"HRC" (space) message & send to 7575

کتنے دن اور بخیہ گری؟

عمرانی معاہدہ عملاً ختم ہو چکا۔ از سر نو اسے تشکیل دینا ہو گا... اور سب جانتے ہیں کہ یہ کام کون کرے گا۔ بے یقینی کا یہ سلسلہ مستقل طور پہ جاری نہ رہے گا۔ رفوگری سے اب کام نہیں چلے گا۔ وہ جو شاعر نے کہا تھا ؎
یہ جامہ صد چاک بدل لینے میں کیا تھا
مہلت ہی نہ دی فیض کبھی بخیہ گری نے
بچوں کے اغوا کا سلسلہ جاری ہے اور پولیس کی تاویلات بھی۔ ذاتی جیل چلانے پر ایک تھانے کا پورے کا پورا عملہ خادم پنجاب نے معطل کر دیا ۔ سپریم کورٹ نے ایک نجی ادارے کو ترقیاتی کام سے روک دیا ہے۔ سندھ حکومت نے رینجرز کے اختیارات میں توسیع کر دی ہے‘ مگر صرف تین ماہ کے لیے۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اس پر یہ کہا کہ اسے فٹ بال نہیں بننے دیا جائے گا۔
یہ سب کچھ کیا ہے؟ آئین اور جمہوریت کے لیے سینہ کوبی کرنے والوں میں سے کوئی نہ بتائے گا کہ یہ سب کیا ہے۔ جو بات تسلیم کرنے سے وہ گریزاں ہیں، وہ یہ ہے کہ عملاً آئین اور جمہوریت کا کوئی وجود ہی نہیں۔ اگر ہے تو مجبوروں اور بے سہاروں کے لیے۔ حکمران طبقہ من مانی کے لیے آزادہے۔ میڈیا آزاد ہے اور عدالتیں بھی مگر سب جانتے ہیں کہ ان کے پائوں میں بھی زنجیریں ہیں۔ کچھ حالات کی، کچھ اپنی پہنائی ہوئی۔ سب کر رہے ہیں آہ و فغاں سب مزے میں ہیں۔ 
دستور نے نہیں، جیسا کہ ہونا چاہیے‘ ملک کو فوج نے بچا رکھا ہے، جیسا کہ ہرگز نہ ہونا چاہیے۔ حکمرانی سول اداروں کی چاہیے۔ آئین کے مطابق سرحدوں کا دفاع کرنے کے علاوہ، فوج کا بس اتنا ہی کردار ہے کہ سرحدوں کا وہ دفاع کرے۔ ضرورت پڑے تو آفات اور ہنگامی حالات میں سول اداروں کی مدد کرے، جب ایسا کرنے کا حکم دیا جائے۔ پیر کو قومی سلامتی سے متعلق اجلاس میں سپہ سالار شریک نہ ہوئے تو افواہوں کی نئی لہر اٹھی۔ اخبار نویس کریدنے میں جت گئے، درآں حالیکہ حاصل اس سے کچھ نہیں۔ ممکن ہے، وہ مدعو ہی نہ کیے گئے ہوں۔ بائیکاٹ تو وہ کرنے سے رہے۔ ان کا یہ مزاج ہی نہیں۔
حالات مگر ایسے ہیں کہ برعکس بات کی جائے تو زیادہ لوگ شاد ہوں گے۔ تین ہفتوں سے کارندہ صحافت نے بالواسطہ طور پر فوج کے خلاف مہم شروع کر رکھی تھی کہ وزیر اعظم نواز شریف کو طیب اردوان بن جانا چاہیے اور پاکستانی قوم کو ترکیہ کی طرح سوچنا چاہیے۔ آج ایک چھوٹی سی خبر اس مہم کو پامال کرتی ہوئی گزر گئی۔14 اگست کی تیاریوں کے لیے خریداری کی جو مہم جاری ہے، اس میں سب سے زیادہ بکنے والی چیز جنرل راحیل شریف کی تصاویر والے بیج ہیں۔ دھڑا دھڑ بن رہے ہیں۔ دھڑا دھڑ بک رہے ہیں۔ یہاں ملتان میں ایک دھڑ دھڑ شاہ ہوا کرتے تھے، غالباً ایسی ہی خصوصیات کی بنا پر... بہت سی چیزوں کا فیصلہ مارکیٹ ہی کر ڈالتی ہے اور احسان دانش کی یاد دلاتی ہے ؎
کل دھوپ کے میلے سے کھلونے تھے خریدے
جو موم کا پتلا تھا وہ گھر تک نہیں پہنچا
چرواہا کوئی نہیں اور بھیڑوں کو راستہ معلوم نہیں۔ کوئی دن پہلے افواہ یہ تھی کہ اسمبلی کی بقیہ مدت کے لیے حکومت اور چیف آف آرمی سٹاف میں ''ان ہائوس ‘‘تبدیلی پر مذاکرات جاری ہیں۔ میاں صاحب، وزیر خزانہ اسحق ڈار یا خواجہ آصف کے تمنائی ہیں اور فریق ثانی شہباز شریف یا چوہدری نثار کا۔ اگر نہیں تو احسن اقبال پر شاید اتفاق ہو جائے۔ یہ افواہ بھی اڑی کہ تجارتی راہداری پر احسن اقبال جنرلوں کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ ایک ذمہ دار اخبار نویس نے ان دونوں ''خبروں‘‘ سے مطلع کیا تو عرض کیا: ٹھیک ہے جی، احسن اقبال صاحب کوبنا دیں۔ اسی دن ٹی وی سے نشر ہو گا یا اخبار میں چھپے گا۔ ان اطلاعات کی تردید یا تصدیق کر دی جائے کہ عالی جناب کی انتخابی مہم میں اشتہاری بھی شریک ہوتے ہیں۔ پھر میرے جیسا کوئی شخص تجویز کرے گا کہ فلاں فلاں قابل اعتبار پولیس افسر سے پوچھ لیا جائے۔ سپریم کورٹ کو بند لفافے میں وہ رپورٹ پیش کر دے۔
ایک ماہ ہونے کو آیا ‘ دوبار وزیر اعلیٰ، سپہ سالار سے ملے، پھر خبر آئی کہ وہ فقط سنتے رہے۔ پھر کسی نے کہا: جواب دیا ہے مگر بدمزہ کرنے والا۔ یقینی کیا ہے، کوئی نہیں جانتا۔ قیاس آرائیاں ہیں، افواہیں اور فارمولے، مثلاً یہ کہ جنرل راحیل کو فیلڈ مارشل بنا کر تین سال کی توسیع دے دی جائے۔ جواب:وزیر اعظم کیا دیوانے ہیں کہ مزید پسپا ہو جائیں؟
پاکستانی سٹاک ایکس چینج دنیا کے بہترین، حصص کے بازاروں میں شامل ہو گیا۔ ایک عالمی ادارے کی رپورٹ یہ ہے کہ پاکستان مینوفیکچرنگ کا مرکز بن کے ابھرے گا۔ احسن اقبال کا فرمان ہے کہ ترقی کا سفر جاری رہے گا۔ پانچ گنا بڑے بھارت کے مقابلے میں آدھی شرحِ نمو کے ساتھ؟ ایک اور دس کے تناسب سے؟
یہ تماشا دنیا میں کہیں اور بھی ہوتا ہے کہ تقریباً پورے کا پورا حکمران ٹولہ کاروبار میں مگن ہو۔ دھڑا دھڑ قومی دولت وہ بیرون ملک منتقل کر رہا ہو۔ پولیس اپنے فرائض ادا کرنے میں یکسر ناکام ہو جائے۔ اڑھائی صوبوں میں امن و امان فوج کی ذمہ داری ہو اور چوتھے میں اسے آواز دی جا رہی ہو۔ یہی نہیں، ایسے میں فوج اور سول کی کشمکش بھی۔
میاں صاحب اردوان کے نقش قدم پر چل نکلیں؟ اردوان کو کیا کسی جنرل جیلانی نے دریافت کیا اور اس کی تربیت کی تھی یا کسی بریگیڈیئر قیوم نے ان کا نام تجویز کیا تھا۔ پاکستانی عوام تصاویر جنرل راحیل شریف کی خرید رہے ہیں۔اپیل ان سے یہ ہے کہ برطانیہ کے مشہور کاروباری شریف خاندان کے لیے وہ ٹینکوں کے سامنے لیٹ جائیں!
گریز اور فرار، گریز اور فرار۔ہر ملک اور معاشرے کا اپنا پس منظر، اپنی تاریخ اور اپنا مزاج ہوتا ہے؛ چنانچہ اندازِ فکر اور ترجیحات بھی مختلف ۔اولین برس کے بعد پاکستان کے عوام تو کاروبارِ حکومت میں کبھی شریک ہی نہ تھے۔ انہیں تو کبھی موقع ہی نہ دیا گیا۔ ترکیہ اور ملائیشیا میں ملا تو انہوں نے فیصلہ صادر کر دیا۔ ترکیہ اور ملائیشیاسلطانیٔ جمہور کے نادر نمونے نہ سہی، مگر کیا یہ ممکن ہے کہ آزاد کشمیر کے سے الیکشن وہاں برپا ہوں۔ وفاق سرکاری خزانہ لٹاتا رہے۔ برسبیل تذکرہ کل شام آزاد کشمیر کے ایک سابق وزیر نے پوچھا: شاہ محمود کیا پیپلز پارٹی میں واپس آ رہے ہیں؟ شاہ کے ایک ملتانی دوست سے پوچھا۔ جواب کا خلاصہ یہ ہے: تمہاری عقل کیا گھاس چرنے گئی ہے۔ جانا ہو گا تو نون لیگ میں جائے گا۔
جی نہیں؟ احسن اقبالوں اور شاہ محمودوں اور ان کے آقائوں پر مشتمل یہ کوئی نظام نہیں۔ احسن اقبال کتنا ہی اینڈتے پھریں وقت آنے پربات محترمہ مریم نواز اور حمزہ شہباز شریف کی سنی جائے گی۔ احسن اقبال دکھاوے کے لیے رکھے ہیں۔ وقت آئے گا تو بات جہانگیر ترین کی سنی جائے گی۔ ساری جمہوری دنیا میں نظام یہ ہے کہ امیدوار کا فیصلہ علاقے کے ووٹر کرتے ہیں۔ صدر یا وزیر اعظم کا، ان کی پارٹی۔ ڈونلڈ ٹرمپ پاگل سے لگتے ہیں۔ زبان پر قابو ہے نہ چہرے کے تاثرات پر۔ اس لیے وہ امیدوار ہیں کہ پارٹی میں اکثریت کی تائید انہوں نے حاصل کر لی۔ اب یہ کہا جاتا ہے کہ امریکہ میں ووٹر دو طرح کے ہیں۔ ایک ٹرمپ کے حامی اور دوسرے ان کے مخالف۔
جی ہاں، ایک عدد اسٹیبلشمنٹ بھی ہے۔ سیاسی اشرافیہ، افسر شاہی، میڈیا کی ممتاز شخصیات، پینٹاگان اور سی آئی اے۔ اس کے سوا مگر تھنک ٹینک بھی ہیں۔ احتساب کا ایک نظام ہے اور اخلاقی معیارات بھی۔ امریکہ کا کوئی صدر ذاتی کاروبار کا تصور بھی کر سکتا ہے؟ کسی جمہوری ملک میں طارق فاطمی کیا اپنے منصب پر فائز رہ سکتے؟ ارتقا نہیں، یہ اصول کا معاملہ ہے۔ ہم بھی کبھی ایسے ہی تھے۔ چار ہزار فوج کے ساتھ مصر فتح کرنے والے عمرو بن العاصؓ کو عرب کے تین دانائوں میں شمار کیا جاتا تھا۔ آخر عمر میں کسی نے پوچھا کہ کیا کوئی حسرت باقی ہے؟ کہا: میرا خیال ہے کہ کاروبار کی مجھ میں بہت استعداد تھی۔ مسئلہ مگر یہ تھا کہ دو سے بکریاں تین ہوجاتیں تو خطاب کے فرزند کی تنبیہ موصول ہوتی۔
نظام وہ ہوتا ہے، ہر ایک کا دائرہ کار جس میں متعین ہو۔ قانون سب کے لیے یکساں ہو اور عدالت سے ہر ایک کو انصاف کی امید ہو۔ عمرانی معاہدہ عملاً ختم ہو چکا۔ از سر نو اسے تشکیل دینا ہو گا۔ اور سب جانتے ہیں کہ یہ کام کس کو کرنا ہے۔ بے یقینی کا یہ سلسلہ مستقلاً جاری نہیں رہ سکتا۔ رفوگری سے اب کام نہیں چلے گا۔ وہ جو شاعر نے کہا تھا ؎
یہ جامہ صد چاک بدل لینے میں کیا تھا
مہلت ہی نہ دی فیض کبھی بخیہ گری نے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں