ٹیپو کے مزار پر حاضری دینے اقبالؔ میسور گئے تو واپسی پر کچھ یادگار نظمیں لکھیں۔ ان میں سے ایک کا عنوان ''ٹیپو کی وصیت‘‘ ہے۔ ایک شعر یہ ہے ؎
روز ازل مجھ سے یہ جبرئیل نے کہا
جوعقل کا غلام ہو‘ وہ دل نہ کر قبول
تحریک انصاف کے رہنما اسحاق خاکوانی نے فیصل آباد جیل کی فوجی عدالت میں‘ شیخ مجیب الرحمن کے مقدمے کی کارروائی کو یاد کیا۔ کہا‘یاد نہیں پڑتا کہ شیخ صاحب نے کھل کر کبھی پاکستان سے علیحدگی کی بات کی ہو چہ جائیکہ کہ پاکستان مردہ باد کا نعرہ لگاتے۔ الطاف حسین کے سوا‘ تاریخ میں شاید ہی کوئی مثال ہو کہ کسی سیاسی رہنما نے ایسی غلیظ حرکت کی ہو۔فاروق ستار سمیت ایم کیو ایم کے اکثر لیڈر یہ توجیہ کرتے رہے کہ ان کا قائد جذبات کی رو میں بہہ گیا۔ میر تقی میرؔ کا ایک بڑا دلچسپ شعر ہے ؎
سرزد ہم سے بے ادبی تو وحشت میں بھی کم ہی ہوئی
کوسوں اس کی اور گئے اور سجدہ ہر ہر گام کیا
وحشت میں بھی محبت غالب۔ ایک آدھ شعر نہیں‘ میرؔ صاحب کے سارے کلام میں‘ محبت کے لیے اکرام کا غلبہ ہے ؎
دور بیٹھا غبارِ میرؔ اس سے
عشق بِن یہ ادب نہیں آتا
تمنا کی بے تابی پاگل پن پیدا کرتی ہے۔ نفسیات کے ماہرین کہتے ہیں کہ چمگادڑ کی طرح آدمی الٹا لٹک جاتا ہے۔ ساری زندگی اور تمام کائنات کو ایک آدمی اور ایک ہی جذبے کی روشنی میں دیکھتا ہے۔ ہاں مگر تہذیبِ نفس ! وہ اسے تھام سکتی ہے ؎
رات ہم بھی تری محفل میں کھڑے تھے چپکے
جیسے تصویر لگا دے کوئی دیوار کے ساتھ
الطاف حسین‘ وطن سے محبت کے دعوے بھی بہت کرتے رہے۔ ضرب عضب کی حمایت میں ایک لاکھ رضاکاروں کی پیشکش کی۔ افتادگانِ خاک کی محرومیوں کا رونا رویا کرتے‘ باطن میں مگر غلاظت کا ڈھیر لگا تھا۔ ہر بار انہیں معاف کر دیا گیا۔ خوش گمانی سے کام لیا گیا کہ برہمی کے عالم میں اول فول بک رہے ہیں۔
''را‘‘ کے بندوبست سے دہلی میں منعقد ہونے والی کانفرنس میں جب انہوں نے یہ کہا تھا کہ پاکستان کا قیام انسانی تاریخ کی سب سے بڑی غلطی تھی تو آنکھیں کھل جانی چاہیئے تھیں۔ مگر تذبذب اور خوف کی ماری قوم‘ سانحہ 1971ء کے‘ جس کی نفسیات پر گہرے سائے ہیں۔ خوف عقل کو چاٹ جاتا ہے ‘ تذبذب فیصلہ کرنے نہیں دیتا۔ کیا ہی اچھا شعر ہے شعیب بن عزیز کا ؎
خوف اور خواہش کے درمیاں نہیں رہنا
یہ جہاں ہو جیسابھی ‘اب یہاں نہیں رہنا
دو عشرے ہوتے ہیں‘ اشفاق احمد‘ پروفیسر احمد رفیق اختر کے ہاںگئے۔ بلا کے ذکی تھے اور ذہنی جمناسٹک پر تلے رہتے۔ اوّل ایک ناول کی کہانی سنائی۔ خیال ہے کہ اسی وقت گھڑلی ہو گی۔ پوچھا کہ اس داستان کا انجام کیا ہونا چاہیے۔ فقیر نے تجویز کیا۔ کچھ دیر حیران رہے‘ پھر بولے : آپ ناول نگار تو ہیں نہیں۔ کہا بے شک‘ مگر قاری تو ہوں۔ تب سوال کیا کہ کیا وہ صوفی بن سکتے ہیں۔ ارشاد کیا : اس عمر میں؟ اتنی بڑی انا کے ساتھ؟ کہا : صحیح وقت پر فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ ساری عمر نذر کرنا پڑتی ہے۔ افتخار عارف نے کہا تھا ؎
زندگی نذر گزاری تو ملی چادرِ خاک
اُس سے کم پر تو یہ عزت نہیں ملنے والی
ایک بار عارف سے سوال کیا : کشف المحجوب آپ نے کتنی بار پڑھی ہے۔ فرمایا : پڑھی نہیں‘ مجھ پر بیت گئی ہے۔ کہا :دوسروں کو درویش ہمیشہ ہی رعایت دے سکتا ہے‘ خود کو کبھی نہیں۔ شیخ ہجویر نے اپنے ایک استاد کا قول نقل کیا ہے : یہ دنیا ایک دن کی ہے اور ہم نے اس کا روزہ رکھ لیا ہے۔ ماضی کے روشن چراغ یاد آتے رہے ؎
مرنے والوں کی جبیں روشن ہے ان ظلمات میں
جس طرح تارے چمکتے ہیں اندھیری رات میں
صلاح الدین ایوبی کی ترجیح اول کیا تھی؟ بیت المقدس کی آزادی اور دربار کے دبدبے کو پامال کر کے ‘عام آدمی کی آزادی اور عزت نفس کی بحالی۔ عکّہ شہر کو سلطان نے جلانے کا حکم دیا تو جنرلوں نے کہا :شہر صدیوں میں بستے ہیں۔ سلطان عجز و انکسار کا پیکر تھا‘ مگر یہ کہا : شہر بستے اور اجڑتے رہیں گے مگر بیت المقدس کی حفاظت کے لیے تاریخ کوئی دوسرا صلاح الدین نہیں جنے گی۔
آنسوئوں کے ساتھ تر داڑھیوں کے ساتھ‘ جب صلیبی لشکر کے سالار اور سپاہی آخری بار یروشلم کی زیارت کر رہے تھے تو اس نے انہیں معاف کر دیا۔ صرف دس دینار فی کس جزیہ طلب کیا ۔ جو دے نہ سکے ‘ ان کا اپنی جیب سے ادا کیا۔
ابرہام لنکن کی ترجیح کیا تھی؟ امریکی ریاستوں کا اتحاد اور سیاہ فام غلاموں سمیت عام انسانوں کے حقوق کی حفاظت۔ ریشم کا سا آدمی تھا۔ بیوی اس کا مذاق اڑاتی اور رفقائے کار دندناتے ہوئے ایوان صدر میں داخل ہوا کرتے۔ جنگ کے ہنگام فولاد کا ہو گیا۔ امریکہ کو اس نے متحد کر دیا۔ کالوں کو آزادی عطا کی مگر کبھی کوئی دعویٰ نہ کیا۔ جان دے دی مگر اپنے عزم پر ذرا سا سمجھوتہ بھی نہ کیا۔ غالباً اس کی اخلاقی صفات‘ حسنِ کلام‘ بے غرضی اور انکساری کی بنا پر امریکی مسلمان یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ آخر کو اس نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ تاریخ کوئی پختہ شہادت مہیا نہیں کرتی۔ ایسے لیڈر سبھی کے ہوتے۔ ذات پات اور مذہب و ملت سے بلند تر۔
ٹیپو ان میں سے ایک تھے۔ نظام حیدرآباد اور تمام دوسرے ریاستی حکمرانوں کی طرح اپنا اقتدار وہ بچا سکتے تھے۔ ان کی روح میں مگر پاک اور آزاد تھی۔ دوسرے قہرمانوں کی طرح وہ عیش و نشاط کے آدمی نہ تھے‘ اور انہوں نے یہ کہا تھا : شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔ ٹیپو بظاہر ناکام رہے مگر تاریخ کی بارگاہ میں کم ہی ایسے سرخرو ہوں گے۔ 217 سال گزر چکے‘ سنگ سیاہ کے مزار پر چراغ کبھی نہیں بجھتے اور 21 مقامی زبانوں میں گیت ہمیشہ گائے جاتے ہیں۔ فرانسیسی شاعر نے کہا : فرشتوں نے اس کے لیے ہار گوندھے اور حوروں نے اس کا استقبال کیا۔
قائداعظمؒ انہی میں سے ایک تھے۔ جیسا کہ ہمیشہ عرض کرتا ہوں‘ ان کی سی اعلیٰ اخلاقی صفات کا لیڈر‘ تاریخ میں دور دور تک نظر نہیں آتا۔ عمر بھر انہوں نے اپنا کوئی وعدہ نہ توڑا۔ کبھی ایک چھوٹا سا جھوٹ بھی ان سے منسوب نہ کیا گیا۔ کبھی کسی دشمن نے بھی‘ ایک ذرا سی بددیانتی کا الزام ان پر عائد نہ کیا۔ اقتدار اگر ان کی ترجیح ہوتی تو وہ غور کرتے‘ جب انہیں متحدہ ہندوستان کا وزیراعظم بننے کی پیشکش کی گئی۔ آئینی امور کے وہ ماہر تھے اور حریفوں سے بہتر حکمت عملی تشکیل دینے کی صلاحیت سے بہرہ ور۔ منصب اگر قبول کر لیتے تو ضمانتیں بھی حاصل کرتے۔ ان کے ایک اشارے پر‘ برصغیر کے مسلمان میدان میں اترنے پر ہمہ وقت تیار رہتے۔ اے بی سی فارمولا جب پیش کیا گیا تو انہوں نے اسے قبول کر لیا‘ جس کے تحت دس برس کے بعد صوبے الگ ہونے کا اختیار رکھتے تھے۔ وزارت عظمیٰ کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا۔ پاکستان ان کے عزم اور یکسوئی سے طلوع ہوا۔
فاروق ستار نے الطاف حسین سے لاتعلقی کا اعلان کیا ہے۔ زیر بحث سوال یہ ہے کہ کیا وہ ملک سے مخلص ہیں یا محض الطاف حسین کی سیاسی وراثت ہتھیانے پر تلے ہیں۔ پاکستان کو گالی دینے والے آدمی کی کھل کر مذمت میں انہیں تامل ہے۔ اپنے عمل سے انہیں ثابت کرنا ہو گا کہ ماضی میں ‘اس بدنام زمانہ آدمی کے جرائم میں اگر شریک تھے ‘تو اب واقعی توبہ کر چکے۔ اب تک تو وہ تاویل کا جلتا بجھتا چراغ اٹھائے کھڑے ہیں ؎
ارادے باندھتا ہوں ‘سوچتا ہوں ‘توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہو جائے‘ کہیں ایسا نہ ہو جائے
ٹیپو کے مزار پر حاضری دینے کے لیے اقبالؔ میسور گئے تو واپسی پر کچھ یادگار نظمیں لکھیں۔ ان میں سے ایک کا عنوان ''ٹیپو کی وصیت‘‘ ہے۔ ایک شعر یہ ہے ؎
روز ازل مجھ سے یہ جبرئیل نے کہا
جوعقل کا غلام ہو‘ وہ دل نہ کر قبول