وہی نکتہ : ملکوں اور قوموں کی حفاظت‘ فقط افواج اور حکومت نہیں‘ بلکہ زندہ و بیدار اقوام کیا کرتی ہیں۔ پاکستانیوں کو اپنا مستقبل عزیز ہے تو خواب غفلت سے انہیں جاگنا ہو گا۔
فاروق ستار نے اعلان کیا ہے کہ ایم کیو ایم‘ عیدالضحیٰ پر کھالیں جمع نہ کرے گی۔ شہریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ ایدھی فائونڈیشن اور اسی طرح کے دوسرے فلاحی اداروں کی مدد کریں۔ واقعہ مگر یہ ہے کہ جو نوجوان‘ ان کے زیراثر ہیں‘ خاموشی سے انہیں گھروں پر دستک دینے کا حکم دیا گیا ہے۔ ہدایت انہیں یہ کی گئی ہے کہ جمع شدہ کھالوں کو فوراً ہی فروخت کر دیا جائے۔ وصول شدہ رقم جمع کرا دی جائے۔
یہ عبرت کا مقام ہے۔ کبھی عالم یہ تھا کہ سیکٹر انچارج کے کارندے‘ گھر کا دروازہ کھٹکھٹاتے اور اطلاع دیتے کہ فلاں وقت وہ کھال وصول کرنے آئیں گے۔ اکثریت خوف زدہ تھی اور کم ہی لوگ انکار کی جرأت کرتے۔ یاد ہے کہ میں کراچی یونیورسٹی کے ایک استاد کے ہاں ٹھہرا ہوا تھا۔ دروازے پر دستک ہوئی۔ پروفیسر صاحب لوٹ کر آئے تو معلوم ہوا کہ ایم کیو ایم کے کارکن چندہ مانگنے آئے تھے۔ انکار تو انہوں نے کر دیا لیکن اب پریشان تھے۔
کراچی کے بعض اخبارات ناپسندیدہ تھے۔ ان کے خریداروں کو بتایا جاتا کہ اگر فلاں اخبار وہ خریدیں گے تو نتائج کے ذمہ دار ہوں گے۔ یہی کیا‘ اخبارات کے بنڈل جلائے جاتے اور ہاکروں کو ہراساں کیا جاتا۔ فاروق ستار کے بقول‘ اب ان کے لیے اپنی کھال بچانا مشکل ہو رہا ہے۔ سال گزشتہ اپنے ہدف کا وہ 20 فیصد حاصل کر پائے تھے۔ اندازہ ہے کہ امسال پانچ سے دس فیصد کے درمیان ہی یافت ممکن ہو سکے گی۔ جب چاہتے کسی بھی چینل کی نشریات وہ بند کر دیا کرتے تھے۔ کراچی کے اخبار نویس خوف زدہ تھے۔ بعض نے مفاہمت کر لی تھی اور ایم کیو ایم کے گیت گایا کرتے۔ باقیوں نے خاموشی کو شعار کیا۔ انتہا یہ ہے کہ لاہور کے اخبار نویسوں کو دھمکایا جاتا۔ بچوں کو قتل کرنے کی دھمکیاں دی جاتیں۔
عباس اطہر مرحوم نے کراچی میں قتل ہونے والے پولیس افسروں کا سوال اٹھایا تو انہیں بتایا گیا کہ ان کے نواسوں کے کوائف سے ایم کیو ایم باخبر ہے۔ صابر آدمی تھے‘ شام تک وہ وضاحت کرتے رہے کہ انہوں نے ایک جریدے کی رپورٹ نقل کی ہے۔ بات حد سے بڑھ گئی تو جیسا کہ ان کا مزاج تھا‘ وہ ڈٹ گئے۔ کہا : فقط نواسوں کا کیا ذکر‘ خاندان کے ایک ایک فرد کے‘ آمدورفت کے اوقات سے میں آپ کو مطلع کرتا ہوں۔ جو بگاڑنا ہے‘ بگاڑ لیجئے۔ احتیاطاً مجید نظامی مرحوم اور اپنے دوستوں کو آگاہ کر دیا۔
انہی دنوں کراچی کے ایک ناشر نے عمران خان سے کہا تھا کہ ایم کیو ایم کو وہ اپنے باپ کا قاتل سمجھتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ پاک فوج کے خلاف پیہم پروپیگنڈہ کرنے والے اس دلاور نے الطاف حسین کے سامنے سر جھکائے رکھا۔
خوف کی زنجیر پگھل رہی ہے۔ ساری دنیا کے سامنے پارٹی کا لیڈر بے نقاب کھڑا ہے۔ بھارتی خفیہ ایجنسی ''را‘‘ سے اس کے تعلقات اور پاکستان کو تباہ کرنے کے عزائم۔ ٹوٹ پھوٹ کا عمل جاری رہے گا اور گزرا ہوا وقت کبھی واپس نہ آ سکے گا۔ عسکری قیادت کی حکمت عملی میرے خیال میں درست نہیں۔ کھالیں ہی نہیں‘ ایم کیو ایم کو ہر طرح کے عطیات جمع کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ رفتہ رفتہ‘ دھیرے دھیرے اسے اپنی حقیقی موت کی طرف بڑھنے کی اجازت دینی چاہیے۔ فاروق ستار کبھی الطاف حسین کی جگہ نہیں لے سکتے، بھارت جس کی پشت پر کھڑا تھا۔ نفرت اور تعصبات کی آگ بھڑکا کر جو مہاجروں کے حقوق کا چیمپئن بن بیٹھا تھا‘ درآنحالیکہ اس شخص سے بڑھ کر مہاجروں کو کسی نے نقصان نہیں پہنچایا۔ امریکہ اور برطانیہ کو اس نے اپنی خدمات پیش کیں۔ برطانوی حکومت سے کہا کہ وہ اس کے لیے جاسوسی کا کارنامہ انجام دے سکتے ہیں۔
الطاف حسین ہمیشہ سے پاکستان کی سالمیت کے درپے تھے۔پاکستانی پرچم جلا کر اپنی سیاسی زندگی کا انہوں نے آغاز کیا تھا۔ اس سے بڑھ کر اور کیا کہ ہزاروں شہریوں کو ان کے دہشت گردوں نے ہلاک کر دیا‘ ان میں سے اکثر نے بھارت سے تربیت پائی تھی۔ ان دہشت گردوں کا انجام کیا ہو گا‘ جن میں سے اکثر زیرزمین ہیں‘ یا بنکاک‘ سری لنکا اور جنوبی افریقہ سمیت دوسرے ملکوں میں روپوش ہو چکے؟ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے منصوبے سے بھارت دستبردار ہو جائے۔ خاص طور پر اس وقت جب چین کے گرد گھیرا ڈالنے کے آرزو مند ‘امریکہ کی اشیرباد اسے حاصل ہے۔ افغانستان کی تخریب کار ایجنسی‘ این ڈی ایس کا تعاون بھی‘ کہ اس ملک نے خود کو کرائے کی ریاست بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ دو ماہ قبل ایم کیو ایم کے پچاس دہشت گرد افغانستان کے راستے پاکستان میں داخل ہوئے تھے‘ ظاہر ہے کہ این ڈی ایس کے تعاون سے۔ وہ کچھ نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ نہ کر سکے۔ حلقہ پی اے 127 کے تخریب کاروں کی طرح‘ جنہوں نے رات گئے مختلف مقامات پر پارک کی گئی بسیں نذر آتش کر دیں۔
ایم کیو ایم اب الطاف‘ فاروق ستار‘ حقیقی اور پاک سرزمین پارٹی دھڑوں میں بٹی ہے۔ مستقبل کا بہت کچھ انحصار‘ حالات کے تیوروں پہ ہے‘ جس میں اسٹیبلشمنٹ کا طرزعمل‘ سب سے زیادہ اہم ہے۔ فاروق ستار ادھورے لیڈر ہیں‘ بیک وقت رینجرز اور الطاف حسین سے خوف زدہ۔ الطاف حسین اور ان کے وفادار ساتھی وقت کا انتظار کریں گے‘ اگر چہ حالات ان کے لیے پہلے سے سازگار کبھی نہیں ہو سکتے۔ ہمیشہ کی طرح حقیقی گروپ کا کردار محدود رہے گا۔ مہاجر اسے مسترد کر چکے کہ آخری تجزیے میں یہ مسلّح افراد کا ایک گروہ ہے۔ آزاد سیاست کی بجائے جو اسلحے اور فدائین پہ انحصار کرتا ہے۔ پاک سرزمین پارٹی کا کیا ہو گا‘ جس کے سربراہ مصطفی کمال دھڑلے سے سچ بولتے ہیں۔ دو نکات اہم ہیں۔ ایک یہ کہ کس قدر تحّرک کا وہ اظہار کرتے ہیں‘ ثانیاً کراچی شہر کے مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے کتنی منصوبہ بندی اور ریاضت وہ کر پاتے ہیں۔ ایک طے شدہ منصوبے کے تحت‘ ان کے بارے میں پروپیگنڈہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ان کی پشت پر کھڑی ہے۔ ایک مناسب اور جرأت مندانہ حکمت عملی کے ساتھ‘ انہیں اس پروپیگنڈے کا اثر زائل کرنا ہو گا۔ بدقسمتی سے بھارتی حکومت‘ پاکستانی معاشرے‘ کراچی اور لاہور ایسے شہروں اور میڈیا میں رسوخ پیدا کر چکی ۔ ایک ہی مفہوم کی بہت سی آوازیں جب ایک ساتھ اُٹھتی ہیں تو ظاہر ہے کہ ایک خاص تاثر پیدا کر دیا جاتا ہے۔ کتنی ہی عاصمہ جہانگیریں‘ کتنے ہی آئی اے رحمن اور کتنے ہی نجم سیٹھی بروئے کار ہیں۔ ان سب کا ہدف پاک فوج ہے ۔ نالائق حکمرانوں کی موجودگی میں‘ وہی استحکام کی ضمانت مہیا کرنے والا ایک ادارہ ہے۔
بار بار یہ سوال اٹھایا گیا کہ چھ برس گزر جانے کے باوجود الطاف حسین کے خلاف ‘عمران فاروق قتل کیس اور منی لانڈرنگ کیس میں کوئی پیش رفت کیوں ممکن نہ ہو سکی۔ برطانیہ کی شہرہ آفاق پولیس کی کارکردگی ایسی مایوس کن کیوں ہے؟ اس سوال کا کوئی جواب نہیں ملتا۔
اب خود برطانیہ کے اندر سے دبائو بڑھنا شروع ہوا ہے۔ لارڈ نذیر کے بعد ناز شاہ نے کہ برطانوی پارلیمان کی رکن ہیں، جرأت مندی کے ساتھ آواز بلند کی ہے۔ اس سے بھی زیادہ یہ کہ چوہدری نثار علی خاں کی قیادت میں وزارت داخلہ بروئے کار آئی ہے۔ تھوڑی سی حرکت دکھائی دیتی ہے۔ مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لیے‘ لندن میں پاکستانی برادری کو اپنا فرض ادا کرنا ہو گا۔ اسی طرح حکومت پاکستان کو سری لنکا‘ تھائی لینڈ اور جنوبی افریقہ کی حکومتوں سے بھی رابطہ کرنا ہو گا۔ ہماری خفیہ ایجنسیاں ان ملکوں کے تعاون سے ان کی نقل و حرکت پر نگاہ رکھ سکیں تو آئندہ برسوں میں دہشت گردی کا ناسور ختم ہو جائے۔ کہا جاتا ہے وزیراعظم کے حکم پر سری لنکا‘ نیپال اور بنگلہ دیش میں آئی ایس آئی کی سرگرمیوں کو محدود کر دیا گیا ہے‘ جہاں سے بھارت کے بارے میں بہت قیمتی معلومات ملا کرتی تھیں۔
وہی نکتہ : ملکوں اور قوموں کی حفاظت‘ فقط افواج اور حکومت نہیں‘ بلکہ زندہ و بیدار اقوام کیا کرتی ہیں۔ پاکستانیوں کو اپنا مستقبل عزیز ہے تو خواب غفلت سے انہیں جاگنا ہو گا۔