"HRC" (space) message & send to 7575

دو کشمیر

خوں ریزی کے باوجود، پیہم خوں ریزی کے باوجود، کشمیر زندہ ہے ، کامل آزادی کا خواب دیکھتا ہوا ،سربلند اور سربکف ...اور سرکاری خزانے کی چابیاں اٹھائے کھرب پتی کشمیری لیڈر کی بہادر سپاہ اقتدار کی بھیک مانگ رہی ہے ۔ 
مقبوضہ کشمیر میں خونریز ہنگامے پھوٹ پڑے ہیں اور نون لیگ آزاد کشمیر کو فتح کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے ۔ آزاد کشمیر میں انتخابی فتح کے لیے مرکزی حکومت اب تک ایک سو ارب روپے کے منصوبوں کا اعلان کر چکی ہے ۔ ان میں سے ایک منصوبہ یہ بھی ہے کہ کسی بھی پہاڑی مقام پر کسی مریض کو ہسپتال پہنچانے کے لیے ہیلی کاپٹر سروس شروع کی جائے گی ۔ ابتدائی طور پر چار ہیلی کاپٹر خریدے جائیں گے ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی تعداد میں اضافہ کیا جا سکتاہے ۔ 
برہان مظفر وانی کی شہادت 8جولائی کو بندورہ نامی گائوں میں واقع ہوئی ۔ بتایا گیا ہے کہ وہ کشمیری حریت پسندوں کی سب سے بڑی تنظیم حزب المجاہدین سے وابستہ تھے ۔ جواں سال شہید کی عسکری سرگرمیوں کی کوئی تفصیل تو سامنے نہیں آئی لیکن وہ ایسی ایک سرگرمی میں سالہا سال سے مصروف تھے ، جو جہادی کارروائیوں سے بھی زیادہ خطرناک تھی ۔ یہ سوشل میڈیا کا محاذ تھا ، جس کے بل پر وہ نئی نسل کومتحرک کرنے کی کوشش کر رہے تھے ۔ ایک ماہرِ تعلیم کے صاحبزادے برہان مظفر وانی کوئی ماہرِ ابلاغیات نہیں تھے بلکہ کچھ زیادہ تعلیم یافتہ ہی نہیں ۔پندرہ سال کی عمر میں طالبِ علم گھر سے بھاگا اور اپنے وطن کی آزادی کے لیے سرگرم ہو گیا ۔ 69بر س سے جس پر بھارت نے قبضہ جما رکھا ہے ۔ ایک دن کے لیے بھی کشمیریوں نے اس قبضے کو تسلیم نہیں کیا ۔ ایک اعتبار سے دہلی کی اسٹیبلشمنٹ بھی عملاً یہ اعتراف کرتی ہے ؛چنانچہ بھارتی آئین کی ایک شق کے تحت مقبوضہ کشمیر کو داخلی خود مختاری حاصل ہے ؛اگرچہ عملی طور پر کم ہی اسے ملحوظ رکھا جاتا ہے ۔بھارت کے فکری پیشوا چانکیہ کو ٹلیا نے ''راج نیتی ‘‘کے چار چراغ جلائے تھے ۔ دام ، شیام ، بھڑاور ڈنڈا ۔ دام یعنی دشمن کی صفوں کو دولت کے استعمال سے بکھیرنے کی کوشش کی جائے ۔ اس میں غدّار تلاش کیے جائیں یا رہنمائوں کی قیمت لگائی جائے ۔ شیام یعنی مفاہمت ۔ حریف اگر قابومیں آنہ سکے تو ریاکاری اور منافقت سے مصالحت کا ماحول پید اکر کے وقت حاصل کرنے کی کوشش کی جائے ۔ بھڑ یعنی افتراق کرنے کی کوشش ۔ ڈنڈا یعنی طاقت کا بے دریغ اور بے رحمانہ استعمال۔ 
چانکیہ کوٹلیا ایسا ہی عظیم مفکر ہوتا تو ایک ہزار برس تک اس کی قوم غلامی کے تجربے سے ہرگز نہ گزرتی ۔تقریباً تین ہزار برس تک دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہونے کے باوجود بھارت غربت کا گہوارا نہ ہوتا ۔ ایسا گہوارا ، جہاں آج بھی دس کروڑ آدمی ڈاک کا پتہ ہی نہیں رکھتے ۔ فٹ پاتھوں پر وہ پیدا ہوتے ، وہیں زندگی گزارتے اور مر جاتے ہیں ۔ اس سے بھی دو تین گنا جھونپڑ پٹیوں میں رہتے ہیں ۔ افلاس اور ذلّت کی وہ زندگی ، جس میں امید کی کرن کبھی نہیں جھلملاتی ۔ 
ان میں سے جو مزدوری کے قابل ہوتے ہیں ، ان کی ایک قابلِ ذکر تعداد تاڑی پیتی اور شاہ رخ اور سلمان خان کی فلموں سے دل بہلاتی ہے ۔ چند گھنٹوں کے لیے زندگی قابلِ برداشت ہو جاتی ہے ۔ اس کے بعد پھر وہی درماندگی ، وہی افتادگی ۔ ـصرف دہلی شہر میں بھوک سے مرنے والوں کی پچیس لاشیں ہر روز اٹھائی جاتی ہیں ۔ یہ اس کے باوجود ہے کہ پچھلے تین عشروں سے بھارتی معیشت اوسطاً سات فیصد سالانہ کی شرح سے ترقی کر رہی ہے ۔ 
پاکستانی معاشرہ مختلف ہے ۔ آبادی میں پانچواں اور رقبے میں آٹھواں حصہ ہونے کے باوجود ، فوجی حکومتوں اور بدعنوان سیاستدانوں کے ہتھے چڑھنے کے باوجود بھارتی معاشرے سے یہ بہت بہتر ہے ۔ رمضان المبارک میں ایک کروڑ شہریوں کے لیے افطار کا بندوبست ہوتاہے ۔ لاہور کے تمام بڑے ہسپتالوں میں نہ صرف تمام مریضوں بلکہ تیمار داروں کے لیے بھی تینوں وقت کے کھانے کا بہترین انتظام ہے ۔ سرکاری اداروں کی تقریباً مکمل تباہی ، امن وامان کی ہولناک خرابی ، نظامِ عدل کی خطرناک پیچیدگیوں اور دہشت گردی کے باوجود ،ملّائوں اور این جی اوز اور مسخ شدہ ذہنیت کی اشرافیہ کے باوجود ۔ ان لا تعداد خرابیوں کے باوجود ، شب و روز جن پر ہم گریہ کرتے ہیں ۔ ایدھی فائونڈیشن ایسے ادارے پھلتے پھولتے ہیں ۔ شوکت خانم ہسپتال جیسے ادارے تعمیر ہوتے ہیں ۔ الشفا ٹرسٹ آئی ہاسپٹل جیسے علاج خانے ہیں ، جہاں نوّے فیصد مریضوں کا علاج مفت ہوتاہے ۔ ہزاروں چھوٹے بڑے ہسپتال ، سکول اور کالج ہیں ، جہاں ایک روپیہ ادا کیے بغیر بے نوا بچّے تعلیم پاتے ہیں ۔ جیسا کہ سب جانتے ہیں ، پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ عطیات دینے والی اقوام میں سے ایک ہے ۔دنیا کا اوسطاً دوگنا ۔ المیہ یہ ہے کہ قائدِ اعظمؒ کے بعد ڈھنگ کی قیادت اسے کبھی نصیب نہ ہو سکی ۔ برگد کو پیوندِ خاک ہوئے اڑسٹھ برس گزر چکے ۔ ایسا لگتاہے کہ سایہ اس کا اب بھی برقرار ہے اور اس میں جھاڑ جھنکار ہی اگتا ہے ۔ 
آخر کار وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف نے کرم فرمائی کی اور مظلوم کشمیریوں کے حق میں ایک بیان جاری کر دیا ۔ مخالفین کی چیخ و پکار کے بعد کہ کشمیر کے شہدا کی انہیں کوئی پرواہ نہیں ۔ بلاول بھٹو کے اس طعنے کے بعد کہ مودی نواز دوستی اہلِ کشمیر کی بدقسمتی کا ایک سبب ہے ۔بیان تو میاں صاحب نے جاری کیا مگر اسی طرح ، جس طرح بنی اسرائیل نے گائے ذبح کی تھی ۔ قرآنِ کریم کہتاہے کہ گائے کی قربانی انہوں نے دے دی ؛حالانکہ دل ان کا چاہتا نہیں تھا ۔ 
حالات کا فرق آدمی کو کیا سے کیا بنا دیتاہے ۔ غربت اور غلامی عذاب ہیں لیکن بعض اوقات آسودگی ، امارت اور آسائش اس سے بڑا عذاب ثابت ہوتی ہے ۔ قارون دولت کے بوجھ تلے دب کر مرا ۔ فرعون اپنے اقتدار کے ساتھ دریائے نیل کی نذر ہوا اور ملیشیا کے دو لباس رکھنے والا عبد الستار ایدھی بادشاہوں کا بادشاہ بنا ۔برہان مظفر وانی شہادت کے جلیل القدر منصب پر فائز ہوئے تو لاکھوں کشمیریوں نے ، ان کی عظمت پر گواہی دی ۔اپنے پسندیدہ پاکستان کے پرچم لہرائے ۔ دنوں کے اجالوں اور شبوں کی تاریکیوں میں آنسوئوں کے چراغ جلائے ۔انہی کے قبیلے سے تعلق رکھنے والے میاں محمد نواز شریف بھی اتفاق سے وانی ہیں ۔جس روز برہان وانی نے اپنی زندگی نذر کی ، کھرب پتی نواز شریف ولایت سے اپنے وطن آنے کی تیاری فرما رہے تھے ۔ قومی خزانے سے بیس بیس کروڑ روپے لٹا کر ۔
برہان وانی کی شہادت کے بعد مقبوضہ کشمیر کی ساری آبادیاں پرچموں اورنعروں سے بھری ہیں ۔ وانی جیسے بیس اور زندہ کشمیریوں نے اپنے سرخ لہو سے خاکستری ورق پہ لکھ دیا کہ غلامی کی زندگی ہر گز ہرگز وہ قبول نہ کریں گے ۔ کم از کم بیس پولیس سٹیشنوں پر حملے ہوئے ۔ اسلحہ چھین کر یلغار کرتی پولیس اور بارڈر سکیورٹی فورس کا مقابلہ کیا گیا۔ آخری اطلاع یہ ہے کہ سکیورٹی فورسز کے بھی ایک سو سے زیادہ لوگ زخمی ہوئے ہیں ۔ ایک مارا بھی گیا ۔ 
سات لاکھ بھارتی فوج مقبوضہ کشمیر پر مسلّط ہے ۔ انسانی تاریخ میں کسی بھی آبادی کے لیے یہ سب سے بڑا فوجی اجتماع ہے ۔ تقریباً ہر کشمیری خاندان کے لیے ایک بھارتی فوجی ۔ نئے ہنگامے پھوٹ پڑنے سے پہلے باقاعدہ فوج کے علاوہ بھارتی بارڈر سکیورٹی فورس کی 220بٹالین وادی میں متعین تھیں ۔ پچھلے ہفتے دو ہزار فوج مزید بھجوائی گئی ۔ چانکیہ کوٹلیا کی اولاد کو کون بتائے کہ پچاس لاکھ کشمیری سات لاکھ فوج سے اگر خوفزدہ نہیں ہوئے تو سات لاکھ دو ہزار سے کیسے ہوں گے ۔
ساڑھے تین سو سال پہلے، اورنگزیب عالمگیر کے عہد میں موئے مبارک سری نگر لایا گیا تو کشمیر کے شاعر نے لکھا : سری نگر آج مدینہ منورہ کا ہم نفس ہو گیا ۔ خوں ریزی کے باوجود، پیہم خوں ریزی کے باوجود، کشمیر زندہ ہے ، کامل آزادی کا خواب دیکھتا ہوا ،سربلند اور سربکف...اور سرکاری خزانے کی چابیاں اٹھائے کھرب پتی کشمیری لیڈر کی بہادر سپاہ اقتدار کی بھیک مانگ رہی ہے ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں