تمام انسانوں کے حقوق محترم ہیں۔ تمام علاقوں اور لسانی گروپوں کے لیے حکمت سے کام لیا جانا چاہیے اور جہاں تک ممکن ہو‘ نرمی سے ۔ وہ قوم مگر کبھی سرسبز نہیں رہ سکتی‘ جو غداروں کو معاف کر دے۔ شتر مرغ کی طرح ریت میں سر چھپا لے۔
ٹیپو سلطان دانا‘ حکیم اور ہر دلعزیز تھا۔ ٹوٹ کر لوگ اس سے محبت کرتے تھے۔ ایک جنگ میں شکست ہوئی اور سوا دو کروڑ تاوان کا معاہدہ ہوا۔ سلطان آزردہ تھا ۔پھر اس نے دیکھا کہ جلے ہوئے دیہات سے مخلوق امڈ کر آئی‘ اس کی غیر مسلم رعایا۔ جو کچھ ان کے پاس بچ رہا تھا‘ انہوں نے اپنے بادشاہ کے قدموں میں ڈھیر کر دیا۔ ایک آدھ ناکامی کی بات دوسری ہے‘ وگرنہ کمانڈر وہ ایسا تھا کہ جس انگریز جنرل کو اس نے خاک چاٹنے پر مجبور کر دیا تھا‘ واٹرلوکے میدان میں اسی نے نپولین کو شکست سے دوچار کیا تھا۔
ایک کمزوری البتہ ایسی تھی کہ جس کا کبھی کوئی علاج نہ تھا۔ وہ ایک ترس کھانے والا آدمی تھا۔ ایک سے زیادہ بار غداروں کو اس نے معاف کیا۔ بالآخر وہی اس کے لیے جان لیوا ثابت ہوئے۔
سلطان شہید ہوا تو بادل گھر آئے۔ میسور کے آسمان پر بجلی چمکنے لگی۔ انگریز سپاہ‘ جسے نظام حیدر آباد اور مرہٹوں کی مدد حاصل تھی‘جشن کی تیاریوں میں مگن تھی۔ تجہیز و تکفین کی ذمہ داری انہی غداروں میں سے ایک ‘میر غلام علی لنگڑا کو سونپی گئی۔ اچانک انگریز میجر نے ایک سسکی کی آواز سنی۔ برق چمکی تو اس نے دیکھا کہ غلام علی لنگڑا کے چہرے پر آنسوئوں کی لکیریں بہہ رہی تھیں What happened Mir Sahib? ''میر صاحب کیا ہوا؟‘‘ اس نے پوچھا۔ میر نے کہا : ایں صاحب شمانہ کشتہ اید ‘ما کشتہ ایم۔ ان صاحب کو آپ نے نہیں مارا‘ ہم نے مار ڈالا۔
سب جانتے ہیں کہ قانون کی گرفت قائم نہ رہے تو خودرو جھاڑیوں کی طرح ہر طرح کا جرم پنپنے لگتا ہے۔ خاتمہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ خوف مجرموں کے دلوں میں بیٹھ جائے۔ پچیس ہزار انگریزوں کے ساتھ‘ برطانیہ نے مدتّوں برصغیر پر حکومت کی۔ ایک کے بعد دوسرا علاقہ وہ فتح کرتے رہے۔ امیر علی کی قیادت میں منظم بنارسی ٹھگوں سمیت‘ جو ایک لشکر کی طرح منظم تھے‘ ایک ایک قانون شکن گروہ کا بتدریج انہوں نے خاتمہ کر دیا۔
ایک گیت بہت دنوں سے گایا جا رہا ہے کہ غداری کے سرٹیفکیٹ تقسیم نہ کئے جائیں۔ جی ہاں‘ جی ہاں! یہ ایک سنگین الزام ہے اور اسی پر عائد ہونا چاہیے‘ جو اس کا مستحق ہو۔ حکومت کا مخالف اکثرریاست کا دشمن نہیں ہوتا۔ اپنے مخالفین پر اہل اقتدار غدّاری کے مقدمات قائم کرتے رہے ہیں۔ خلق خدا ان کی تائید نہیں کرتی اور عدالتیں بھی شاذ ہی ان پر مہر لگاتی ہیں۔ اپنے اوّلین دور میں میاں محمد نوازشریف نے ملیحہ لودھی اور نجم سیٹھی پر بغاوت کے مقدمات قائم کئے تھے۔ وقت گزرا اور دھول بیٹھ چکی تو نجم سیٹھی ان کے قریبی مشیر ہو گئے۔ نون لیگ اور پیپلز پارٹی نے اپنی پسند کا الیکشن کمشن بنایا تو انہی صاحب کو 60 فیصد آبادی کے سب سے بڑے صوبے کا نگران وزیراعلیٰ بنایا گیا۔ وہاں سے فراغت پائی تو کرکٹ بورڈ ان کے حوالے کر دیا گیا‘ جہاں اربوں کی آمدن اور اخراجات ہوتے ہیں۔ ملیحہ لودھی کو اقوام متحدہ میں پاکستان کا سفیر مقرر کر دیا گیا۔ ثانی الذکر کے کردار پر کبھی شکوک و شبہات کا اظہار نہیں کیا گیا۔ وہ خارجہ امور کی ماہر ہیں اور عرق ریزی کی شہرت رکھتی ہیں۔ کچھ بھی ہو غداری کے سرٹیفکیٹ بھی میاں صاحب ہی
نے تقسیم کئے۔ پھر ریاست کے نازک معاملات کی ذمہ داری بھی انہی کے سپرد کر دی۔ خاص طور پر اول الذکر کو جو بھارت جاتے رہتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ میاں صاحب کے مشیر ہیں‘ ان کے ایما پر پیغام رسانی کرتے ہیں۔
اپنے وطن سے الطاف حسین کے اظہار نفرت پر اٹھنے والی بحث میں عبدالغفار خان‘ عبدالولی خان‘ غوث بخش بزنجو‘ جی ایم سید اور عبدالصمد اچکزئی اور ان کے فرزند ارجمند کا ذکر بھی آیا۔
2011ء کے موسم خزاں میں ‘عمران خان کے گھر پر بلوچستان کے سرداروں سے ان کی ایک ملاقات یاد آتی ہے۔ کچھ عرصہ قبل کوئٹہ میں ایک جلسہ عام ہوا تھا‘ جس میں اپوزیشن کے اکثر لیڈرشریک تھے۔ زیادہ تر سامعین محمود اچکزئی کے اہتمام سے آئے تھے۔ سارا وقت وہ بلوچستان زندہ باد‘ پختون خوا زندہ باد اور پاکستان مردہ باد کے نعرے لگاتے رہے۔ نون لیگ کی رہنما تہمینہ دولتانہ نے اپنی نحیف آواز میں سامعین کا غصہ فرو کرنے اور سمجھانے کی کوشش کی تو ان کا مذاق اڑایا گیا۔ انہیں ہوٹ کر دیا گیا۔ اس زمانے میں عمران خان یہ کہا کرتے تھے کہ اگر وہ بلوچ ہوتے تو وہ بھی پاکستان کے خلاف ہتھیار اٹھانے والوں میں شامل ہوتے۔
اندیشوں سے بھرے بلوچ سرداروں نے کہا کہ قومی رہنمائوں کے اسی طرزعمل نے ملک سے بے وفائی کرنے والوں کے حوصلے بلند کئے ہیں۔ وفاقی حکومت کی پے در پے زیادتیوں اور بلوچستان کے عوام کو نظرانداز کرنے پر وہ بھی ناخوش ہیں۔ مگر پاکستان مردہ باد کا نعرہ بلند کرنے کا مطلب کیا ہے؟ اختلاف کچھ لوگوں سے ہے‘ حکمرانوں سے ہے‘ پاکستان سے کیا اختلاف ہے!
یہ بات اس کی سمجھ میں آ گئی؛ چنانچہ کوئٹہ کے تاریخی جلسہ عام میں پاکستان کا قومی ترانہ بجایا گیا۔ بلوچستان کے پیکر پر لگے زخموں اور اس سرزمین کی محرومیوں کا ذکر تو اسی شد و مد سے ہوا‘ جیسا کہ چاہیے تھا‘ مگر پاکستان کا پرچم بلند رکھا گیا...یہی متوازن اور معقول طرزعمل ہے۔
عبدالصمد اچکزئی نے پاکستان کو دل سے قبول نہ کیا تھا اور یہ بات ان کے فرزند ارجمند کے طرزعمل سے بھی آشکار ہے۔ جی ایم سید پاکستان توڑنے کی بات کرتے رہے اور ان کے بعض حامیوں نے بھارت میں اسلحہ استعمال کرنے کی تربیت پائی تھی۔ عبدالغفار خان پاکستان سے اس قدر نفرت کرتے تھے کہ انہوں نے یہاں دفن ہونا بھی پسند نہ کیا۔ بلوچستان کو الگ ریاست بنانے کی تگ و دو میں‘ خان آف قلات کے ایما پر غوث بخش بزنجو 1948ء میں بلوچ سرداروں کا ایک وفد لے کر بھارت گئے ۔ پنڈت جواہر لعل نہرو سے تو ان کی ملاقات نہ ہو سکی مگر وہ مولانا ابوالکلام آزاد سے ملے۔ آنجناب کی تجاویز سن کر وہ ششدر رہ گئے اور انہوں نے کہا : آپ عجیب لوگ ہیں۔ اپنا وطن آپ حاصل کر چکے۔ اب آپ کس چیز کی تلاش میں سرگرداں ہیں؟ خان آف قلات نے ایسے ہی وفد ایران اور افغانستان بھی بھیجے تھے۔ ایران نے جواب دینا بھی گوارا نہ کیا۔ افغانستان اس قابل تھا ہی نہیں کہ ان کی مدد کرے۔ شرارت وہ کر سکتا تھا۔
اقوام متحدہ میں پاکستانی رکنیت کی مخالفت سے لے کر آج تک وہ اسی روش پر گامزن ہے۔ ماضی میں اس سے وہ کچھ حاصل کر سکا اور نہ مستقبل میں پا سکے گا۔1974 ء میں اے این پی میں نوجوانوں کے شعبے''پختون زلمے‘‘ سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں کارکنوں کو گوریلا جنگ کی تربیت کے لیے افغانستان بھیجا گیا۔ عبدالولی خان اور عبدالغفار خان نے پختون خوا کو پاکستان سے الگ کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ بھارت اور سوویت یونین کی ہمدردیاں بھی انہیں حاصل تھیں۔ تفصیلات جمعہ خاں صوفی کی کتاب ''فریبِ ناتمام‘‘ میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کی نفرت میں اپوزیشن پارٹیاں ولی خان کا دفاع کرتی رہیں۔
خان آف قلات کو قائداعظمؒ بیٹا کہا کرتے ۔ یہ اعزاز ان کے سوا کسی کو حاصل نہ ہوا۔ وہ ان کے گھر میں ٹھہرا کرتے اور انہیں کوئی اعلیٰ سرکاری عہدہ عطا کرنے کے آرزومند تھے۔ پیمان کر کے انہوں نے توڑ ڈالا اور ملک کے خلاف سازش کی تو قائداعظمؒ نے فوج کشی کا حکم دیا۔ علیحدگی کی تحریک جھاگ کی طرح بیٹھ گئی۔ آئندہ عشروں میں ایک ایک کر کے پختونستان‘ سندھو دیش اور آزاد بلوچستان کی تحریکیں بھی دم توڑ گئیں۔ آشکار ہے کہ الطاف حسین کا انجام بھی یہی ہو گا۔
تمام انسانوں کے حقوق محترم ہیں۔ تمام علاقوں اور لسانی گروپوں کے لیے حکمت سے کام لیا جانا چاہیے اور جہاں تک ممکن ہو‘ نرمی سے ۔ وہ قوم مگر کبھی سرسبز نہیں رہ سکتی‘ جو غداروں کو معاف کر دے۔ شتر مرغ کی طرح ریت میں سر چھپا لے۔