء تھا، افغان لشکر دہلی کے دروازے پر دستک دے رہا تھا۔ شہرِ پناہ مضبو ط تھی مگر توپیں ضرورت سے کم۔ درکار دس لاکھ روپے مہیا نہ ہو سکے۔ سرخ چہروں والے طویل قامت قندہاریوں کا سلطان شہر میں داخل ہوا اور آٹھ کروڑ روپے تاوان لے کر ٹلا۔
آدمی کو آزمائش کے لیے پیدا کیا گیا۔ سونے کی طرح کٹھالی میں وہ ڈالا جاتا ہے کہ تمازت سے پگھلے، پگھل کر جڑے اور جڑ کر چمک اٹھے۔ آزمائش ہی استعداد بڑھاتی ہے۔ آدمی عجیب مخلوق ہے۔ اسے وہ عذاب سمجھ لیتا اور حواس کھو دیتا ہے۔ افسوس کہ وہ ادراک نہ کر سکے، دونوں فریق۔ سوچ بچار پر آمادہ ہی وہ کہاں تھے۔
تو یہ ہیں وہ لوگ جو تزویراتی اعتبار سے دنیا کے اہم ترین ممالک میں سے ایک ملک کی قیادت کے مدّعی ہیں؟ دنیا کے تیسرے بہترین ایٹمی اور تیسرے بہترین میزائل پروگرام کی نگہبانی کے؟ سبحان اللہ!