خوداحتسابی پر کپتان اگر آمادہ نہ ہوا تو ظفرمندی کا آفتاب اس پر طلوع نہ ہو سکے گا۔ ہوا تو دیکھتے ہی دیکھتے ڈوب جائے گا۔ پھر ایک دن کوئی اسے بتائے گا۔
آئے عشّاق گئے‘ وعدہ فردا لے کر
اب انہیں ڈھونڈ چراغِ رخِ زیبا لے کر
مستقل طور پر کارفرما مشکل یہ ہے کہ عمران خان کا ذہن سیاسی نہیں۔ ثانیاً ان کے مشیر ناقص ہیں۔ پارٹی میں انتشار اور دھڑے بندی سے‘ دبائو کا شکار رہنے کی وجہ سے، ان کی بات وہ زیادہ سنتے ہیں جو ان کے موقف کی تائید کریں۔ ان کی افتاد طبع کا ایک دوسرا کمزور پہلو یہ ہے کہ دل کا بوجھ ہلکا کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔
اکتوبر2011ء کے تاریخ ساز جلسہ عام کے چند ماہ بعد، اتنے ہی بڑے ایک دوسرے جلسہ عام سے قبل، میں نے ان سے کہا کہ اپنے حریف لیڈروں، نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن کا نام لے کر، نکتہ چینی کرنے کے بجائے، اشارے میں بات کریں، لہجہ بھی شائستہ رکھیں۔ میری بات انہوں نے مان لی مگر یہ کہا :مجھے اچھی نیند نہیں آئے گی۔
کامیاب ترین سیاستدان قائداعظم محمد علی جناح تھے۔ دبائو پوری طرح برقرار رکھتے مگر ذاتیات سے بہرحال گریز کرتے۔ الفاظ کے انتخاب میں بہت ہی محتاط‘ اپنے موقف سے سرِمو اگرچہ انحراف نہ کرتے۔ پہاڑ اپنی جگہ سے ہل سکتا تھا ‘محمد علی ہرگز نہیں۔ اس کے باوجود‘ جہاں ممکن ہو‘ لچک کا مظاہرہ کرتے۔ سیاست ان کے نزدیک دو چیزوں کا نام تھا۔ بلند مقاصد یعنی مسلم برصغیر اور بحیثیت مجموعی امت مسلمہ کی سرفرازی ثانیاً بہترین حکمت عملی کی تشکیل ۔اسے وہ Real Politics کا نام دیتے۔
تاریخ کے دوعظیم ترین فاتحین چنگیز خان اور امیر تیمور کا موازنہ کرنے والے مورخ بعض دلچسپ نکات بیان کرتے ہیں۔ چنگیز خان کے مشیر لائق اور فرزند تربیت یافتہ تھے۔ اس کے باوجود مغلوں کا سردار، باریک ترین جزیأت مرتب کیے بغیر میدان جنگ کا رخ کبھی نہ کرتا۔ سات سات دن اس کام میں جتا رہتا۔ اپنے ساتھیوں پر تیمور بے حد مہربان تھا۔ تحائف اور انعامات کی بارش کردیتا مگر مستقل وزراء کی کھکھیڑ انہوں نے کبھی نہ پالی۔ اس کے فرزندوں میں سے کوئی ڈھنگ کا سالار نہ تھا۔ ساتھیوں میں بعض حیران کن حد تک شجاعت کا مظاہرہ کرتے۔ بیشتر مگر منصوبہ بندی کے جوہر سے نابلد۔ تیمور کی عدم موجودگی میں، اس کی سپاہ نصف قوت کی حامل رہ جاتی۔
سیاست جنگ سے زیادہ مشکل ہے۔ قائداعظم کے لیے اور بھی مشکل تھی۔ اس لیے کہ اخلاقی اقدار سے رتی برابر انحراف گوارار نہ تھا ۔ جھوٹ نہ بولتے ‘ہرحال میں وعدہ وفا کرتے،ذرہّ برابر خیانت کا ارتکاب نہ کرسکتے اور کردار کشی کا کبھی ارتکاب نہ کیا۔ لارڈ مائونٹ بیٹن کی اہلیہ اور پنڈت جواہر لعل نہرو کی خط و کتابت، ان کی خدمت میں پیش کردی گئی تھی۔ اس کی اشاعت انہوں نے روک دی اور نہایت سختی کے ساتھ۔
حال یہ تھا کہ آل انڈیا کانگرس‘ مسلم برصغیر کی گردن پر سوار ہونے کا تہیہ کر چکی تھی۔ اس کی صفوں میں موجود انتہا پسند‘ مسلمانوں کے سات سو سالہ اقتدار کا بدلہ چکانے کا ارادہ رکھتے تھے۔ ابوالکلام آزاد‘ حسین احمد مدنی‘ اور عطاء اللہ شاہ بخاری ایسے لیڈر کانگرس کے ساتھ تھے۔ ابوالکلام آزاد کی تجویز پر قائم ہونے والی احرار اور جمعیت علماء اسلام بھی‘ جس کی صد سالہ سالگرہ پہ مولانا فضل الرحمن نے پرسوں فخر کا اظہار کیا۔ گاندھی کی خیرہ کن مقبولیت سے مرعوب اور قائداعظم سے بیزار۔ جس پذیرائی سرپرستی‘ اعانت اور ستائش کے وہ آرزومند تھے‘ قائداعظم کے مزاج میں اس کی گنجائش ہی نہ تھی۔ دوسروں کی وہ عزت کرتے مگر ریاکاری اور لجاجت ان کے لہجے میں داخل ہی نہ ہو سکتی تھی۔بہادر یار جنگ‘ مولانا اشرف علی تھانوی‘ مولانا شبیر احمد عثمانی‘ مفتی محمد شفیع‘ مولانا دائود غزنوی اور مولانا ظفر احمد انصاری‘ سمیت علماء کی ایک بڑی تعداد ان سے آ ن ملی تھی۔
''شیر بنگال‘‘ فضل الحق مستقل طور پر دردسر بنے رہتے۔ کبھی کبھی تو بنگال کے وزیراعظم حسین شہید سہروردی بھی۔ عبدالغفارخان حریف تھے‘ جی ایم سید ناراض ہو کر الگ ہوئے اور انتقام پر تلے تھے۔ پنجاب کے وزیراعظم سکندر حیات ان کا مذاق اڑایا کرتے کہ ممبئی کے انگریزی بولنے والے وکیل کی بات وہ کیسے مان سکتے ہیں۔ لارڈ ویول کو قائداعظم سے ''خود سری‘‘ کی شکایت تھی اور لارڈ مائونٹ بیٹن کو سردمہری کی۔ وائسرائے اور ان کی اہلیہ جن عوارض میں مبتلا تھے‘ اس کے بعد حسن ظن کی امید ‘ معلوم نہیں وہ کیوں رکھا کرتے۔ بایاں بازو سوویت یونین کے زیراثر تھا؛ ذہنی طور پر سیکولر اور سوشلزم کا نعرہ لگانے والے نہرو کے زیادہ قریب۔ وہ مگر سیانے تھے۔ تین چوتھائی مسلمانوں کی تائید کے بعد‘ پاکستان کے مطالبے کی انہوں نے حمایت کر دی۔بعد ازاں اسے ڈھانے پر تلے گئے‘ کچھ ملّابھی ۔
1946ء میں ڈاکٹر نے صاف صاف کہہ دیا کہ ایک سال سے زیادہ وہ زندہ نہ رہیں گے۔ ان کی صحت پہلے ہی صحت برباد تھی۔ ڈھاکہ سے پشاور تک انہیں سفر کرنا پڑتا۔ محترمہ فاطمہ جناح نے لکھا ہے کہ نصف شب کو نواح لاہور کے ایک ریلوے سٹیشن پر مختصر سے خطاب کے بعد بے ہوش ہو گئے۔ اس کے باوجود فضل الحق‘ سکندر حیات اور غفار خاں سمیت‘ سبھی سے انہوں نے طول طویل مذاکرات کئے۔ لندن جاتے رہے۔ گاندھی سے ملتے رہے۔ کمال احتیاط سے ملک بھر میں ٹکٹ تقسیم کئے اور جب بھی ممکن ہوا پارٹی میں نہایت ہی منصفانہ الیکشن کرائے۔
قائداعظم کی بے مثال کامیابیوں کا راز‘ اللہ پر ان کے توکل اور غیر معمولی جذباتی توازن میں پوشیدہ تھا۔ اپنے آپ سے ہمدردی آدمی کی سرشت میں ہوتی اور وہی اسے تباہ کرتی ہے‘ خود پر ترس کھانے کی عادت۔ خود سے زیادتی اور ناانصافی کا شکوہ۔ کامران وہی ہوتے ہیں جو خود ترسی سے اوپر اُٹھ جاتے ہیں۔ جی ہاں‘ قائداعظم سخت تھے لیکن صرف ڈسپلن میں۔ ان کے ساتھیوں اور ماتحتوں اور ذاتی ملازموں کو تلخ کلامی کا گلا کبھی نہ ہوا۔ علامہ مشرقی نے راولپنڈی میں مدعو کیا اور آدھ گھنٹہ انتظار کرایا۔ شکایت کا ایک لفظ زبان پر لائے بغیر اُٹھ کر چلے گئے۔ صرف یہ کہا "I think, he is busy" قائداعظمؒ میں غیرمعمولی حسن کردار کا راز پوری طرح نہیں کھلتا۔ قرآئن یہ ہیں‘ جینیاتی توازن‘ اچھے ماں باپ‘ سندھ مدرستہ الاسلام کے اساتذہ‘ مزاج کی خودداری‘ علم سے رغبت۔ سب سے بڑھ کر اسی خودداری اور عزت نفس کے لیے تہذیب نفس کی مسلسل جستجو‘ ہمیشہ ہر روز۔ اللہ کی رحمت ان پر ٹوٹ ٹوٹ کر برسی۔ عارف کا کہنا یہ ہے کہ جو اس کے طلب گار ہوں انہی پر زیادہ برستی ہے۔ پروردگار کی صفتِ رحم‘ اس کی صفتِ عدل پر غالب ہے اور اللہ کی آخری کتاب اس کا اعلان کرتی ہے ''جب اس نے آدمی کو پیدا کرنے کا ارادہ کیا تو اپنے آپ پہ رحمت کو لازم لکھا‘‘
مالی معاملات میں عمران خان دیانت دار ہیں۔ جفاکش اور پرعزم۔ خود کو مگر وہ برگزیدہ سمجھتے اور اپنی آرزئوں کو آسودہ کرنے کے آرزومندرہتے ہیں۔ علم کم ہے اور امنگیں بے حساب۔ اقتدار کی خواہش غالب ہے اور ادراک نہیں کہ زندگی آدمی سے سمجھوتہ نہیں کرتی‘ آدمی کو زندگی سے سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے۔ انتظار کرنا پڑتا ہے۔ برہمی‘ خودترسی اور دوسروں کو کوسنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ شاہ محمود اور جہانگیر ترین کے مشورے پر پارلیمنٹ کے بائیکاٹ کا جو فیصلہ اس نے کیا‘ یکسر غلط اور تباہ کن ثابت ہوگا۔ اگرچہ اب بھی اندمال اور تلافی ممکن ہے۔ فیصلے وقت کا دھارا کرتا ہے یعنی زمانہ ۔فرمایا : زمانے کو برا نہ کہو‘ میں ہی زمانہ ہوں۔ دھیرج اور صبر اس میں نہیں‘ ایمان کے بعد مسلمان کے لئے کامیابی کی جو شرط اول ہے۔ میاں محمد نوازشریف اور جناب آصف علی زرداری سے یہ قوم نجات کی آرزومند ہے۔ لاکھوں نوجوان اس کے ساتھ ہیں۔ حکمت مگر نام کو نہیں۔ ایسے میں اقتدار مل بھی گیا تو برقرار کیسے رہے گا۔ قوم کو وہ سرفراز کیسے کر سکے گا؟
اس وقت بھی جب روزمرہ کا رابطہ اور تعلقات زیادہ پرجوش تھے‘ ناچیز نے کبھی نہ چاہا کہ وہ میری لکھی عبارت پڑھے۔ میری آرزو ہے کہ آج کوئی اسے پڑھا دے۔
خوداحتسابی پر کپتان اگر آمادہ نہ ہوا تو ظفرمندی کا آفتاب اس پر طلوع نہ ہو سکے گا۔ ہوا تو دیکھتے ہی دیکھتے ڈوب جائے گا۔ پھر ایک دن کوئی اسے بتائے گا۔
آئے عشّاق گئے‘ وعدہ فردا لے کر
اب انہیں ڈھونڈ چراغِ رخِ زیبا لے کر
پس تحریر : صرف تقاریر کافی نہیں‘ وزیراعظم عملی اقدامات بھی کریں۔ اپنے اقتدار میں شریک مولانا فضل الرحمن اور محمود اچکزئی کو انتباہ کریں کہ وہ پاکستان کی قومی سلامتی کے بارے میں دانستہ غلط فہمیاں پیدا نہ کریں‘ دشمن کی مدد نہ کریں۔