میں حیران ہوں کہ پچھلے دو دنوں میں کسی ایک بھی لیڈر نے پاک افغان سرحد کو محفوظ بنانے کی بات نہیں کی۔ سیدنا فاروق اعظمؓ نے ارشاد کیا تھا : جس سے نفرت کرتے ہو‘ اس سے ڈرتے رہو۔ ہم ایک عجیب قوم ہیں‘ ساری دنیا کو للکارتے ہیں، پھر کھلے میدان میں سو رہتے ہیں۔
پہلا حملہ محمد خاں شیرانی نے کیا۔ دوسرا محمود خان اچکزئی اور تیسرا حسین احمد حقانی نے۔ ہدف پاکستانی فوج ہے۔حسین حقانی قابل فہم ہیں۔ ان کی کتاب ''Pakistan: Between Mosque and Military'' اور امریکی اخبارات میں شائع ہونے والے ان کے مضامین پڑھیں تو کوئی شبہ نہیں رہتا کہ کس کے لیے وہ کام کر رہے ہیں۔ وہ کسی نظریاتی پس منظر کے حامل نہیں۔ ملّا اور لبرل فاشسٹ جو پاکستان پریقین نہیں رکھتے۔ ملّا کی اپنی وجوہات ہیں اور الحادی تحریکوں سے متاثر سیکولر زکی اپنی۔ اللہ اور اس کے رسولؐ کو ملّا مانتا ہے مگر اجماع اُمت کو تسلیم نہیں کرتا۔برصغیر کے مولوی صاحبان کا مسئلہ یہ ہے قیادت کو وہ اپنا حق سمجھتے ہیں۔ ان میں سے بعض کو قریب سے دیکھا۔ ایک نے مجھ سے کہا : کئی سال تک کراچی سے پشاور تک میں عوام سے خطاب کرتا رہا مگر اس قوم کو بیدار نہ کر سکا۔ امام مان لیا جاتا تو شاید وہ پاکستانیوں کو دنیا کی افضل ترین اُمت قرار دیتا۔
ایسے ہی ایک دوسرے ''سکالر‘‘ کو دیکھا۔ تین گھنٹے تک اپنے مداحین سے خطاب کے بعد مجمع کو انہوں نے بتایا کہ ان کے ملفوظات پر مشتمل ایک پمفلٹ تقسیم کیا جائے گا۔ پھر دانت پیستے ہوئے بولے، پڑھنا ہو تو لے کر جائیے‘ اس پر پیسے لگے ہیں۔ یہ پیسے ان کے نہیں تھے۔ طعام و قیام تک کا بندوبست ان کی چھوٹی سی پارٹی کے ذمہ تھا۔ موصوف کیا بخل کا شکار تھے؟ جی نہیں‘ اقتدار کی بے تاب تمناّ‘ شخصیت کا توازن جو برباد کر دیتی ہے۔ دیکھنا ہو تو انہیں پاکستان کی قبائلی پٹی میں دیکھئے‘ افغانستان یا ایران میں۔ حسین احمد حقانی نے عملی سیاست کا آغاز جنرل محمد ضیاء الحق کی گود میں شروع کیا۔ جنرل کی موت کے بعد، جو انکل سام کا کارنامہ تھا‘ وہ میاں محمد نوازشریف سے وابستہ ہو گئے جب فوج نے ان کی سرپرستی کا فیصلہ کیا۔
1993ء کی ایک شام میں قاضی حسین احمد مرحوم سے ملنے گیا‘ جب الیکشن وہ ہار چکے تھے اور رنجیدہ تھے۔ اب بے نظیر بھٹو کا جانباز حقانی انہیں مطلع کر رہا تھا کہ دراصل وہ ایک پیشہ ور دانشور ہے۔ دخترِ مشرق سے وہ اپنی فنی مہارت کا صلہ پاتے ہیں۔ قاضی صاحب ان کا موقف قبول کرنے پر آمادہ تھے۔ میں خاموش رہا۔
نواز شریف کی حکومت برطرف کی جا چکی تھی۔ سردار بلخ شیر مزاری نگران وزیر اعظم تھے۔ ان کی طرف سے ملاقات کی دعوت موصول ہوئی تو حقانی کو میں نے ان کے دروازے پر کھڑے پایا۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ وزیر اعظم سے میں ان کی سفارش کروں کہ تھوڑے سے مالی اختیارات دیے جائیں۔ ان کی بات مجھے معقول نظر آئی۔ منصب دیا ہے تو اختیار بھی دینا چاہیے۔کوثر نیازی وزیر اطلاعات اور اسی وزارت کے لیے حسین حقانی‘مزاری کے مشیر تھے۔ میری رائے انہوں نے دریافت کی تو عرض کیا کہ ان کے وزیر اطلاعات پیپلز پارٹی سے پیمان کر چکے ہیں۔ انہوں نے مجھ سے سوال کیا کہ کیا میں حسین حقانی کے ساتھ مل کر وزارتِ اطلاعات سنبھال سکتا ہوں ۔ان دنوں میں لاہور سے شائع ہونے والے ایک اخبار کا میگزین ایڈیٹر تھا۔ انگریزی محاورے کے مطابق یہ میری چائے کی پیالی نہ تھی۔ ذہنی طور پر الجھے ہوئے نگران وزیر اعظم حرفِ انکار سننے پر آمادہ نہ تھے۔ انہوں نے کہا کہ کچھ دن کے بعد میں انہیں جواب دے سکتا ہوں۔
بے نظیر بھٹو اقتدار میں آئیں تو حقانی کو انہوں نے سیکرٹری اطلاعات بنا دیا۔ خدا لگتی یہ ہے کہ سیکرٹری اطلاعات کی حیثیت سے میرے ساتھ ان کا رویہ ہمیشہ اچھا رہا؛ اگر چہ مجھے کبھی سرکاری دورے پر جانا تھا اور نہ سیکرٹ فنڈ سے عطیہ درکار تھا‘ جس کی بہتی گنگا میں شرفا اشنان کرتے رہے، حتیٰ کہ 2009ء آ پہنچا۔ تب میں نے انکشاف کیا کہ قمر زمان کائرہ کی وزارتِ اطلاعات کے پاس دو ارب کے سیکرٹ فنڈ موجود ہیں۔ اخبار نویسوں کو یقین نہ آیا‘ جس طرح اس پر کہ اپنی ضرورت کا 31فیصد ڈیزل پاکستان خود پیدا کرتا ہے۔ یہ ناچیز بھی کچھ ایسا ریاضت کیش نہیں‘ مگر یہ سالانہ بجٹ اور دوسری سرکاری دستاویزات میں رقم تھا۔ میرے مرحوم دوست‘ وزارت خزانہ کے ایڈیشنل سیکرٹری فاروق گیلانی صاحب نے نشاندہی کی تھی۔ وزارت اطلاعات کے پاس اب کوئی سیکرٹ فنڈ نہیں۔ سرپرستی اب آئی بی کے خفیہ کھاتوں سے کی جاتی ہے ۔بہت سے دوسرے قرینے بھی ہیں۔
مشرف کے دور میں ایک سیاسی کردار کے لیے حسین حقانی ترستے رہے‘ بالآخر مایوس ہو کر امریکہ چلے گئے۔ باقی تاریخ ہے۔ کوئٹہ کے المناک واقعہ کے فوراً بعد‘ مولانا محمد خان شیرانی اچانک اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کیوں ہو گئے؟ اچانک انہیں اچھے اور بُرے طالبان کی اصطلاحیں کیوں یاد آئیں؟ یہ کیوں کہا کہ دہشت گردوں کے گروہ فوج کی تخلیق ہیں؟ وہ تو ان کے مدارس سے اٹھے ہیں۔ اکیس برس تک شیرانی نے ان کے خلاف ایک لفظ نہ کہا۔ اس اثناء میں ایک کے بعد دوسری حکومت سے وہ اور ان کے لیڈر مولانا فضل الرحمن‘تمام ممکن فوائد وصول کرتے رہے۔ کیا اب وہ مولانا فضل الرحمن کی جگہ لینے کے لیے بے چین ہیں یا فقط اپنے سیاسی کردار کی توسیع کے آرزو مند ؟
اگلے دن محمود اچکزئی نے وہی آموختہ پڑھا ۔وہی اچکزئی جن پر ایران کی خفیہ ایجنسی اور افغانستان کی سیکرٹ سروس این ڈی ایس کے ساتھ روابط کا الزام ہے۔ کچھ تصاویر اور دستاویزات‘ اس ناچیز کے پاس موجود ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کا نام لے کر پاک فوج کو انہوں نے تمام سماج دشمن عناصر یعنی دہشت گردوںکا سرپرست کہا۔''را‘‘ کے حق میں بات کی‘ وہی جو نجم سیٹھی کیا کرتے ہیں۔ ''را‘‘ تو گویا فنکاروں کا ایک طائفہ ہے جو دلی والوں کا دل بہلانے کے کام آتا ہے، مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور بلوچستان کی تخریب کاری میں ہرگز اس کا کوئی ہاتھ نہیں۔اچکزئی نے دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن جنگ میں ساٹھ ہزار زندگیاں نذر کرنے والی قوم کو ٹسوے بہانے کا مرتکب ٹھہرایا اور پاکستان کو پراکسی وار کا۔ اچکزئی کیا چاہتے ہیں اور کس کا حقِ نمک ادا کر رہے ہیں۔ یہ مگر آشکار ہے کہ انہیں پاکستانی عوام کی پروا ہے اور نہ بلوچستان کی رائے عامہ کی۔ مولانا فضل الرحمن‘ محمد خان شیرانی اور حسین احمد حقانی کی طرح وہ اپنی غرض کے بندے ہیں، خلقِ خدا سے بے نیاز، شرم و حیا سے بے نیاز۔ جنرل محمد ضیاء الحق کے دور میں برسوں وہ کابل میں براجمان رہے۔ کس کے ایما پر؟
کراچی میں دو فوجی جوانوں کی شہادت کے فوراً بعد میں نے عرض کیا تھا کہ یہ ایک بڑا منصوبہ ہے۔ واضح الفاظ میں لکھا تھا کہ کوئٹہ‘ گوادر‘ قبائلی پٹی اور پاک ہند سرحد پر زیادہ خوفناک واقعات رونما ہو سکتے ہیں۔ اس سے چند دن قبل یہ اطلاع بھی دی تھی کہ افغانستان کے راستے پچاس دہشت گرد جنوبی افریقہ سے پاکستان پہنچے ہیں۔ بعد از اں ان میں سے کچھ گرفتار کر لیے گئے۔ یہ کوئی راز نہیں کہ فقط طالبان ہی بلوچستان میں دہشت گردی کے مرتکب نہیں۔ بعض عرب ملکوں کے کئی جاسوس گرفتار کئے جا چکے۔ ایران اور افغانستان میں بھارتی قونصل خانوں کاجال بچھا ہے۔ کیا ان دونوں ملکوں سے ہزاروں شہری ہر روز دہلی اور ممبئی جاتے ہیں؟ پانچ برس سے لکھ رہا ہوں کہ برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی سکس ایک منصوبہ رکھتی ہے کہ خدانخواستہ پاکستان اگر متزلزل ہو جائے تو کراچی سے گوادر تک کی پٹی الگ کر دینے کی کوشش کی جائے۔ انکل سام اب نیا کھلاڑی ہے‘ برطانیہ کے علاوہ جس کا سفارت خانہ کراچی سے دہشت گردوں کو فراوانی سے ویزے جاری کرتا رہا۔
ساری انگلیاں ''را‘‘ کی طرف اٹھی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ تعجیل سے کام نہ لیا جائے‘ یہ امریکہ بہادر بھی ہو سکتا ہے۔ چند ہفتے قبل امریکی سیاست دانوں کی طرف سے پاکستان کے خلاف گولہ باری کا آغاز ہوا‘ پھر تین سو ملین ڈالر کی امداد روک دی گئی۔ کوئٹہ میں جس فنکاری کا مظاہرہ کیا گیا وہ ''را‘‘ یا این ڈی ایس کے بس کی بات نہیں۔ اندیشہ ہے کہ انکل سام ملوث ہیں۔ گوادر کی بندرگاہ چین کو سونپنے پرہاتھی ناراض ہے۔
دو برس ہوتے ہیں‘ ایوان صدر کی ایک ملاقات میں چیف آف آرمی سٹاف نے مجھ سے کہا تھا‘ اس خطے کی پوری صورت حال ہی تبدیل ہونے والی ہے۔ ٹھیک کہا تھا۔ تاریخی ‘سیاسی اور سماجی عوامل اس طرف ہمیں دھکیل رہے ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا اس کے لیے مطلوبہ تیاری ہم نے کی ہے۔ اس کے تقاضوں اور تاریخی تغیر کے عمل میں خارجی دشمن اور ان کے کارندوں کی ممکنہ چالوں پر کافی غور و خوض ہم نے کیا ہے۔پیر کے دن بھارتی اخبار نویس ایک دوسرے کو مبارک باد دیتے رہے۔ پاکستانی صحافت کیا کر رہی ہے؟ کیا ان میں سے بعض بھارت کے مددگار نہیں؟
میں حیران ہوں کہ پچھلے دو دنوں میں کسی ایک بھی لیڈر نے پاک افغان سرحد کو محفوظ بنانے کی بات نہیں کی۔ سیدنا فاروق اعظمؓ نے ارشاد کیا تھا : جس سے نفرت کرتے ہو‘ اس سے ڈرتے رہو۔ ہم ایک عجیب قوم ہیں‘ ساری دنیا کو للکارتے ہیں، پھر کھلے میدان میں سو رہتے ہیں۔