حریف جنگی جنون کا شکار ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم بھی پاگل ہو جائیں۔ زندگی دانش میں ہوتی ہے، احساسات کے وفور میں نہیں۔ بجھ جانے یا بھڑک اٹھنے کا نہیں، حیات سلگتے رہنے کا نام ہے۔
قدیم ایران کی جس جنگ کا انجام عالمی اسلامی غلبے پر ہوا، عمر فاروقِ اعظمؓ اس سے گریزاں تھے۔ کہا تھا: میں چاہتا ہوں کہ ایران اور عرب کے درمیان آگ کی ایک دیوار حائل ہو جائے۔ بزدلی ایک بڑی انسانی کمزوری ہے لیکن وحشت بھی کوئی خوبی نہیں۔ غلبے کی جبلت سے مغلوب ہو جانا بھی کوئی فضیلت نہیں۔
عمر ابن خطابؓ سمیت بعض اصحاب صلحِ حدیبیہ پر شاد نہ تھے۔ معاہدہ لکھا جانے لگا تو جو اوّلین الفاظ درج کیے گئے، وہ یہ تھے ''محمدالرسول اللہ اور...‘‘ قریش نے اعتراض کیا: سارا جھگڑا تو اسی پر ہے۔ سیدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ سے آپؐ نے ارشاد کیا کہ اس کی بجائے ''محمدؐ بن عبداللہ‘‘ لکھ دیا جائے۔ بھتیجے کو گوارا نہ تھا۔ آپؐ نے قلم پکڑا اور اپنے ہاتھ سے وہ الفاظ حذف کر دیے۔ لوحِ جہاں پہ آپؐ کی نبوت دائمی تھی۔ تاریخ میں ایک عبرت کے طور پر باقی رہ جانے والے کاغذ پر رقم نہ بھی ہو تو پھر کیا؟ ظاہر ہے کہ چودہ سو برس پہلے ایرانیوں اور عربوں کی جنگ میں میزائل آگ نہ برساتے، توپیں نہ دھاڑتیں۔ شہری آبادیوں کو ہدف نہ ہونا تھا۔ مرنے والے اب صرف میدانِ جنگ میں نہیں مرتے۔ شہروں کے شہر جل اٹھتے ہیں۔
24 برس ہوتے ہیں۔ کابل شہر میں داخل ہونے سے پہلے ہاتھ دھونے کی ضرورت پڑی۔ سامنے دریا بہہ رہا تھا۔ کسی نے چیخ کر روکا۔ پانیوں کے کنارے بارودی سرنگیں بچھی تھیں۔ کس بے دردی اور بے حسی کے ساتھ افغانستان پر روسی حملے کو بھلا دیا گیا۔ تیرہ لاکھ افغان اس میں قتل ہوئے اور اتنے ہی اپاہج ۔ ہزاروں برس سے آباد چلے آتے دیہات کھنڈر ہو گئے۔ افغانستان کے کھنڈر دیکھے ہیں اور کوچہ و بازار میں بھیک مانگتی عورتیں ہر طرف۔ اس بربادی سے دشمن کو بھی خدا محفوظ رکھے۔
سید علی گیلانی نے لکھا ہے: بھارتی اپنے اٹھارہ فوجیوں کو نہیں بھول سکتے تو اپنے چھ لاکھ شہیدوں کو ہم کیسے فراموش کر سکتے ہیں۔ کشمیریوں نے بھارت کے ساتھ رہنے سے انکار کر دیا ہے۔ ہندوستان کے مختلف گوشوں سے اخبار نویس سری نگر کا قصد کرتے ہیں، وہ حیرت زدہ رہ جاتے ہیں۔ کشمیری اور بھارتی اب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بیگانہ ہیں۔
آٹھ ہزار مزید فوج وادی میں پہنچا دی گئی ہے۔ سات لاکھ دلاور کوئی کارنامہ سرانجام نہ دے سکے تو سات لاکھ آٹھ ہزار کیا کریں گے؟ سینکڑوں برس سے غلام چلے آتے کشمیری تہیّہ کر چکے۔ جلد یا بدیر کوئی فیصلہ ہو کر رہے گا۔ یہ وقت کا فرمان ہے اور قدیم عرب یہ کہا کرتے تھے‘ ''الوقت سیف قاطع‘‘۔ وقت ایک کاٹ دینے والی تلوار ہے۔ کوئی وقت اچھا ہوتا ہے اور نہ بُرا۔ خوش قسمتی کوئی چیز ہے اور نہ بدقسمتی۔ جنگ سے اگر امن کی آرزو جنم لے تو ظاہری قرار کے اس زمانے سے یہ بہتر ہے، جس میں ظلم برپا ہو۔ افتادگانِ خاک رو رو کر جیتے ہوں۔ آزمائش اور تکلیف سے سبق سیکھ لیا جائے تو آسودگی کے اس دور سے وہ افضل ہے، فریبِ نفس میں جو مبتلا کرے۔ سیدنا علی ابنِ ابی طالب ؓ نے فرمایا: تکبر گناہ کی طرف لے جاتا ہے۔ تکبر آسودگی اور کامیابی میں جنم لیتا ہے۔ گزشتہ دو اڑھائی صدیوں میں نفسیات پہ بہت عرق ریزی ہوئی مگر رائیگاں، بالکل ہی رائیگاں۔ نفسِ انسانی کی پیچیدگیوں اور مضمرات کو وہ زیادہ جانتے تھے، پیمبرؐ سے جنہوں نے تعلیم پائی۔ انفس و آفاق میں وہ غور کیا کرتے اور قرآنِ کریم میں ان کا ذکر محبت کے ساتھ ہے۔ ''الَّذِینَ یَذْکُرُونَ اللَّہَ قِیَامًا وَقُعُودًا وَعَلَیٰ جُنُوبِہِمْ وَیَتَفَکَّرُونَ فِی خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْض‘‘۔ اٹھتے بیٹھتے اور پہلوئوں کے بل لیٹے، اللہ کو وہ یاد کرتے ہیں، زمین و آسمان کی تخلیق پہ وہ غور کیا کرتے ہیں۔ ایک دوسرے مقام پر ارشاد یہ ہے کہ اگر کوئی ناقص خیال ان کے ذہن میں ابھرے تو وہ چونک اٹھتے ہیں۔
آدمی کی زندگی، اس کے خیالات اور افکار ہی سے مجسم ہوتی ہے۔ سویرے طبیعت میں اگر چڑچڑا پن ہو، دوسروں کو لتاڑنے کی خواہش جاگے تو اس کا مطلب کیا ہے؟ یہ کہ ابلیس کے لیے نفس کی مٹی زرخیز ہے۔
پندرہ برس ہوتے ہیں، شاہراہِ ریشم کے دامن میں اگّی نام کے قصبے میں، ایک فقیر کی زیارت ہوئی۔ چار گھنٹے کے تھکا دینے والے سفر کے بعد سید رئوف شاہ سے ملاقات ہوئی تو سفید کرتے شلوار پہ نگاہ ڈالی اور کہا: آپ کوئی سیٹھ ہیں یا پڑھے لکھے آدمی؟ عرض کیا: سیٹھ تو قطعی نہیں، پڑھا لکھا بھی واجبی۔ زمین پر وہ فروکش تھے۔ سامنے ایک چھوٹا سا ڈیسک، جیسا کہ قدیم زمانے میں ہوا کرتا۔ اس میں بھڑوں کا چھتہ۔ ایک ذرا سی الجھن ہوئی تو فرمایا: ہمارا ان سے معاہدہ ہے۔ پھر سوال کیا: مخفی علوم سے آپ کو کیا حاصل ہو گا؟ مسافر ٹھٹھکا۔ یہ تو ایک صاحبِ کشف ہے۔ عرض کیا: حرج بھی کیا ہے؟ ارشاد کیا: ظواہر یعنی نماز روزے سے کیا سب کچھ حاصل کر لیا؟ پھر بتایا کہ 35 برس تک انہوں نے ریاضت کی۔ تصوف کے چاروں سلسلوں میں خلافت پائی۔ ایک دن وضو کرتے ہوئے گرد و پیش کے گنوار پن کا خیال آیا تو وہ چونک اٹھے۔ اپنے آپ سے کہا: رئوف شاہ، انسانوں کو اگر حقیر سمجھتا ہے تو عمر بھر کی مشقت سے تو نے کیا پایا؟ کہا: تب فرائض کے سوا سب کچھ میں نے ترک کر دیا۔ سوچا کہ اصحابِؓ رسولؐ کا سادہ سا اسلام ہی اچھا ہے۔ دو برس ہوتے ہیں، جب عصرِ رواں کے عارف نے ایک روز اچانک کہا: چھوڑیے، تصوف بھی کیا ہے، اسلام بس یہ ہے کہ اللہ کو آدمی یاد رکھے اور اس کے بندوں سے محبت کرے۔
اصل بات بیچ میں رہ گئی۔ اذان بلند ہوئی تو ہم سفر نے اشارہ کیا کہ گفتگو تمام کر دی جائے۔ کہا: اذان کے بعد شاہ جی بات نہیں کرتے۔ ٹھنڈے پانی سے وضو کیا۔ کچھ دیر قبل علما کے ایک وفد اور کراچی کے ارب پتی تاجروں کے بارے میں کہا تھا: ان سب کی کوشش یہ ہے کہ مجھے پیر بنا دیں۔ انشاء اللہ ایک عام مسلمان کی موت مروں گا۔ نماز کے انتظار میں تھا کہ رسان سے چلتے ہوئے شاہ جی میرے پاس تشریف لائے اور کہا: یہاں نماز نہیں ہوتی... خاموشی کا ایک وقفہ اور پھر اضافہ کیا: بلکہ حضوری کی ایک کوشش!
ہم ایک منقسم اور بے سمت معاشرہ ہیں۔ سائنسی اندازِ فکر سے محروم، جذبات اور تعصبات سے مغلوب۔ ہمیں علم درکار ہے اور ہیجان سے نجات۔ ایک نظامِ معیشت اور اس سے پہلے ایک نظامِ عدل کی تشکیل۔
حریف جنگی جنون کا شکار ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم بھی پاگل ہو جائیں ۔ زندگی دانش میں ہوتی ہے، احساسات کے وفور میں نہیں۔ بجھ جانے یا بھڑک اٹھنے کا نہیں، حیات سلگتے رہنے کا نام ہے۔